یاہو! بھارت ورلڈ کپ سے باہر


رنبیر کپور کو روسٹ کرنے کے ایک کامیڈی پروگرام میں کامیڈین نے بڑی خوب صورت پنچ لائن بولی کہ جس دن ویرات کوہلی سنچری کرتا ہے `تو ایک سو تیس کروڑ انڈین خوش ہوتے ہیں صرف ایک رنبیر کپور شدید دکھی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس کی وجہ انوشکا شرما ہے جو اب ویرات کوہلی کی بیوی ہے۔ بات سمجھ میں آتی ہے۔

ویرات کوہلی اور رنبیر کپور جیسا معاملہ ہمارے ایک سو بیس وزارتیں انجوائے کرنے والے، گیٹ نمبر چار کے اعلانچی محض اور عاجز نظریاتی سیاسی لیڈر جناب شیخ صاحب اور بھارت کے درمیان بھی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ویرات، رنبیر اور انوشکا کی ٹرائی اینگل کے تینوں کونے تو نظر آ رہے ہیں۔ لیکن بھارت، شیخ رشید کی تکون میں تیسرا کونا معلوم نہیں پڑ رہا۔

حالیہ ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے کرکٹ میچ میں پاکستان کی جیت پر شیخ صاحب نے ایک زبردست بیان جاری کر کے ہمیں خوش کر دیا۔ فرماتے ہیں کہ ہم نے بھارت کے خلاف ٹی 20 ورلڈ کپ کا صرف ایک میچ ہی نہیں جیتا، غزوہ ہند جیت لی ہے۔ مزید کہا کہ یہ اسلام کی فتح ہے۔

انہوں نے قوم کو یہ بھی بتایا کہ پچھلے چوہتر برسوں میں بھارت کے خلاف یہ ہماری سب سے بڑی فتح ہے۔ شیخ صاحب کی اس لائن نے بھارت کے خلاف پچھلے چوہتر برسوں میں ہماری لامحدود فتوحات کو محدود کر دیا اور یہ بات خطرناک ہو سکتی تھی لیکن وہ بچ گئے۔ ان کے محفوظ رہنے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ لائن سچ ہے اور دوسرا یہ کہ ان کی اپنی حب الوطنی اور سیکیورٹی کلیرنس شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ وہ اپنی عاجزانہ طبیعت کی وجہ سیکیورٹی کے معاملات پر اعلانچی سے آگے نہیں جاتے۔ وہی کہتے ہیں جو انہیں کہا جاتا ہے، وہی چلتا اور بکتا بھی ہے۔

یہی بکتا ہے اسی لیے تو ہمارے سب سے بڑے اردو اخبار کی شہ سرخی ”بھارت ورلڈ کپ سے باہر“ ہماری بے پناہ خوشی کو اپنی جیت سے نہیں بلکہ بھارتی ٹیم کی شکست سے جوڑتی ہے۔ ویسے اس بات میں کچھ منطق بھی ہے۔ ہمیں خوش ہونے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ بھی بغیر کچھ کیے۔ یعنی بھارت نے بری کارکردگی دکھائی اور ہم خوش۔ اس طرح سے ہمیں اپنی کارکردگی پر زیادہ دھیان دینے کی ضرورت بھی نہیں رہتی۔

بس افغانستان کی کرکٹ ٹیم نے مایوس کیا۔ پاکستان دشمنی میں بک گئے۔ حالانکہ پچھلے چالیس برسوں میں کیا نہیں کیا ہم نے افغانستان کے لیے۔ اتنی قربانیاں دیں ہم نے کہ دونوں ہی برباد ہو چکے ہیں۔ اور وہ ہیں کہ ہمارے لیے بھارت سے ایک کرکٹ میچ نہیں جیت سکے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ ہمارے افغان بھائیوں کی بھی بس ہو گئی ہے۔ ڈر یہ ہے کہ بہت جلد پاکستان میں تحریک خلافت دوبارہ چل رہی ہو گی کہ افغانستان کا اسلامی تشخص بچایا جائے۔ اور افغان بھی ہمیں کہہ رہے ہوں گے کہ بڑی ہو گئی بھیا اسلامی تشخص پاکستان کو ہی نصیب ہو۔ جیسے مولانا محمد علی جوہر کے وقت ترکوں نے کہا تھا کہ بھئی بڑی ہو گئی اب خلافت اگر بہت پسند ہے تو انڈیا لے جاؤ (پاکستان ابھی بنا نہیں تھا ورنہ ہم نے لے بھی آنی تھی) ۔

شیخ رشید اور ہمارے میڈیا کے اس طرز اور عوام میں ان بیانات اور شہ سرخیوں کی کھپت کا سرچشمہ ایک ہی ہے۔ جہالت۔ ہم اپنی اس کمائی کو قائم رکھیں گے۔ اب تو یکساں نصاب تعلیم بھی آ رہا ہے، رہی سہی کسر پوری کرنے کے لیے۔ حالانکہ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کو تو یقین ہے کہ اس سلسلے میں مزید محنت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں کو یہ فکر ہے کہ جیسے دشمن کے مرنے پر خوش ہونا کوئی مناسب بات نہیں ہے اور عقل کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں دوسروں کی ناکامیوں کی بجائے اپنے آپ پر دھیان دینا چاہیے۔ ہم ان کی شکست پر اتنے خوش ہیں تو ان کی فتوحات پر کتنے دکھی ہوتے ہوں گے۔ اور یہ بھی کہ پچھلے اتنے برسوں سے تو ویرات کوہلی نے ہمیں اور رنبیر کپور کو کتنا ”ساڑ“ کے رکھا ہوا ہے۔

لیکن اس دنیا کا سوچنے والے لوگ ہماری طاقت سے واقف ہی نہیں ہیں۔ اللہ نے ہمیں سب کچھ دے رکھا ہے اور باقی ہم پہلے امریکہ سے لیتے تھے اور اگر اب وہ مکر گیا تو چین سے لینے کی کوشش کریں گے۔ لیکن ”ہندستان“ کی ناکامی پر خوش ہو کر اپنی حب الوطنی کا ثبوت ضرور دیں گے۔

ہمارا میڈیا بھی اچھا ہے۔ ہمیں نصیحت کرنے نہیں بیٹھ جاتا۔ خبر اسی انداز میں دیتے ہیں کہ ہماری جہالت، غیرت اور بھارت دشمنی قائم رہے۔ اسی لیے تو ”بھارت ورلڈ کپ سے باہر“ ہی مناسب شہ سرخی ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments