اپنوں کا خون بہانے سے گریز


ٹی ایل پی کی ساخت کیسی ہے؟ اس کی پرورش و پرداخت کہاں ہوئی؟ کس نے کی؟ یہ سوالات اب تشنہ جواب نہیں رہے۔ ہر باشعور شخص حقائق سے بالواسطہ طور پر آگاہ ہو چکا اور اس کا سہرا جدید ذرائع ابلاغ کے سر جاتا ہے جو قدغنوں کے برساتی موسم میں بھی بھیگنے سے محفوظ رہے۔ جبر کی تاریک تر شپ کی سیاہی زندہ ضمیر اہل قلم و خبر کے لئے روشنائی بن رہی ہے۔ چنانچہ وہ جو پردے کے عقب میں رہتا تھا جدید تیکنیکی ماحول میں طشت ازبام ہو رہا ہے جبکہ بدلتی ہوئی تیکنیکی صورتحال سے اہل جبر ناخوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس مدہم لو کو بھی منہدم کر دیں مگر سائنس کی ایجادات کے خلاف کون سینہ سپر ہوا ہے جو اب ہو پائے گا!

ٹی ایل پی کو 5.8 فیصد کی سالانہ شرح سے ترقی کی طرف لے جاتی حکومت کو اقتدار سنگھاسن سے باہر نکالنے کے لئے میدان میں اتارا گیا تھا اس محاذ کی اگلی لڑائی میں ٹی ایل پی 2018 ءکے عام انتخابات میں پری پول ریگنگ کے لئے اپنی فتح یا کامیابی کے برعکس کسی دوسری جماعت کی فتح یا کسی جماعت کا ووٹ بینک تقسیم کر کے اسے ہرانے میں اہم کردار اور معاونت مہیا کی تھی۔

فرانس میں نبی اکرمﷺ کی شان میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف ٹی ایل پی نے اپنی جماعتی قوت متحد اور متحرک رکھنے کے لئے دھرنے دیے تو معاملات کو درست طور پر طے کر نے کی بجائے درپیش کشیدگی ٹالنے کے لئے 16 نومبر 2019 کو وفاقی وزراء اور ٹی ایل پی کے مابین ایک تحریری معاہدہ کیا گیا۔ جس میں ناعاقبت اندیشی کی اعلیٰ مثال قائم ہوئی، وفاقی وزیر داخلہ ریٹائرڈ بریگیڈئیر اعجاز شاہ اور وزیر مذہبی امور پیرزادہ انوارالحق قادری نے دستخط کیے جس میں وعدہ کیا گیا کہ ٹی ایل پی کے مطالبے پر عملدرآمد کے لئے پارلیمنٹ سے رجوع کیا جائے گا تاکہ فرانسیسی سفیر کو پاکستان سے بیدخل کیا جا سکے اس کے لیے تین ماہ کے اندر عمل کی یقین دھانی کرائی گئی اس معاہدے کی دستاویز نے فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات کے خاتمے کو حکومتی پاکستان کے ایجنڈے میں شامل کر دیا۔ چنانچہ مغرب میں پاکستان کے متعلق یہ سوال اٹھا کہ یہ ملک سرکاری سطح پر مسلح تنظیموں کی سرپرستی کرتا ہے اور پھر ان کے ایجنڈے کو سرکاری طور پر اپناتا ہے۔ لہذا پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے ذریعے مانیٹر کرنے کا عمل مشکل تر بنا دیا گیا۔

فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا ۔ دنیا میں شاید کوئی بھی ملک فرانس کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کا متحمل نہیں۔ مگر سونامی سرکار نے ایسے تحریری معاہدے کی تائیدی دستاویز مرتب کی جس پر عمل کرنے کی اس میں استعداد تھی نہ ہی امکان۔ مگر تحریری معاہدے میں ٹی ایل پی کے مطالبات کو تسلیم کر لیا گیا۔ یہ معاہدہ ٹی ایل پی کے ساتھ تعاون کے لئے ہاتھ ملانے کے مترادف تھا اب وزیراعظم قائد حزب اختلاف کے ساتھ ہاتھ ملانے ( مصافحہ کرنے ) سے مسلسل اجتناب کی وضاحت کرتے ہوئے غیر قانونی منطقی استدلال کا سہارا لیتے ہیں کہ قائد حزب اختلاف کے خلاف کرپشن کے مقدمات ہیں اگر ان سے ہاتھ ملاؤں تو اس سے کرپشن کو قانونی تائید مل جائے گی۔

اس بیان سے وزیراعظم خود کو قانون کے مماثل سمجھنے کے خبط کا برملا اظہار کر رہے تھے جو جمہوری پارلیمانی ریاستی ڈھانچے کے گہری تشویش کا باعث ہے۔ تاہم اس ٹی ایل پی سے ماضی قریب اور حالیہ ہفتے میں تعاون پر مبنی معاہدے کرتے ہوئے انہیں کس قسم کی خجالت محسوس نہیں ہو رہی جس نے اکتوبر 2021 ءمیں دسیوں پولیس اہلکاروں کو قتل کیا ہے۔ مگر پارلیمان کے رکن اور قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف سے مصافحہ نہ کرنے پر فخر کا اظہار کرتے ہیں دراصل اپنے اس موقف و اقدام سے خان صاحب بالواسطہ طور پر پارلیمانی جمہوری نظام کی بے توقیری کرنے ہیں جو ان کے لاشعور میں سرایت شدہ کجی کا اظہار ہے۔

شہباز شریف کے خلاف مقدمات عدلیہ میں زیر سماعت ہیں تاحال وہ ملزم ضرور ہیں مگر مجرم تو ہرگز نہیں۔ ایسا ہوا تو وہ رکن پارلیمنٹ بھی نا رہ پائیں گے مگر خان صاحب سمجھتے ہیں کہ وہ ملزم نہیں مجرم ہیں اور یہ بھی کہ ان کا دست مبارک۔ دیانتداری کی اعلی سند ہے دریں حالات یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا وہ اپنے رفقاء اور وزراء سے بھی مصافحہ نہیں کرتے ہوں گے ؟

ٹی ایل پی سے معاہدے کی تین ماہ کی معینہ مدت گزرنے کے بعد بھی جب عمل کی صورت نظر نہ آئی تو تحریک لبیک ایک بار پھر سڑکوں پر آ گئی۔ 2021 ء میں ٹی ایل پی نے ملک بھر کو مفلوج کر دیا چنانچہ گھبرائی ہوئی حکومت نے معاملہ ٹالنے کی ایک اور کوشش کے طور پر فرانسیسی سفیر کا معاملہ 20، اپریل تک پارلیمنٹ میں لانے کا وعدہ کیا۔ یہ وعدہ بھی یوٹرن ہی نکلا تو ٹی ایل پی اکتوبر 21 میں پھر متحرک ہو گئی۔ حکومت پہلے اس تنظیم کو خلاف قانون (کالعدم) قرار دے چکی تھی اب کے اسے بھارت کی ایجنٹ بھی قرار دے دیا گیا۔

وزیراطلاعات و وزیر داخلہ نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ تحریک لبیک کے دھرنے کے سامنے ریاستی رٹ قائم رکھنے کے لئے ہر ممکن ذرائع بروئے کار لائے جائیں گے۔ حکومت نے ٹی ایل پی سے بڑھ کر جی ٹی روڈ کو بلاک کیا۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان تشدد آمیز واقعات میں طرفین کے کئی افراد جاں بحق ہوئے۔ صورتحال کا بہاؤ جب کشیدگی کی بلند سطح کو چھونے لگا تب چیف آف آرمی سٹاف نے معاملات اپنے ہاتھ میں لئے۔ انہوں نے بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر ٹی ایل پی سے رابطہ کیا، بات چیت ہوئی اور مذاکرات کے سہولت کاروں کی منشاء پر جو دراصل مظاہرین کی خواہش تھی کے تناظر میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو حکومتی نمائندگی کے لئے آگے بڑھایا گیا بظاہر وفاقی وزیر علی محمد خان اور جناب اسد قیصر بھی اس بات چیت کا حصہ تھے لیکن اصل معاملات ممتاز علم دین مفتی منیب الرحمن ان کے رفقاء اور آرمی چیف کے نمائندوں کے درمیان طے پائے ایک تحریری معاہدہ ہوا، جسے نامعلوم وجوہ پر خفیہ رکھنے کا فیصلہ ہوا ہے اہم نکتہ معاہدے کو برسر عام نہ لانے کا ہے، مفتی منیب صاحب نے واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیا ہے کہ ٹی ایل پی فرانسیسی سفیر کے متعلق کسی قسم کا مطالبہ نہیں کر رہی تھی۔

انہوں نے پریس سے بات چیت کے دوران دو وزرا کے متعلق نازیبا جملہ بھی ارشاد فرمایا جو خود مفتی صاحب کی شخصیت کے منافی تھا معاہدے کے بعد مظاہرین نے جی ٹی روڈ خالی کر دیا ہے لیکن تاحال وہ وزیر آباد کے ایک پارک میں براجمان ہیں وزیر آباد کی شہری زندگی تجارت معطل و مفلوج ہے شہر کا دیگر علاقوں سے رابطہ منقطع ہے۔ حکومت تیزی سے تنظیم کو کالعدم قرار دیے گے فیصلے کو ختم کر رہی ہے، بظاہر اس اقدام کا مقصد امن وامان کی بحالی بتایا جا رہا ہے لیکن معاملہ اتنا سہل و سادہ نہیں، بلاشبہ کالعدم کی فہرست سے اخراج کے بعد ٹی ایل پی ایک قانونی مذہبی سیاسی جماعت کے طور کام کرسکے گی اور اگلے انتخابات میں حصہ لینے کی مجاز ہوگی اس بار بھی اس کا انتخابی کردار گزشتہ انتخابات جیسا ہی ہو گا چنانچہ میرا خیال ہے حالیہ مہم جوئی کے اختتام سے معلوم ہو رہا ہے کہ نئے انتخابات جلد متوقع ہیں نیز پری پول دھاندلی کے لیے ضروری اقدامات شروع کر دیے گے ہیں، کیا آئندہ انتخابات 2018 کی عکس ثانی ہوں گے ؟ ایسا ہوا تو کیا یہ ملک کے وسیع تر مفاد کے منافی نہیں ہو گا؟

جناب سعد رضوی صاحب کی رہائی کے لئے بھی اقدامات ہو رہے ہیں۔ دیکھیے حالات کیا منظر تراشتے ہیں۔ وزیراعظم نے کابینہ کے ارکان کو معاہدے پر گفتگو کرنے سے روک دیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ خود بھی اس کی شرائط و مندرجات سے ناواقف ہوں لہذا انہوں نے اپنی لاعلمی مخفی رکھنے کے لئے اس موضوع کو بحث سے خارج کیا ہو!

مذکورہ تمام واقعات سے تین نکتے اخذ ہوتے ہیں۔

1۔ ملک میں مسلح مذہبی متشدد تنظیمیں یا تنظیم بہت طاقتور ہیں اور یہ بھی کہ ان کی ”توانائی“ میں مقتدرہ نے مقدور بھر حصہ ڈالا ہے۔

2۔ کہا گیا کہ آرمی چیف جناب جنرل قمر باجوہ صاحب نے اپنے لوگوں کا خون بہائے جانے کو ناپسند قرار دیا اور معاملات بذریعہ بات چیت حل کرائے۔ چنانچہ مجھے امید ہے کہ اب اس استدلال کو بلوچستان کے حالات پر منطبق کرنے کا لازمی امکان روشن ہو گیا ہے۔ بشرطیکہ بلوچستان میں بہنے والے ”خون“ کو بھی اپنوں کے زمرے میں شمار کیا جائے۔ بر سبیل تذکرہ یہاں اس سوال کا اعادہ غیر مناسب نہ ہو گا کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور حکومت میں بی آر اے کے ساتھ ہوئے مذاکرات کو کیوں اور کس نے سبوتاژ کیا تھا؟ ان مذاکرات میں بھی تو ملک کو درپیش مسائل کے پرامن حل کی کوشش کی گئی تھی! تمام متحارب فریق بھی اپنے ہی تھے۔ سرکار یا سر مچار تھے تو اپنے ہی لوگ!

خیر کیا اب امید کی جانی چاہیے کہ بلوچستان کے سلگتے ہوئے سیاسی سوال کو حل کرنے کے لئے بھی گولی کی بجائے بولی کو اپنایا جائے گا۔

3۔ جس طرح ٹی ایل پی نے جھتے کی صورت جی ٹی روڈ کو بلاک کر کے اپنے تمام مقدمات ختم کرائے گرفتار کارکنوں کی رہائی ممکن بنائی ہے اس عمل نے ملک بھر سے لاپتہ سینکڑوں افراد کے لواحقین کو ایک موثر لائحہ عمل عطا کیا ہے۔ جسے اپنا کر وہ اپنے پیارے لاپتہ (مسنگ پرسنز) کی بازیابی ممکن بنا سکتے ہیں۔

کیا حکومتی حلقے متذکرہ صدر اخذ شدہ تین نقاط کو غلط ثابت کر سکتے ہیں؟ شاید نہیں۔ کیونکہ ریاست جب وہ آئین و پارلیمان کو راندہ درگاہ یا شجر ممنوع قرار دے کر ملک کے اصل وارث عوام/جمہور کو حق حکمرانی سے محروم رکھے اور ان کے قانونی حقوق کی عطائیگی و تحفظ سے منحرف ہو جائے تو کیا ٹی ایل پی کی اپنائی گئی حکمت عملی مستقبل موثر اور ثمر بار۔ لائحہ عمل ثابت نہیں ہوتا۔

4، ٹی ایل پی کے پرامن مذاکرات اور طاقت کے استعمال سے گریز اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ موجودہ حالات و روش میں پی ڈی ایم کے احتجاج یا دھرنے روکنے میں طاقت کردار ادا نہیں کرے گے۔ دوئم کرونا کی شدت میں کمی بھی پی ڈی ایم تحریک کے سازگار حالات کی عکاس ہے۔ اپوزیشن تحریک عدم کی بجائے عوامی احتجاج کے ذریعے حکومت پر مستعفی ہونے کا دباؤ بڑھائے لیکن اسمبلیوں کی تحلیل سے قبل شفاف منصفانہ مداخلت سے پاک عام انتخابات ممکن بنانے کے لیے مطلوب قوانین منظور کرائے۔ نیز انتخابی عمل میں مداخلت کے موثر سدباب اور بعد ازاں قائم ہونے والی حکومت کو ہر نوعیت کی پالیسی بشمول ملکی دفاع۔ قومی سلامتی خارجہ حکمت عملی کے خد و خال وضع کرنے کی مکمل مجاز ہو اس کے لیے ”ٹھوس ضمانت“ حاصل کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments