گمراہ لڑکی یا بے داغ چاند؟


اس روز ہم لوگ نیشنل میوزیم کی سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ سامنے ٹریفلگر اسکوائر پر ویسی ہی گہماگہمی تھی۔ رات کا وقت تھا اور لندن کے اس موسم گرما کی شب کو میں نے پہلی دفعہ پورا چاند دیکھا تھا۔ مجھے بے اختیار نوری نانی کی یاد آ گئی تھی۔ کراچی کی پی آئی بی کالونی میں جہاں ہمارا گھر تھا، نوری نانی وہیں رہتی تھیں۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا اور پانچ پوتے۔ ان کا بیٹا دیوانہ تھا۔ مجھے یاد ہے ہم لوگ چھوٹے چھوٹے تھے اور ان کا بیٹا چاند کو دیکھ کر ہمکتا رہتا تھا۔

اور چودہویں کے چاند کے ساتھ تو دیوانگی سی طاری ہوجاتی تھی۔ تمام رات سنسان محلے میں سڑکوں پر ، گھروں کی چھت پر چاند کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتا تھا۔ پورے چاند کے ڈھلتے ہی وہ کوئی نہ کوئی نوکری کرتا تھا مگر آدھے چاند کے ساتھ ہی دیوانگی کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ مجھے یاد ہے نوری نانی اور ان کی بہو گلی گلی کام کرتے تھے اور کسی نہ کسی طرح گھر کا چولہا جلا رکھا تھا۔ بڑی مشکل، بڑی کٹھن زندگی تھی ان کی۔ ایک دفعہ انہوں نے میری ماں سے بڑے دکھ سے کہا تھا ”بوا چندا کے لیے تو بچے ہمکتے ہیں اور اور ان کو ہی ہمکنا چاہیے۔ اگر میرے حیدر جیسے باپ ہمکنے لگیں تو پھر بچوں کے ساتھ تو برا ہوتا ہی ہے۔“

حیدر کے بچوں کے ساتھ برا ہی ہو رہا تھا۔ دادی اور ماں جو کچھ کماتی تھیں بیٹے کے علاج پر خرچ کر دیتی تھیں اور بچے صرف پل رہے تھے۔ میں نے مرلن کو نوکری نانی حیدر اور چاند کے بارے میں بتایا تھا۔ اس نے بڑے توجہ سے میری بات سنی تھی۔ مجھے ایسا لگا تھا کہ جیسے اس کے دل کو کچھ لگ سا گیا ہے۔

وہ بولی تھی ”زندگی ایسی ہے، کیسی رونق ہے اور کیسی دیوانگی۔ ہم لوگ بیئر کے کین کھول کھول کر بیئر کے گھونٹ لے رہے تھے۔ چاند کو تکتے رہے تھے، باتیں کرتے رہے تھے۔ اسی دن اس نے مجھے ولی رائن کے بارے میں بتایا تھا۔ ولی ڈبلن کا بھاگا ہوا آئرش تھا۔ لندن میں مرلن سے ملاقات ہو گئی تھی۔“ وہ میری زندگی کا پہلا مرد تھا، جس سے میں نے محبت کی تھی، شادی کا وعدہ لیا تھا۔ مجھے اس وقت لندن میں صرف تین سال ہوئے تھے۔ وہ بھی لندن میں میری ہی طرح سے زندگی گزار رہا تھا۔ ہم روزانہ کہیں نہ کہیں کام کرتے تھے۔ جو کچھ کماتے تھے شراب، چرس، سگریٹ پر خرچ کر دیا کرتے تھے۔ مگر وہ بھی ایک وقت تھا۔ ایک گزرا ہوا خواب جو بہت بھیانک بن گیا۔ ولی نے مجھ سے شادی کا وعدہ کیا اور میں نے پہلی دفعہ سوچا تھا کہ زندگی بہت اچھی گزاروں گی۔ ولی کو وہ سب کچھ دوں گی جو میری ماں نے میرے باپ کو نہیں دیا تھا، اپنے بچوں کو نہیں دیا تھا۔

میں نے جب ولی کو بتایا تھا کہ میں ماں بننے والی ہوں تو وہ سخت ناراض ہو گیا تھا، ’یہ کیا حماقت ہے؟ یہ کیسے ہوا؟ یہ کیوں ہوا؟ تم کو خیال رکھنا چاہیے تھا۔ مجھے باپ بننے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ مجھے نہیں چاہیے یہ بچہ۔ تم کو ابارشن کرانا ہو گا۔‘ نہ جانے وہ کیا کیا کہہ گیا تھا۔ پہلے اس نے پیار سے سمجھایا تھا پھر ناراض ہو گیا تھا۔ میں نہیں مانی تھی تو وہ مجھے دو ماہ کی حاملہ چھوڑ کر کھو گیا تھا۔ پھر وہ مجھے کبھی بھی نہیں ملا۔ میں ڈپریس تھی۔ مجھے غصہ تھا مگر میں نے بچہ ضائع نہیں کرایا۔ میں مزید ٹوٹنے کو تیار نہیں تھی۔

دو دفعہ اس عذاب سے گزر چکی تھی اور نہیں، اور نہیں۔ مجھے ڈاکٹروں نے منع کیا تھا مگر اس کے باوجود میں سگریٹ پیتی رہی، شراب پیتی رہی اور ایک دن یکایک وقت سے پہلے حمل کا درد بجائے 40 ہفتوں کے 24 ہفتوں پر شروع ہو گیا تھا۔ میں بہت روئی تھی، بہت چیخی تھی مگر کچھ نہ ہوا اور گوشت کا وہ لوتھڑا جس کی کھلتی بند ہوتی آنکھیں تھیں، جس کے ہونٹ تھے اور دل دھڑکتا تھا وہ اس دنیا میں آ گیا تھا۔ اسے انکیوبیٹر میں رکھنے کی ضرورت تھی۔

تمہارے جیسے ڈاکٹروں نے بہت ساری سوئیاں اور ٹیوب اس کے جسم میں ڈال دی تھیں۔ وہ شیشے کا کمرہ مجھے اب تک یاد ہے، جس کے اندر وہ پٹیوں اور ٹیوبوں میں جکڑا ہوا دو ماہ سے زیادہ رہا تھا۔ میں گھنٹوں شیشے کی دیوار سے لگی آہستہ آہستہ اسٹیفن سے باتیں کیا کرتی تھی۔ ایک ایک لمحہ میں نے اس کے ساتھ گزارا تھا اور جب دو ماہ بعد وہاں سے نکلا تھا تو وہ پورا نہیں تھا۔

”ڈاکٹر کہتے تھے اس پر ہزاروں پونڈ خرچ ہو گئے ہیں۔ اس کی آنکھیں سلامت تھیں جو اس عمر کے بچوں میں ضائع ہوجاتی ہیں مگر اس کا ذہن اور پیر کے کچھ حصے مکمل نہیں تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ سگریٹ اور چرس کی وجہ سے مجھے جلدی ہی درد آ گئے تھے اور وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچے ایسے ہی ہو جاتے ہیں۔

”اس روز میں بہت روئی تھی۔ مجھے غصہ آیا تھا اپنی ماں پر ، اپنے باپ پر جن کی وجہ سے مجھے گھر چھوڑنا پڑ گیا تھا۔ مجھے غصہ آیا تھا اپنے آپ پر ، ولی پر جس کی وجہ سے یہ بچہ نامکمل تھا اور زندگی بہت طویل اور خوفناک۔“

یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئی تھی۔ میں نے اس کے کاندھوں پر ہاتھ رکھا تھا۔ اس کے سر کو اپنے سینے سے لگا کر کہا تھا ”مرلن زندگی کب تک گزارو گی اس طرح سے؟ میرے ساتھ چلو میں تمہیں پیار دوں گا، تمہیں گھر دوں گا، سب کچھ دوں گا جہاں تم اپنی ماں اپنے باپ، اپنے ابارشن، گنوریا، ایرک ولی سب کو بھول جانا۔ جہاں ہم دونوں ہوں گے صرف ہم دونوں۔“

اس نے پھر سے انکار کر دیا تھا۔ اب تک کی زندگی میں صرف میں نے انکار کیا تھا، لڑکیاں مجھ سے صرف اقرار کرتی تھیں، لیکن یہ پہلی دفعہ ہوا تھا۔ ایک ایسی لڑکی جس کا ماضی ہر طرح سے میلا ہے وہ مجھے انکار کر رہی تھی۔ مجھے پہلی دفعہ اپنے آپ پر رحم آیا تھا۔ مجھے ایسا لگا تھا جیسے میں اپنے وارڈ کے بچوں کے انتہائی نگہداشت کے کمرے میں پڑا ہوا ہوں اور میرے جسم میں ہر طرف سوئیاں جا رہی ہیں، خون چڑھایا جا رہا ہے، گلوکوز کے ڈرپ لگ رہے ہیں، سانس لینے کی مشین میرے بدلے سانس لے رہی ہے۔ میرا دل، جگر، پتا، گردہ، وہ ہر چیز کو لاکھوں پونڈوں والی مشینوں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے اور میں اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں سے شیشے کی دیوار کے اس طرف مرلن کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہوں اور وہ آوازیں دے رہی ہے ”اسٹیفن۔ اسٹیفن۔ اسٹیفن۔ اسٹیفن۔

اس دن وہ میرے فلیٹ پر تھی اور اس نے بہت اچھا لزانیا بنایا تھا، ہم لوگ لزانیا کھا رہے تھے اور باتیں کر رہے تھے۔ اسی دن اس نے مجھے بتایا تھا کہ اسٹیفن کے اسپتال سے نکلنے کے بعد اس نے سگریٹ اور چرس چھوڑی تھی۔ زندگی میں پہلی دفعہ فیصلہ کیا تھا کہ اب وہ ذمہ دار زندگی گزارے گی اور ذمہ دار زندگی ہی تھی۔ اس نے کہا تھا ”ریاض، لندن کی زندگی ہمارے جیسے لاوارث بچوں کے لیے جن کے سروں پر چھت نہیں ہے ایک خوفناک خواب ہے۔ یہ بچے بھیک مانگتے ہیں، مزدوری کرتے ہیں، جنسی پامالی کا شمار ہوتے ہیں، لڑکیاں 14 سال، 15 سال، 16 سال کی عمر میں مائیں بنتی ہیں جن کے بچے مشکلات کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں، یا عجیب طرح کے ہو جاتے ہیں، مگر زندگی چلتی رہتی ہے۔ بینکوں کی اونچی اونچی بلڈنگوں کے سائے میں، بکنگھم پیلس کے چاروں طرف۔“

میں اسے کیا بتاتا کہ میں تو ایسے ہی بچوں کا علاج کرتا ہوں، ایسی ہی ماؤں سے ملتا ہوں، یہ تو روز کا قصہ ہے کوئی اور بات کرو۔ مگر میں نے کچھ نہیں کہا۔ مجھے وہ پسند تھی، میں اسے چاہتا تھا، اس کی ہر بات سننے کو تیار اور اس کی ہر خواہش پر خوش۔

پھر اس نے کہا تھا ”کل چلو گے میرے ساتھ؟ اسٹیفن کی سالگرہ ہے۔“ میں نے کہا تھا ”ضرور چلوں گا۔ کہاں جانا ہے؟“

اسٹیفن معذور بچوں کے ایک ری ہیبلی ٹیشن سینٹر میں رہتا تھا۔ دوسرے دن شام کو چار بجے ہم لوگ وہاں پہنچے تھے۔ چھوٹے سے اس ہال میں ہر چیز خوبصورت تھی۔ خوبصورت پردے، خوبصورت جھالریں، خوبصورت جھنڈے، خوبصورت غبارے اور خوبصورت مرلن۔ خوبصورت نہیں تھے تو وہ بچے تھے، آٹھ نو نو سال کے بچے جن کے جسموں میں خامیاں تھیں۔ جن کی آنکھوں میں اندھیرا تھا، جن کے چہرے عجیب تھے اور جن کا ذہن دو سال تین سال چار سال پر رک گیا تھا۔

میں پہلی دفعہ اسٹیفن سے ملا تھا اس کے پیروں میں ایک خاص قسم کا جوتا تھا جس کی وجہ سے اس کا کھڑا ہونا ممکن تھا۔ چہرہ سپاٹ تھا، جذبات سے عاری۔ وہ مرلن کو دیکھ کر ایک شناسا کی طرح مسکرایا تو ضرور تھا مگر جذبے سے خالی اس مسکراہٹ میں صحرا کی سی خاموشی تھی۔ ان بہت سارے بچوں کے درمیان برتھ ڈے کا خوبصورت کیک تھا۔ ٹیچروں اور کچھ آ جانے والے والدین کی مدد سے ان سب کے درمیان مرلن نے اسٹیفن کے کانپتے ہاتھوں سے کیک کٹوایا تھا۔ ہیپی برتھ ڈے ٹو یو، ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔

میں نے آنکھیں بند کرلی تھیں۔ مجھے ایسا لگا تھا جیسے نوری نانی بھی وہیں کہیں بیٹھی ہیں۔ دیوار کے ساتھ ساتھ بالک کونے میں۔ وہ کہہ رہی ہیں جب لندن، واشنگٹن، پیرس، ماسکو میں بڑے چاند ستاروں کے لیے ہمکتے رہیں گے تو بچوں کا کیا ہو گا؟ بچوں کا یہی ہو گا بوا۔ بچے گھروں سے بھاگیں گے، بچوں کو گنوریا ہو گا، بچوں کو ابارشن کرانا ہو گا، بچوں کو ایرک ملے گا۔ بچوں کے بچے ہوں گے، ایسے کتنے ہی اسٹیفن ہوں گے۔ نادار، مفلوج، اندھے، اپاہج اور ذہنی پسماندگی کا شکار۔

میں نے مرلن کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر اس کے کان میں کہا تھا ”تمہیں مجھ سے شادی کرنی ہوگی۔ نہیں کرو گی تب میں بھی اسٹیفن کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔“

وہ مسکرائی تھی۔ مجھے ایسا لگا کہ اس کی مسکراہٹ پورے چاند جیسی ہے، بے داغ اجلی اور سحر زدہ۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments