فارغین مدارس کے لیے میڈیا میں امکانات


انٹرنس اگزام میں تحریری لیاقت اور حالات و واقعات محض آپ کی بے داری کی جانچ کے لیے کیے جاتے ہیں۔ اس میں کامیاب ہونا آسان ہے۔ اصل امتحان انٹرویوز کے دوران ہوتا ہے۔ اس دوران آپ کے نیوز سینس اور کمیونی کیشن اسکل کی جانچ پرکھ ہوتی ہے۔ اگر آپ دبو قسم کے انسان ہیں یا جلدی اپنا صبر کھو دیتے ہیں تو آپ کو اس شعبے میں کامیابی نہیں مل سکتی۔ اس لئے آپ کو اپنے مقصد کے تئیں واضح نظریہ بنانا ہو گا کہ آپ کا مزاج اس پیشے کے موافق ہے یا نہیں۔

ہاں! جو طلبہ میڈیا کے تدریس کے میدان میں اپنا کیرئیر بنانے کے خواہش مند ہیں، ان کے لیے اس میدان میں بھی راہیں کشادہ ہیں۔ اب تو اسکولوں میں باضابطہ ماس کمیونیکیشن کا بھی ایک سبجیکٹ ہو گا، جس کے لیے سینٹرل گورنمنٹ نے باضابطہ منظوری بھی دے دی ہے۔ ظاہر ہے اس میں پڑھانے کے لیے اس کورس سے وابستہ افراد ہی اس میں حصہ لے سکیں گے تو اس کے لیے تیاری بھی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں نیٹ اور جے آر ایف کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے ریسرچ اور ایم فل و پی ایچ ڈی کی بھی گنجائش ہے اور ملک کی تقریباً تمام بڑی یونیورسٹیوں میں اس کے کورسز ہیں۔ اگرچہ اعلیٰ تعلیم صحافیوں کے لئے روزگار کا ایک اہم ذریعہ ہے، لیکن تحقیق بھی صحافت میں کیریئر کے انتخاب کا ایک میدان ہے۔

بعض غیر سرکاری ادارے مثلاً ’آج تک‘ ، ’این ڈی ٹی وی‘ ، ’دی ہندو‘ اور ’ٹائمس آف انڈیا‘ وغیرہ کے اپنے اپنے میڈیا انسٹی ٹیوٹس ہیں اور یہاں سے بھی ٹریننگ لی جا سکتی ہے، جس کی تفصیلات ان کی ویب سائٹ میں بھی موجود ہے۔ 2017 میں آئی آئی ایم سی نے اردو جرنلزم میں ایک سال کا ڈپلوما کورس شروع کیا ہے۔ اس میں بھی تربیت حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان سب کے علاوہ تقریباً تمام بڑے اداروں میں اچھے مترجم کی ضرورت ہوتی ہے۔ مدارس سے فارغ طلبہ انٹر پریٹر اور مترجم کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات دے سکتے ہیں۔ اس کے لیے بھی مختلف اداروں میں باضابطہ کورس کرایا جاتا ہے۔ یو این آئی ہندستان کی دوسری سب سے بڑی نیوز ایجنسی ہے، جس میں تقریباً ساری خبریں ترجمہ پر مبنی ہوتی ہیں۔ مدارس سے فارغ طلبہ ان جگہوں پر بھی اپنی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔

اس کے لیے کسی صحافی کی صحبت میں رہ کر بھی تجربہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ آج کل خبروں کا حاصل کرنا کچھ مشکل کام نہیں ہے۔ واقعات تو عام سے ہوتے ہیں، انہیں بس خبر کا انداز دے کر خاص کر لیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ علم تو مدارس سے فارغ طلبہ کے پاس ہوتا ہی ہے اگر وہ تھوڑا عملی تجربہ حاصل کر لیں تو وہ مضامین، کالم، ڈرامہ، اسکرپٹ اور فیچر سبھی لکھ سکتے ہیں۔ آج کل انٹر نیٹ کا دور ہے اور نیٹ پر ہر موضوع کے متعلق وافر مقدار میں مواد میسر ہے، اس لیے کسی بھی موضوع پر لکھنا کچھ مشکل نہیں۔

اگر کسی کے اندر کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہے تو اسے میڈیا میں ضرور آنا چاہیے۔ اپنے خیالات دوسروں تک پہنچا کر اور اپنے ہم خیال افراد کی ٹیم بنا کر اچھے مقاصد کے لیے کام کیا جا سکتا ہے، لیکن یہاں پر یہ یاد رکھیں کہ یہ ایسا پیشہ ہے، جس میں محض اردو زبان کے سہارے پائیداری نہیں مل سکتی بلکہ اس میدان میں اگر واقعی جگہ بنانی ہے تو ہندی اور بطور خاص انگریزی زبان پر بھی دسترس ہونی ضروری ہے ورنہ استحصال، ناقدری اور سبکی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ تعلیم اور تجربہ آپ کے کیریئر کے لیے گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ صرف تجربہ کی بنیاد پر بہت طویل اور صبر آزما محنت کے بعد تو کوئی مقام مل جاتا ہے لیکن تجربہ کے بغیر صرف ڈگری کا حصول کبھی کبھی خفت اور ناکامی کا سبب بھی بن جاتا ہے ۔ اس لیے دونوں چیزوں کو اہمیت دیں اور اپنے لیے اصول مقرر کر کے عمل کے میدان میں آگے آئیں۔ ہوش مندی سے آپ، جو تجربہ حاصل کریں گے، وہ آپ کو اس شعبے میں داخل ہونے میں مدد دے گا اور فنی تعلیم آپ کے لیے اس میدان میں تخلیقات میں تنوع لانے میں معاون ثابت ہوگی اور اپنے سے جونئیر لوگوں کے ساتھ کس طرح سلوک کرنا ہے اور ان کی صلاحیتوں کو پرکھ کر کس طرح کام میں لانا ہے، کس کام کے لیے خود کو کس طرح پیش کرنا ہے، ان باتوں کا شعور آپ کو تعلیم سے حاصل ہو سکے گا۔

کیوں کہ جو لوگ محض تجربے کی بنیاد پر میڈیا میں ایکٹر، ڈائریکٹر یا پروڈیوسر بن جاتے ہیں، وہ صرف اپنے لیے کام کرتے ہیں اور محدود پیمانے پر کرتے ہیں، ان کی سوچ بھی محدود ہوتی ہے، بے شک کام اچھا ہوتا ہے، لیکن ان کے کام کا فائدہ ہر ایک کو نہیں ملتا اور وہ کسی نئی بھرتی کو مہارت بہم پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے، نتیجتاً بہت گراں قدر صلاحیتوں کے مالک افراد کارآمد نہیں بن پاتے۔ اس کے برعکس آپ تعلیم یافتہ ہو کر اس فن کی دنیا میں آئیں گے تو آپ کو تخلیقی ذہن کی اہمیت کا احساس ہو گا، آپ اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے دوسروں کو ان کا مقام دیں گے، آپ کو مل جل کر کام کرنے (ٹیم ورک) کا تجربہ ہو گا، اکیلے آپ بہت کم اور بدقت کام کر پائیں گے جب کہ ٹیم ورک میں آپ نہ صرف کام زیادہ کریں گے بلکہ شہرتیں بھی نصیب ہوں گی، یہاں تک کہ جب کسی وجہ سے اس شعبے سے کٹ جائیں گے، تب بھی لوگ آپ کو یاد رکھیں گے اور آپ کے معذور ہونے کے باوجود آپ کے جونئیر اور آپ کے شاگرد آپ کی قدردانی کریں گے اور آپ کو کام کا موقع فراہم کریں گے۔

ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی موبائل ایس ایم ایس سروس سے کئی ہزار لوگ مسلمان ہو چکے ہیں۔ فلسطینی تنظیم حماس اور لبنان میں حزب اللہ نے اپنے مقاصد کے لیے میڈیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا ہے، انہوں نے متعدد مواقع پر یہودی اور مغربی میڈیا کو شکست دی ہے۔ یہ لوگ انتہائی مہارت سے میڈیا کو اپنے حق کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ترکی و ایران میں بھی میڈیا کی روایتی پریکٹس سے ہٹ کر متبادل فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اگر یہ سب منظم طریقے سے ہونے لگے تو اس سے بہت نفع بخش اور دور رس نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں، تاہم یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ وقتی طور پر میڈیا پر کسی خاص گروہ کا غلبہ دیکھ کر پریشان نہ ہوا جائے۔ ایسا تو انبیاء علیہم السلام کے دور میں بھی ممکن نہیں ہوا کہ تمام لوگ ہدایت یافتہ ہو گئے ہوں۔ یہ مقابلے کی دنیا ہے، ہر گروہ کو اپنا اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔ میڈیا معاشرہ میں تبدیلی لانے کا طاقتور ترین ہتھیار ہے اور دعوت کے میدان میں اس کی ضرورت بڑھتی ہی جا رہی ہے، اس لیے داعی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا سے دور رہنے کی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوششوں کا آغاز کریں۔ ورنہ یاد رکھیں آنے والی نسلیں ہمیں اس وجہ سے معاف نہیں کریں گی، کیونکہ اکیسویں صدی میں دعوت دین کی ترسیل و اشاعت کی بڑی ذمے داریوں کا انحصار بھی میڈیا پر ہی ہو گا اور میڈیا سے پر ہیز و گریز کی حکمت عملی ہم سبھوں کے لئے خسارہ عظیم بن جائے گی۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 168 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments