ملک کا نیا وزیر اعظم کون ہو گا؟



بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان کی ملاقات کے بعد ایک بار پھر تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کا متحدہ محاذ بننے کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم میں واپسی سے متعلق سوالوں کا جواب نہیں دیا۔ حالات کے موجودہ موڑ پر پاکستان جمہوری تحریک کو مستحکم کرنے کی بجائے شاید حکومت کو گرانے اور جلد از جلد نئے انتخابات منعقد کروانے کی راہ ہموار کرنا ضروری سمجھا جا رہا ہے۔

کچھ عرصہ سے عمران خان کی حکومت دفاعی پوزیشن میں ہے۔ گزشتہ دنوں ایک آئینی ترمیم پر غور سے متعلق مسلم لیگ (ن) کی تجویز کو قائمہ کمیٹی بھیجنے کے معاملہ پر قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے دوران اپوزیشن کی کامیابی اور حکومت کی ناکامی نے اپوزیشن کو یہ حوصلہ دیا ہے کہ اب پارلیمنٹ کے اندر عمران خان کی سیاست کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی شاید اب بھی اپنے اس دیرینہ خواب کی تکمیل چاہتی ہے کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لاکر جمہوری پارلیمانی طریقہ سے حکومت تبدیل کی جائے۔

اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) اور خاص طور سے میاں نواز شریف کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ کسی بھی طرح ایک ایسے وقت میں نئے انتخابات کے انعقاد پر زور دیا جائے جب حکومت کمزور ہو، عدم مقبولیت کا شکار ہو اور اسٹبلشمنٹ اس سے فاصلہ اختیار کرنے پر مجبور ہو چکی ہو۔ مسلم لیگ (ن) کے قائدین یہی مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ آئندہ کسی بھی انتخابات میں شفافیت کے لئے اسٹبلشمنٹ کا غیر جانبدار رہنا بے حد اہم ہو گا۔ پارٹی کو امید ہے کہ ایسے حالات میں وہ پنجاب میں اپنی مقبولیت کی بنیاد پر پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ تاہم زمینی حقائق کے برعکس ملکی سیاست میں کردار ادا کرنے والے عوامل سے ابھی تک یہ تاثر قوی نہیں ہوتا کہ اسٹبلشمنٹ نواز شریف کی سرکردگی میں کسی نئی حکومت کو تہ دل سے قبول کرنے پر آمادہ ہے یا ملک میں کوئی مضبوط سیاسی حکومت ’وسیع تر قومی مفاد‘ میں سمجھی جائے گی۔ کسی کمزور سیاسی انتظام میں ہی اسٹبلشمنٹ کو اپنی طاقت بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت شاید اسٹبلشمنٹ کے اس معیار پر پوری نہ اتر سکے جس کے تحت ملک میں جمہوری نظام کو کام کرنے کی ’اجازت‘ دی جا رہی ہے حالانکہ شہباز شریف کی صورت میں پارٹی یہ یقین دہانی کروانے کی کوشش کرتی رہتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) پاور شئیرنگ کا کوئی قابل قبول فارمولا مان لے گی۔

اس فارمولے پر چونکہ کوئی عوامی مباحث سامنے نہیں آسکتے اور نہ ہی اس کے واضح خد و خال موجود ہیں، اس لئے یہ بات ہمیشہ غیر واضح رہے گی کہ مسلم لیگ (ن) کن بنیادوں پر اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تعاون استوار کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ نواز شریف مقبولیت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد سیاسی فیصلہ سازی میں زیادہ حصہ چاہتے ہیں۔ موجودہ حالات میں ان کی یہ پوزیشن مستحکم ہوئی ہے۔ اسی پس منظر میں پیپلز پارٹی کو مین اسٹریم سیاست میں زیادہ حصہ دلوانے اور مرکز میں ایک بار پھر اقتدار دینے کی بات کی گئی تھی۔ یہ منصوبہ شاید تہ دار تھا۔ پہلے مرحلے میں پنجاب میں بزدار حکومت گرانے میں پیپلز پارٹی کے کردار کی بنیاد پر اس کی امیج بلڈنگ کی جاتی اور اس کے نتیجے میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لاکر بلاول بھٹو زرداری کو بقیہ مدت کے لئے وزیر اعظم بنایا جاسکتا تھا۔ یہ منصوبہ پنجاب میں تبدیلی سے متعلق مسلم لیگ (ن) کی مزاحمت کی وجہ سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ مسلم لیگ (ن) کو کسی صورت میں پرویز الہیٰ وزیر اعلیٰ کے طور پر قبول نہیں ہیں جو صوبائی اقتدار کے ذریعے نواز شریف کی سیاسی بنیاد کمزور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس غیر واضح منصوبہ کے دوسرے مرحلے میں عام انتخابات کا انتظار کیا جاتا۔ اسٹبلشمنٹ کی مکمل حمایت کے تحت پیپلز پارٹی سے بہتر انتخابی کارکردگی کی توقع کی جاتی۔ سندھ کے علاوہ جنوبی پنجاب اور خیبر پختون خوا میں اس کی سیاسی قوت میں اضافہ ہوتا۔ عددی کمی پوری کرنے کے لئے تحریک انصاف میں شامل ایسے ’الیکٹ ایبلز‘ پیپلز پارٹی سے رجوع کرلیتے جو حکومت سازی میں کسی بھی سیاسی پارٹی کی طاقت بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی امید پر پیپلز پارٹی کی طرف سے بلاول بھٹو زرداری کے آئندہ وزیر اعظم بننے کا نعرہ بھی سننے میں آتا رہا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس منصوبہ پر عمل درآمد کا وقت آ گیا ہے؟ اس سوال کا جواب اتنا سہل نہیں ہو گا۔

پیپلز پارٹی سندھ میں مسلسل تیسری بار حکومت کر رہی ہے۔ اقتدار میں تسلسل کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیزاری بھی سیاسی مقبولیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں 2018 میں مسلم لیگ کے وزیر اعلیٰ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرنے سے لے کر سینیٹ انتخابات، صادق سنجرانی کو چیئرمین بنوانے اور پھر مسلم لیگ (ن) سے ہونے والے معاہدہ کے باوجود یوسف رضا گیلانی کو یک طرفہ طور سے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنوانے کے اقدامات سے پیپلز پارٹی نے اسٹبلشمنٹ سے قرب کی شہرت تو حاصل کی ہے لیکن اس کی خود مختار سیاسی پوزیشن پر آنچ آئی ہے۔

اسٹبلشمنٹ کو یہ احساس بھی ہو گا کہ ملک اس وقت جس معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے، اس میں پیپلز پارٹی شاید بہتر سیاسی آپشن ثابت نہ ہو سکے۔ ماضی میں کبھی بھی پیپلز پارٹی کی مالی پالیسیاں کامیاب نہیں رہیں۔ البتہ مسلم لیگ (ن) معیشت کی بہتری کے متعدد منصوبے شروع کرنے کی شہرت رکھتی ہے۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ پارٹی ملک میں معاشی اصلاح کے لئے بہتر آپشن ثابت ہو سکتی ہے۔ البتہ اسٹبلشمنٹ کو مسلم لیگ کی خارجہ پالیسیوں اور علاقائی تعاون کے منصوبوں سے اختلاف رہا ہے۔ اس لئے یہ سوال اہم ہو گا کہ مسلم لیگ (ن) اگر مقبول ووٹ کی بنیاد پر اقتدار میں واپس آتی ہے تو وہ کس حد تک ان پہلوؤں پر مفاہمت کرنے یا اپنے سیاسی اختیار سے دست بردار ہونے پر آمادہ ہوگی۔ اس کا بڑی حد تک انحصار اس بات پر بھی ہو گا کہ کیا اس بار پارٹی شہباز شریف کو وزیر اعظم بننے کا موقع دے گی یا نواز شریف کو چوتھی بار وزارت عظمی کے منصب پر فائز کروانے کی کوشش کی جائے گی۔

وسیع سیاسی کینوس پر موجود ان عوامل سے قطع نظر اس وقت اپوزیشن کی سیاسی پوزیشن حکمران تحریک انصاف کے مقابلے میں مضبوط ہے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری کے سوال پر پیدا ہونے والا تنازعہ، بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی اور پھر تحریک لبیک کے لانگ مارچ کے معاملہ پر ہزیمت کے علاوہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات اور ’قیام امن‘ کی کوششوں کے دوران اسی گروہ سے متعلق اے پی سی کیس میں وزیر اعظم کی سپریم کورٹ میں پیشی نے عمران خان کی سیاسی مشکلات کو واضح کیا ہے۔ ان کے آپشنز محدود ہیں اور وہ ایک ہنگامہ خیز سیاسی صورت حال سے نمٹنے کے لئے فوری اور مناسب اقدامات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ مہنگائی کی صورت حال، گیس کی قلت اور آئی ایم ایف سے معاملات نے بھی حکومت کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے۔ حکومت کو گزشتہ ہفتے کے دوران طلب کیا گیا پارلیمنٹ کا اجلاس ملتوی کرنا پڑا تھا۔ اس کی وجہ یہی بتائی جاتی ہے کہ انتخابی اصلاحات اور نیب ترمیمی آرڈی ننس کے سوال پر اپوزیشن پارٹیوں کے علاوہ اتحادی پارٹیاں بھی حکومت سے متفق نہیں تھیں۔

اپوزیشن ان حالات میں عمران خان پر پارلیمنٹ میں سیاسی دباؤ بڑھانے کا ارادہ رکھتی۔ بلاول بھٹو زرداری کی مولانا فضل الرحمان کے گھر آمد اور متعدد سیاسی امور پر بات چیت میں حکومت پر دباؤ بڑھانے پر اتفاق تو کیا گیا ہے لیکن یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اس دباؤ کے نتیجے میں اگر حکومت کو گرا لیا گیا تو اپوزیشن کے پاس کون سے سیاسی متبادل ہیں۔ اپوزیشن قیادت تو ابھی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی نئی کوشش کرنے سے پہلے کسی متبادل امید وار پر بھی متفق نہیں ہو سکی۔ گزشتہ کچھ عرصہ میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان محاذ آرائی کی کیفیت ضرور کم ہوئی ہے لیکن ان کے درمیان مکمل مفاہمت کے آثار نہیں ہیں۔ مستقبل قریب میں سیاسی داؤ پیچ دکھاتے ہوئے ان دونوں بڑی پارٹیوں کے درمیان فاصلہ کم ہونے کی بجائے، اس میں اضافہ کا زیادہ امکان ہو گا۔ دونوں پارٹیاں مستقبل میں اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہیں اور دونوں اس مقصد کی تکمیل کے لئے اسٹبلشمنٹ کی مدد حاصل کرنے کو برا نہیں سمجھتیں۔

اس لحاظ سے جمہوریت اور عوام دوستی کے نام پر ہونے والی اس چو مکھی میں عوام کے علاوہ سب معاملات پر غور ہو گا۔ عوام کا نام سیاسی نعروں میں تاثیر کی حد تک ہی استعمال کیا جائے گا۔ ملک کی اندرونی سیاست کے اس منظر نامہ میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان کو اس وقت معاشی مسائل کے علاوہ عالمی سفارتی تنہائی کا سامنا ہے۔ پاکستان نے افغانستان میں امن اور طالبان حکومت کو قبول کروانے کے لئے اپنی تمام صلاحیتیں صرف کی ہیں۔ فی الوقت یہ کوششیں بار آور نہیں ہو رہیں۔ امریکہ سے اختلافات کا اظہار سامنے آتا رہتا ہے لیکن چین کے ساتھ تعلقات بھی بیانات ہی کی حد تک مثالی ہیں۔ سی پیک میں سامنے آنے والی مشکلات اور پاکستان کی بڑھتی ہوئی مالی پریشانیاں اس تعلق میں بوجھ بن رہی ہیں۔ افغانستان کی حکومت پاکستان کی ’چہیتی‘ ہونے کے باوجود ابھی تک پاکستان کو کوئی فائدہ پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ٹی ٹی پی کے معاملہ پر واضح ہو چکا ہے کہ افغان حکومت عام معافی کے بدلے جنگ بندی کی پیش کش تو کروا سکتی ہے لیکن ان عناصر کو مکمل طور سے قابو کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی دوریاں بھی پاکستان کی سفارتی مشکلات میں اضافہ کا سبب ہیں۔

ان حالات میں سیاسی اقتدار کے لئے کوشش کرنے والی تمام پارٹیوں کو ان اہم معاملات پر اپنی پالیسیاں واضح کرنی چاہئیں۔ ملک کو ایک ایسے سیاسی انتظام کی ضرورت ہے جو جمہوری بھی ہو لیکن وسیع تر سیاسی مفاہمت اور یک جہتی کا سبب بھی بن سکے۔ آج تک یہ مقصد کسی حد اسٹبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت کی وجہ سے حاصل ہوتا رہا ہے۔ تاہم اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار کا پول کھلنے اور اس بارے میں بڑھتی ہوئی عوامی ناراضی کی وجہ سے عمومی بداعتمادی میں اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ سیاسی جد و جہد کا مقصد عمران خان کو ہٹا کر متبادل سیاسی انتظام لانا ہے۔ اس صورت میں بھی وسیع تر قومی سیاسی مفاہمت کا امکان پیدا ہونا ممکن نہیں ہے۔ جو سیاسی لیڈر اقتدار میں رہتے ہوئے مفاہمت و مصالحت سے دور بھاگتا رہا ہے، وہ اپوزیشن میں رہ کر صرف افتراق و انتشار کا ہی سبب بنے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments