جیم ف غوری کا شعری مجموعہ: ستارہ ندی اور میں


Dr Shahid M shahid

میرے لیے یہ بڑے استحقاق کی بات ہے، کہ مجھے جیم ف غوری کی کتاب ”ستارہ ندی اور میں“ کے متعلق لکھنے کا شرف ہوا تاکہ میں ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا جوہر قلمی اور قلبی تاثرات کی روشنی میں بیان کر سکوں۔ یقیناً کسی بھی ادیب یا شاعر کے متعلق کچھ لکھنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس کے فن و شخصیت سے واقفیت ہو، تاکہ الفاظ کی مجسمہ سازی کرتے ہوئے اس کی شخصیت کا نمایاں عکس بنے۔

جس سے بیک وقت حقیقت کے دو راستے سامنے آتے ہیں، پہلا راستہ جس سے اس کی ادبی و فنی لطافت کم نہیں ہوتی اور دوسرا اس کی شخصیت کا دروازہ کھلتا ہے۔ جس میں قلم قبیلہ ایک گروہ کی شکل اختیار کر کے قافلوں کی صورت میں آ جا سکتا ہے۔ یہ محبت کا کھلا دروازہ ہے جس کی کھڑکیاں زمین کی چاروں سمتوں میں کھلتی ہیں۔

اگر ایک ادیب کو حوصلہ افزائی کی آکسیجن نہ ملے تو اس کی قلمی رفتار کم ہونا شروع ہو جاتی ہے

اور اگر ملے تو ادب تراشنے کا ہنر عمیق ہوتا جاتا ہے کیونکہ جب تک مٹی کمہار کے ہاتھ میں رہتی ہے تو اس کی کئی اشکال بننے کے بعد اس کی اصلی صورت سامنے آ جاتی ہے۔

یقیناً ادب تراشی کے لیے پہلے پہلا کام اس کی جگالی کرنا ہے یعنی مطالعاتی تجسس جس کی بھوک و پیاس کے بغیر طلب نہیں بڑھتی اور جب تصورات و جذبات ضمیر کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں تو انہیں شعری و نثری زبان دینے کے لئے قلم کی سیاہی کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ ادب اپنے وصف و وزن کا پلڑا بھاری رکھے۔

بلاشبہ ادب ایک رضیاتی عمل ہے جس کے فروغ کے لیے انسان کو شب و روز اپنا لہو و بدن جلانا پڑتا ہے۔ تب جا کر کہیں تخلیق جنم لیتی ہے پھر اس کی منطقی صورت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ادب کا روگ رگ و ریشہ میں پالنا کوئی آسان مشق نہیں ہے۔

کیونکہ کسی بھی صنف پر طبع آزمائی کا خاکہ تیار کرنا ایک ادب کی ڈرافٹنگ ہے، جس کا مکاشفہ ہر کسی پر نہیں کھلتا بلکہ یہ سعادت ان خوش نصیبوں کو حاصل ہوتی ہے جنہیں قدرت کی قربت حاصل ہوتی ہے وہ انہیں قلم کی طاقت سے اسے صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتے ہیں۔

اگر ارادوں کو جذبات کی گرمائش مل جائے تو توانائی بننے کا کیمیائی عمل شروع ہو جاتا ہے جس سے تجربات اور مشاہدات کا چراغ جلنا شروع ہو جاتا ہے جہاں صنف کی تعبیر و تفسیر قلم کی روانی و سلاست سے پیدا ہوتی ہے۔

جہاں ادیب کی سوچ کا محور بنتا ہے۔

مجھے جیم فے غوری کی بیتی زندگی کا مکالمہ پڑھنے سے اندازہ ہوا کے قلم کی بصیرت کتنی مشکل اور حساس کرن ہے جسے قلمبند کرنے کے لئے نہ جانے کتنے مہینے یا سال درکار ہوتے ہیں، تب کہیں جا کر ادب کی پرکار گھمانے کا فن آتا ہے۔ یقیناً اس فن میں جیم فے غوری نے نہ جانے کتنے سال ریاضت کی ہوگی اور ادب کے فروغ میں کتنی صعوبتیں برداشت کی ہوں گی۔

اس حقیقت کو یوں سمجھ لیجیے جس کی ریاضت میں چالیس سال کی آزمائش شامل ہے۔

اور ان کے اس سفر میں فکری آبیاری کے جو عناصر شامل ہیں اس کی روشنی اور خوشبو برون ملک جا کر بھی کم نہیں ہوئی۔

ان کی پسندیدہ صنف غزل ہے جنہیں وہ شوق سے لکھتے پڑھتے سنتے اور سمجھتے ہیں ان کے قلم میں پیوست غزل کا ایک رچاؤ ہے، جس کی لطافت قاری کے ذہن کو آسودہ کرتی ہے غزل ایک سمندر ہے جس کا پانی کبھی خشک نہیں ہوتا کیونکہ اسی سمندر میں جذبات کی کشید کاری ہوتی ہے جو اپنی ارتقائی منازل طے کر کے لوگوں کے دلوں پر راج کرتی ہے۔

مذکورہ کتاب میں جہاں غزلیات کا سمندر ہے وہاں ان کے کلام میں نظموں کے دریا اور ندی نالے بھی بہتے ہیں۔

فاضل دوست اپنی شاعری میں محبت کا خوبصورت چمن آباد کرتے ہیں، ان کے اس شعر میں حقیقت کا رنگ دیکھئے۔
بیکس جو لوگ ہیں وہ کس طرح جیتے
کہ سچ بھی لکھنا ہے اب دشوار لکھنا

اگرچہ سچ ایک فضیلت ہے جس کی حسرت و کرشمات کا جلوہ کبھی ماند نہیں پڑتا کیونکہ حقائق تلخ اور ترش ہوتے ہیں جنہیں نگلنے سے پہلے دانت کھٹے ضرور ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھی زندگی سچ کی تلاش میں موت کا کفن پہن لیتی ہے۔ وہ زندگی کی تلخیوں اور حقائق کو غزل کے آئینے میں یوں دیکھتے ہیں۔

ادا کیا وطن میں ہے قرض جاناں تاہم
نہ ہوتا تعصب نہ تو خوار ہوتا
وہ مٹی میں منصوبوں کو کیسے گوندھتے ہیں ان کا یہ شعر مٹی کی تعبیر اس طرح بیان کرتا ہے۔
میرے وہ تمام منصوبے جو میں سوچتا
‏ لمحوں میں سارے ہی مٹی میں ملا دیتا ہوں

ان کی سوچ کے قطروں سے جو دریا بنتے ہیں بلاشبہ وہ ہمارے لیے ادب کی فصل تیار کرنے میں معاون ہیں ان کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے۔

زمین پر بہتے دریا کے کنارے مل نہیں سکتے
خلا میں ٹوٹ کر پھر سے ستارے مل نہیں سکتے

میں فاضل دوست کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے دل کے سمندر میں ”ستارہ ندی اور میں“ کا عکس دیکھا جس کے سائے میں ان کے فن و شخصیت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ بیرون ملک اٹلی میں مقیم ہو کر بھی علم و ادب کا چراغ روشن رکھے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments