اپوزیشن کو ”کٹ“ لگانے کی تڑی


پاکستان کی ہر حکومت کو پاکستان ٹیلی ویژن پر کامل کنٹرول کا جنون لاحق رہا ہے۔ یہ جنون بسا اوقات عتاب کی صورت اختیار کرتے ہوئے اس ادارے سے وابستہ سینئر ترین افسروں کی زندگی بھی اجیرن بنادیتا۔ نجی محفلوں میں وہ دلوں میں جمع ہوئے غبار کو تلخ نوائی سے کم کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے۔ دو افراد کا اس تناظر میں رویہ مگر حیران کن حد تک استثنائی رہا۔ ایک تھے مرحوم آغا ناصر اور دوسرے ہیں اختر وقار عظیم صاحب۔ ان دونوں سے میرا بہت قریبی تعلق رہا ہے۔ لہجہ ان کا مستقل دوستانہ رہتا ہے۔ چہرے پر قناعت بھری مسکراہٹ۔ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ والی بے نیازی کے ساتھ نہایت ثابت قدمی سے کچھ نیا کرنے کی کاوشوں میں مگن۔

آغا صاحب کی طرح اختروقار عظیم صاحب نے بھی پاکستان ٹیلی وژن کی تاریخ آنے والی نسلوں کے لئے رقم کررکھی ہے۔ وہ دونوں اس ادارے سے اس دور میں وابستہ ہوئے تھے جب کسی بھی نوع کی تخلیقی تڑپ رکھنے والے شخص کا پی ٹی وی سے ہر صورت تعلق لازمی تصور ہوتا تھا۔ ایسے کئی افراد کو اختر صاحب نے ”چند ہم سفر“ کے عنوان سے ایک اور کتاب لکھ کر قارئین کے وسیع تر حلقے سے متعارف کروانے کی کوشش کی ہے۔ کئی دن قبل مجھے یہ کتاب اختر صاحب نے بہت شفقت سے بھجوائی تھی۔ بستر کے سرہانے پڑی رہی۔ ہفتے کی رات سونے سے قبل اسے کھولا اور ختم کرنے کے بعد ہی سوپایا۔

اس کتاب میں آغا ناصر، شعیب ہاشمی، منو بھائی اور اسلم اظہر صاحب کے علاوہ دیگر کئی ایسی مشہور شخصیات کا ذکر ہواہے جن کی شفقت بھری نگرانی میں ذاتی طورپرمیں بچپن سے جوانی میں داخل ہوا۔ خود کو عمر بھر کے لئے ان کا ”چھوٹا“ ہی تصور کرتا ہوں۔ پھکڑپن سے تمام تر رغبت کے باوجود کبھی ہمت نہیں ہوئی کہ ایسے قد آور لوگوں کی خامیوں کو بھی بیان کرپاؤں۔ اختر صاحب کی کتاب کھولتے ہی کمینی خواہش بیدار ہوئی کہ وہ پی ٹی وی کے انتہائی متحرک پروڈیوسر سے شروع ہو کر بعد ازاں منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر براجمان رہنے کی وجہ سے اپنے روبرو عیاں ہوئی ایسے افراد کی چند خامیاں بھی روانی میں لکھ دیں گے۔ پروفیسر وقار عظیم کے فرزند سے ایسی توقع رکھنا مگر بچگانہ ثابت ہوئی۔ اپنے ساتھ گہرے تعلق میں رہے ہر شخص کا ذکر انہوں نے نہایت احترام اور وقار سے کیا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں جب ہر شخص کی بھد اڑانا معاشرے کا عمومی رویہ بن چکا ہے اختر صاحب کی کتاب پرخلوص متانت کا بھرپور اظہار ہے۔ انہوں نے اپنے ساتھ تعلق میں آئے ہر فرد کی خوبیوں ہی کو اجاگر کیا۔ غیبت سے مکمل احتراز برتا۔ بدکلامی سے کتاب کو سنسنی خیز بنا کر مارکیٹ کرنے کی کوشش نہیں کی۔

اختر صاحب کی کتاب پڑھنے سے قبل میرا دل اگرچہ بہت جلاہوا تھا۔ ہفتے کی صبح سے واٹس ایپ کے ذریعے کئی افراد مجھے ایک وڈیو کلپ بھیجتے رہے۔ اس کلپ میں عمران حکومت کے کارپوریٹ وزرڈ شمار ہوتے اسد عمر صاحب اسلام آباد میں اپنی جماعت کے جنونی مداحین کے ایک گروہ سے خطاب کر رہے ہیں۔ جوش خطابت میں اپوزیشن جماعتوں کے اسلام آباد کی جانب مارچ کی صورت بڑھنے کا ذکر بھی کیا اور نہایت ڈھٹائی سے تڑی لگائی کہ وہ اگر اس شہر آئے تو یہاں مقیم تحریک انصاف کے متوالے انہیں بہت ”کٹ“ لگائیں گے۔

اسد عمر صاحب کی لگائی بڑھک نے مجھے غصہ دلانے سے قبل اگرچہ بہت حیران بھی کیا۔ گزشتہ مہینے کے آخری دو ہفتے ہم نے بہت کرب میں گزارے ہیں۔ لاہور سے ایک مذہبی تنظیم کے مشتعل ہوئے افراد لشکر کی صورت اسلام آباد آنا چاہ رہے تھے۔ ریاستی قوت کا بہیمانہ استعمال بھی انہیں روکنے میں ناکام ہوتا نظر آیا۔ واضح نظر آتی مذکورہ ناکامی کے باوجود فواد چودھری صاحب ریاستی رٹ کو ہر صورت لاگو کرنے کی تڑی لگاتے رہے۔ وزیر داخلہ ہونے کے باعث راولپنڈی کی لال حویلی سے اٹھے بقراط عصر بھی زبانی کلامی ریاستی ڈنڈدکھاتے رہے۔ مسلسل جاری رہی یہ بڑھکیں مگر بالآخر کام نہیں آئیں۔ 22 کروڑ رعایا کی مالک ریاست وحکومت مفتی منیب الرحمن صاحب کی فراست سے رجوع کرنے کو مجبور ہوئی۔ مذہبی تنظیم کو اب ہر صورت لچک اور نرمی دکھاتے ہوئے رام کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ان کاوشوں کے تناظر میں اپوزیشن جماعتوں کو کٹ لگانے کی تڑی یقیناً انتہائی مضحکہ خیز نظر آتی ہے۔ خاص طور پر ایک ایسے وزیر کی جانب سے جو کئی ماہ تک خود کو معیشت کا حتمی ماہر شمار کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کو آمادہ نہ ہوئے۔ بالآخر وزیر اعظم صاحب نے انہیں واٹس ایپ پر حکم دیتے ہوئے وزارت خزانہ سے فارغ کر دیا۔ ان کی جگہ ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب نے سنبھالی۔ وزارت سنبھالتے ہی آئی ایم ایف سے انہوں نے ایک طویل المدت معاہدہ کیا۔ وہ اب خود بھی وزارت خزانہ سے فارغ کردیے گئے ہیں۔ ان کی جانب سے ہوا معاہدہ مگر آج بھی پوری وحشت کے ساتھ بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ میرے اور آپ کے گھروں میں استعمال ہوئی بجلی کے نرخ ناقابل برداشت حد تک بڑھتے جا رہے ہیں۔ سردیوں کا آغاز ہوتے ہی ہمارے چولہوں کے لئے گیس بھی غائب ہونا شروع ہو چکی ہے۔ گیزر اکثر بند ہو جاتے ہیں۔ ہیٹر فقط تھوڑی دیر کے لئے ہی جلائے جا سکتے ہیں اور اس ضمن میں ”ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے“ والا ماحول بنتا محسوس ہو رہا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر بھی تاریخی حد تک گرچکی ہے۔

عوام کے دلوں میں وسیع پیمانے پر مسلسل جمع ہوتی پریشانیوں کے اس موسم میں اسد عمر صاحب جیسے ذہین وفطین تصور ہوتے وزراء کو تسلی دیتا رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ وہ مگر بے بس وپریشان ہوئے لوگوں کو کٹ لگانے کی تڑی لگارہے ہیں۔ ان کا غضب فقط اپوزیشن جماعتوں تک ہی محدود نہیں رہا۔ میڈیا میں موجود اپوزیشن کے مبینہ ”سہولت کار“ بھی ان کی طیش بھری تقریر کی زد میں آئے۔ ہفتے کے پانچ دن صبح اٹھ کر نہایت احتیاط کے ساتھ یہ کالم لکھتے ہوئے میں حیران وپریشان رہتا ہوں کہ کامل فرماں بردار ہوئے میڈیا سے موجودہ حکومت اب بھی شکوہ کناں کیوں رہتی ہے۔ میری دانست میں تو اب کوئی ایک صحافی بھی ”دست قاتل“ کے شایاں نہیں رہا ہے۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments