برداشت: ابن آدم کی معدوم ہوتی ہوئی شناختی علامت


16 نومبر: ”برداشت اور رواداری کے عالمی دن“ کی مناسبت سے

”رواداری اور برداشت، ہماری دنیا کی ثقافتوں کے بھرپور تنوع، ہمارے اظہار کی صورتوں اور انسانیت کے سلیقوں کا احترام، قبولیت اور اعتراف ہے۔“

(رواداری کے اصولوں کا اعلامیہ)

ہر سال 16 نومبر کو ”برداشت اور رواداری کا عالمی دن“ منایا جاتا ہے۔ جسے ”اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم“ (یونیسکو) نے 1995 ء میں عدم برداشت کے خطرات کے بارے میں عوام میں آگاہی پیدا کرنے کی غرض سے مقرر کیا تھا۔

برداشت اور رواداری کے عالمی دن کے موقع پر ہر سال مختلف کانفرنسوں اور جشنوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ”یونیورسل ٹالرنس کارٹون فیسٹیول“ بھی ایک ہے، جو ناروے کے شہر ”ڈرامین“ میں منایا جاتا ہے۔ جس میں 2013 ء میں ایک بین الاقوامی کارٹون فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا تھا۔ بنگلہ دیش میں ہر سال اس دن، امن سربراہی اجلاس منعقد کیا جاتا ہے۔ یہ کانفرنس امن، رواداری، جعلی خبروں، محفوظ آن لائن سرفنگ اور نفرت جیسے مسائل پر ملک کو درپیش چیلنجز پر گفت و شنید کرنے اور اشتراک کا ایک جامع پلیٹ فارم ہوا کرتا ہے۔

1996 ء میں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد نمبر 51 / 95 کے ذریعے اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو، ہر سال 16 نومبر کو ”برداشت کا عالمی دن“ منانے کی دعوت دی۔ یہ کارروائی اقوام متحدہ کے ”سال برائے رواداری۔ 1995 ء“ کے دوران عمل میں آئی، جس کا اعلان، اس سے دو برس قبل، 1993 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یونیسکو کی سفارشات کی روشنی میں کیا تھا، جیسا کہ سال کے لئے رواداری اور عمل کے منصوبے کی پیروی کے اصولوں کے اعلامیے میں بیان کیا گیا تھا۔

16 نومبر 1995 ء کو یونیسکو کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر، یونیسکو کے رکن ممالک نے رواداری کے اصولوں کا اعلامیہ اپنایا۔ اس اعلامیے میں دیگر نکات کے علاوہ، اس بات کی تصدیق بھی کی گئی تھی، کہ رواداری ہماری دنیا کی ثقافتوں، ہمارے اظہار کی شکلوں اور انسانیت کے سلیقوں کا بھرپور احترام اور اعتراف ہے۔ برداشت و مساوات، عالمی انسانی حقوق اور دوسروں کی بنیادی آزادیوں کو تسلیم کرتی ہے۔ لوگ فطری طور پر متنوع ہیں۔ اور صرف برداشت ہی دنیا کے ہر خطے میں بسنے والی مخلوط برادریوں کی بقا کو یقینی بنا سکتی ہے۔ اور یہ امر، تیسری دنیا کے ہم جیسے ممالک کے لئے اور بھی ضروری ہے، جہاں عدم برداشت کا سانپ، معاشرے کی رگوں میں خون کی طرح دوڑنے اور رینگنے لگا ہے۔

مذکورہ اعلامیہ، رواداری کو نہ صرف ایک اخلاقی فرض کے طور پر، بلکہ افراد، گروہوں اور ریاستوں کے لئے ایک سیاسی اور قانونی ضرورت کے طور پر لاگو کرتا ہے۔ یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ریاستوں کو حسب ضرورت معاشرے میں تمام گروہوں اور افراد کے لئے مساوات اور مواقع کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے، نئی قانون سازی کرنی چاہیے۔

رواداری اور برداشت کی تعلیم کا مقصد، ان منفی اثرات سے نبرد آزما ہونا ہے، جو دوسروں کے خوف اور اخراج کا باعث بنتے ہیں۔ اور نوجوانوں میں آزادانہ فیصلے کرنے، تنقیدی سوچ رکھنے اور اخلاقی استدلال کی صلاحیتوں کو فروغ دینے میں مدد کرنی چاہیے۔ ہماری دنیا کے بہت سے مذاہب، زبانوں، ثقافتوں اور نسلوں کا تنوع، تنازعات کا بہانہ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ تو ایک ایسا خزانہ ہے، جس سے ہم سب کو اپنے آپ کو مالا مال کرنا چاہیے۔

عدم برداشت کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟
(چند ممکنہ حل)

1) قوانین کے ذریعے : دنیا کی تمام تر حکومتیں، انسانی حقوق کے قوانین کو نافذ کرنے، نفرت انگیز جرائم اور امتیازی سلوک پر پابندی لگانے اور سزا دینے کے ساتھ ساتھ تنازعات کے تصفیے تک مساوی رسائی کو یقینی بنانے کے لئے ذمہ دار ہیں۔

2) تعلیم کی مدد سے : قوانین ضروری ہیں، لیکن عدم برداشت کے انسداد کے لئے کافی نہیں۔ اس ضمن میں زیادہ سے زیادہ بہتر تعلیم پر زور دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔

3) معلومات تک رسائی کے رستے : نفرت پھیلانے والوں کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کا سب سے موثر طریقہ، میڈیا کی آزادی اور پریس کی تکثیریت کو فروغ دینا ہے، تاکہ عوام کو حقائق اور رائے میں امتیاز کرنے کی اجازت دی جا سکے۔

4) انفرادی بیداری کے ذریعے : عدم برداشت ہی عدم برداشت کو جنم دیتی ہے۔ عدم برداشت سے لڑنے کے لئے افراد کو اپنے رویے، معاشرے میں عدم اعتماد اور تشدد کے منفی پہلوؤں کے درمیان تعلق سے آگاہ ہونا چاہیے۔

5) مقامی حل: جب ہمیں اپنے ارد گرد عدم برداشت میں اضافے کا سامنا ہوتا ہے، تو ہمیں صرف حکومتوں اور اداروں کی جانب سے کام کرنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ہم سب کو اس کے حل کا حصہ بننا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments