سفرنامہ پنجاب: تیرے شہر میں یوں زندگی ملی (7)


” شہر دلداراں کی طرف“ ۔

گزشتہ شام کی عمدہ محفل اور لذیذ کھانے نے بہت لطف دیا تھا۔ محفل برخاست ہونے کے بعد اسی احساس کے ساتھ میں گیسٹ ہاوٴس کی چھت پہ چلی آئی۔ ابھی چاند نہیں نکلا تھا لہٰذا ماحول پہ گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ گیسٹ ہاوٴس کی روشنیاں ایک محدود رقبے میں تو اس تاریکی پر غالب آئی ہی تھیں لیکن اس سے آگے گھور تاریکی تھی۔ دن کا چمکتا دمکتا روشن منظر اس وقت گہری تاریکی کا لبادہ اوڑھے نظر سے پوشیدہ تھا گویا کائنات محو خواب ہے۔

ہوا قدرے خنک ہو چلی تھی لیکن یہ خنکی خوش گوار تھی اور طبیعت کو فرحاں کردینے والی تھی۔ کتنی ہی دیر میں تنہائی کے اس پرسکون احساس سے محظوظ ہوتی رہی پھر نیچے اتر آئی کیوں کہ مجھے اپنا کام کرنے کے ساتھ ساتھ چیزیں بھی سمیٹنا تھیں۔ گروپ لیڈر نے کہہ دیا تھا کہ صبح سات بجے ہم یہاں سے روانہ ہوجائیں گے۔ بس اسی فکر میں جلدی سونے کے لیے لیٹ گئی تھی۔ یہ جلدی بھی رات بارہ بجے ہوئی۔ میں تو اپنی عادت کے مطابق ساڑھے چار بجے بیدار ہو گئی۔

کچھ لکھنے پڑھنے کے کام کیے۔ سلکیاں میں یہ ہماری آخری صبح تھی۔ میں کمرے سے باہر نکل آئی تاکہ کھلی فضا میں صبح کے سہانے وقت کا لطف لیا جائے۔ گروپ میں میرے علاوہ کچھ اور لوگ بھی سحر خیز تھے جیسے کہ عشرت حبیب اور یاسمین یاس۔ میں کمرے سے نکلی تو عشرت حبیب بھی اسی وقت باہر نکلیں۔ ہم دونوں سیر کے لیے چل دیے۔ سورج نکلنے سے قبل کے ملگجے اجالے میں کھیتوں کے درمیان کچے راستوں پہ چلنا کچھ ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم کسی اور ہی دنیا میں جا نکلے ہوں جہاں صرف سکون ہے، خاموشی ہے، تنہائی ہے اور ہمارے ساتھ صرف ہم خود ہیں۔

ہم پگڈنڈیوں پہ چلتے رہے جگہ جگہ رک کر تصویریں لیتے رہے۔ طلوع آفتاب کا حسین منظر بھی کیمرے میں قید کیا لیکن تصویر سے زیادہ وہ حقیقت میں خوب صورت تھا۔ پھر ہم واپس ہو لیے کہ روانگی کا وقت قریب تھا۔ ناشتے میں کچھ وقت تھا۔ ہم لوگ گیسٹ ہاوٴس کی چھت پر چلے گئے اور وہاں تصویر کشی کے ساتھ ساتھ ارد گرد کا نظارہ بھی کرتے رہے۔ فطرت کے حسن کا جواب نہیں۔ پھر ہمیں ناشتے کے لیے بلا لیا گیا۔ ملازموں کے ساتھ میجر صاحب کی بہو بھی باورچی خانے میں مصروف تھیں۔

میز پہ مہمانوں کی فرمائش کے مطابق تلے ہوئے انڈے، رات کا سالن، پوریاں اور انڈے چنے کا سالن تھا۔ جلدی جلدی ناشتہ کیا۔ سامان تو پہلے ہی ہم لوگ مین گیٹ کے باہر رکھ چکے تھے۔ کچھ ہی دیر میں گاڑی بھی آ گئی اور ہم اپنے میزبانوں کا شکریہ ادا کر کے گاڑی میں سوار ہوئے۔ اب ہماری منزل لاہور تھی۔ آدھے گھنٹے کی تاخیر سے ساڑھے سات بجے ہمارا سفر شروع ہوا۔ لاہور ہمیں گیارہ بجے پہنچ جانا چاہیے تھا لیکن تقریباً ڈھائی گھنٹے کی تاخیر سے ہم لاہور پہنچے۔

لاہور ریڈیو سے کراچی کے شعرا6 کا مشاعرہ براہ راست نشر ہونا تھا لیکن ہمیں اتنی تاخیر ہوئی کہ اس پروگرام کا وقت ہی ختم ہو گیا۔ ہم لوگ اپنے ہوٹل پہنچے۔ جس کی بکنگ صائمہ ایک دن پہلے ہی کروا چکی تھیں۔ وہاں سامان رکھ کے ریڈیو اسٹیشن پہنچے تاکہ وہاں دوستوں سے دعا سلام کر لیں لیکن ہمارا جلدی جلدی جانا بھی بے سود رہا کیوں کہ متعلقہ لوگ جا چکے تھے۔ اگلی دعوت مرکز قومی زبان کی تھی۔ انھوں نے بھی ہمارے اعزاز میں ایک مشاعرہ اور طعام کا اہتمام کیا تھا۔

شام ہو رہی تھی جب ہم وہاں پہنچے۔ لاہور کے شاعر حضرات پہلے سے موجود تھے۔ بس ہمیں ہی ہر جگہ پہنچنے میں تاخیر ہو رہی تھی۔ ہمارے میزبان مرکز قومی زبان والوں نے اس مشاعرے کا انتظام اکادمی ادبیات کے دفتر میں کیا گیا تھا۔ ہم لوگوں کے وہاں پہنچنے پر مشاعرے کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ مشاعرے کی صدارت معروف شاعر اعتبار ساجد صاحب کر رہے تھے۔ حسب سابق اس مشاعرے کے بھی دو حصے تھے۔ پہلے حصے کی نظامت پروفیسر خالد محمود عطا نے کی۔ لاہور کے شعرا6 کو انھوں نے ہی پڑھوایا۔

مشاعرے میں پڑھے گئے لاہور کے شعرا6 کے کچھ اشعار;
کہاں کہاں نہیں دم توڑتی انا اپنی
کہاں کہاں سے نوالے اٹھانے پڑتے ہیں
(عرفان صادق)
عجیب لوگ ہیں وجوہات تلاش کرتے ہیں
بھلا یہ عشق کسی بھی سبب سے تھوڑی ہے
(صغیر احمد صغیر)
آپ سے ہو گا نہیں طبیب یہ مریض اچھا
آپ کے بس کی نہیں بات، دوا رہنے دو
(ثروت ناز)
جھکنے والوں کی قطاریں لگ گئیں
کٹنے والے سر ابھی آئے نہیں
(شہزاد احمد شیخ)
اسے معلوم ہوتا تو صف ماتم بچھی ہوتی
ہمارا دل ہماری ہار سے واقف نہیں اب تک
(کامران ناشط)
رنگ قدرت کے نظر آئیں سبھی
چل کراچی سے نکل ناران تک
(بی اے شاکر)
میں تیرے بغیر نہ رہ سکوں میں یہ کاش تجھ سے بھی کہہ سکوں
میرے دلربا ذرا غور کر میری بات میں کوئی بل نہیں
(پروفیسر خالد محمود عطا)

پھر مشاعرے کے دوسرے حصے کے لیے نظامت کے فرائض صائمہ نفیس نے سنبھال لیے ۔ انھوں نے کراچی کے شعرا6 کو بلانے سے پہلے ان کا تعارف بھی کروایا۔ اس مشاعرے میں بھی کراچی کے شاعروں نے رنگ جما دیا۔ ثریا حیا صاحبہ کراچی سے تعلق رکھتی ہیں اور عرصہ6دراز سے لاہور میں آباد ہیں۔ انھوں نے منتظمین سے خواہش کی تھی کہ انھیں کراچی کے شعرا6 کے ساتھ پڑھوایا جائے چناں چہ انھیں کراچی کے شعرا6 کے ساتھ دعوت کلام دی گئی۔

کراچی کے شعرا6 کا کچھ کلام آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔
اک صبح نو کی چاہ میں ہو کر لہو لہو
کچھ لوگ بن کے نقش بہ دیوار آئے ہیں
(ثریا حیا)
نمازیں لاکھ پڑھ لو تم وظیفے بھی کئی رٹ لو
سرور عشق ہوتا ہے عبادت کچھ نہیں ہوتی
(یاسمین یاس)
میں اپنا عشق پورا لکھ چکا ہوں
ادھورے رہ گئے ہیں باب تیرے
(شبیر نازش)
یہ دل تو مر چکا لیکن ہے آرزو باقی
مکان تو نہیں رکھتی، مکین رکھتی ہوں
(حمیرا راحت)
فقط اتنا ہی کہا تھا تم سے محبت ہے
ہماری جان لو گے کیا ذرا سی بات کے پیچھے
(سحر علی)
اس کیفیت عشق کو کیا نام دیا جائے
جب سر کو اٹھاتا ہوں تو جھکتی ہے جبیں اور
(علی کوثر)
زندگی سے نہیں گلہ کوئ
ہم کو خود سا نہیں ملا کوئ
(عشرت حبیب)
مجھ سے تو کہہ رہے ہو بھلا دو مجھے مگر
کیا تم نکل سکو گے محبت کے جال سے
(آئرین فرحت)

فیصل آباد آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر جناب زاہد اقبال صاحب اعتبار ساجد صاحب کی دعوت پر اس محفل مشاعرہ میں خاص طور پر شریک ہوئے تھے اور اپنے خطاب میں انھوں نے بھی کراچی کے شعرا6 کے کلام کو بہت سراہا۔ اعتبار ساجد صاحب نے بھی اپنی گفتگو میں کراچی اور کراچی کے شعرا6 سے وابستہ اپنی یادوں کا ذکر کیا۔ پھر انھوں نے اپنا مجموعہ6کلام ”مجھے کوئی شام ادھار دو“ ہم سب کو بطور تحفہ دیا۔ یہ کتابیں ہم سب کے ناموں کی پرچی کے ساتھ پیک تھیں۔

مشاعرے کے بعد طعام کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جس میں لاہور کے جماعت اسلامی کے سرکردہ لوگ بھی شریک تھے جیسے کہ امیر جماعت اسلامی لاہور ذکر اللہ مجاہد صاحب، انور گوندل صاحب وغیرہ۔ ان کے علاوہ لاہور کے چند شعرا6 بھی شریک محفل تھے۔ کھانے سے قبل گفتگو کا ایک اچھا دور چلا۔ صدر محفل مجاہد صاحب نے ہم سب کا تفصیلی تعارف چاہا۔ ہم لوگوں نے اپنے اور اپنے کاموں کے بارے میں تفصیل بتائی۔ جسے انھوں نے بہت سراہا۔ اسی گپ شپ میں کھانا چن دیا گیا۔

کھانے میں مرغ قورمہ تھا اور بہترین تھا۔ لاہور کے کھانوں کا ذائقہ کراچی والوں کے ذوق کے مطابق نہیں ہوتا لیکن یہ سالن سب ہی کو اچھا لگا۔ کھانے کے بعد سویٹ ڈش کے طور پر آئس کریم پیش گئی۔ ستم ظریفی یہ کہ میں اسٹرابیری فلیور مجھے قطعی پسند نہیں لیکن میرے حصے میں وہ ہی آئی جب کہ میرے دائیں بائیں بیٹھے ساتھیوں کو میرا فیورٹ فلیور یعنی ونیلا ملا۔ بہرحال آئس کریم اچھی تھی۔ کھانے کے بعد کچھ گفتگو اور تصویری سیشن ہوا۔ ہم سب کو کتابوں کا تحفہ دیا گیا۔ پھر ہماری واپسی ہوئی۔ قریب ساڑھے دس بج رہے تھے جب ہم لوگ ہوٹل پہنچے۔ اگلا دن اور مصروفیت لیے ہمارا منتظر تھا۔

(جاری)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments