لوح مشکوک


 لوح محفوظ میں ازل سے ابد تک سب رقم ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اسے ام الکتاب بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کی ام الکتاب ایک نادیدہ پیج ہے، بائیس کروڑ پاکستانیوں کی نظروں سے محفوظ اس پیج پر ہمیشہ سارے مقتدر موجود ہوتے ہیں۔ اس نادیدہ پیج پر وطن عزیز کی تشکیل سے اب تک سب کچھ رقم ہے، حق و صداقت کی راہ کے گمنام ہیروز، معزز و مقدس نقابوں کے پیچھے چھپے بھیانک چہرے، سازشوں کے تانے بانے، کٹھ پتلیاں نچاتے طلسمی ہاتھ، اسی باعث یہ صفحہ نہایت مقدس اور اہم ہے۔

 خوشحالی، استحکام، تعلیم، صحت، امن و امان، انصاف، روٹی، روزگار، ہر کچھ عرصے بعد کسی مسیحا کی گلی کوچوں میں آواز گونجتی ہے، خواب لے لو، خواب لے لو، مفت لے لو مفت، یہ سونے کے خواب، وقت کی چکی میں پستے بائیس کروڑ انسان راشد کے اندھے کباڑی کو نہیں جانتے۔ ہر کباڑی میں انہیں ایک ایسا مسیحا نظر آتا ہے جو تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے، انکی نہیں تو انکی نسلوں کی، پچھلے مسیحا کی زخمی تعبیروں کو بھول کر بھوکے، پیاسے، مدقوق اور بدحال انسان نئے خواب کی تلاش میں، نئی تعبیر کیلئے نئے مسیحا کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ نئے مسیحا نئے خواب، ستر سال سے تعبیر کا سفر جاری ہے۔

 اس پیج نے اتحاد کو انتشار، تنظیم کو ہڑبونگ اور یقین کو ابہام بنتے دیکھا۔ تاریخ کی تعمیر نو اور مذھب و مسلک کی تفہیم نو دیکھی۔ قائد ملت لیاقت علی خان کے قتل کے بعد سے آجتک تمام ادارے اس نادیدہ پیج پر رات دن موجود ہیں۔ یہ پیج مادر ملت فاطمہ جناح پر غداری کے الزامات کا عینی شاہد ہے۔ مجیب کے چھ نکات، مشرقی پاکستان کی علیحدگی، قائد عوام بھٹو کو سوئے دار جاتا دیکھا۔ جنرل ضیاالحق کی مذھبی نخوت اور مشرف کی مغربی عسرت دیکھی، طالبان بنتے اور مٹتے، روس اور امریکہ کی جنگ میں ملک کو برباد ہوتے دیکھا۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی سیاسی رقابت دیکھی، خوشحال پاکستان کو بدحال، دینے والے ہاتھ کو لینے والے ہاتھ میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ روشن خیال معاشرے کو فرقہ پرستی کے زہر میں ہلکان ہوتے دیکھا، نامعلوم قاتل اور گمشدہ مقتولوں کی طویل فہرستیں، آمروں کو حب الوطنی اور منتخب وزرا اعظم پر غداری کے فتوے دیکھے۔ بونوں کو دیو اور دیو کو بونا بنتے دیکھا۔ انصاف کو نظریہ ضرورت کے آسیب میں ڈھلتے اور تہذیب و شرافت سر بازار رسوا ہوتے دیکھی۔ وضعداری، رواداری اور مکالمے کی دردناک موت دیکھی، جنوں کو بوتل میں بند اور بند بوتلوں سے جنوں کو نکلتے دیکھا، خواب، تعبیر کی تلاش میں دوڑتے دوڑتے نڈھال ہو چکا ہے۔

فیض آباد کا فیض جاری ہے، مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں کے مصداق یہ سفر لیاقت علی خان قتل کے بعد سے جاری ہے، گو نوزائیدہ ریاست کے بانی کی اتنی جلد وفات ایک المیہ تھی، مگر پہلے منتخب وزیر اعظم کا قتل ایک سانحہ تھا، ایسا سانحہ جس کا آسیب آج بھی قوم بھگت رہی ہے۔ بائیس کروڑ عوام ہر نئے خواب فروش کو مسیحا کی مسند پر بٹھاتے ہیں مگر تعبیر کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ بہرحال یہ ضرور ہے کہ چاہے ہر ممکنہ مقتدر اس پیج پر کیوں نہ ہو، غیر سیاسی فیصلوں کی اولین اور فوری قیمت سیاسی جماعتیں اور بالاخر تادیر عوام اور ریاست جھیلتی ہے۔ ستر سالوں میں نصف سیاستدانوں اور نصف آمروں کی چھتر چھایہ میں گزرے، المیہ یہ نہیں ہے کہ ہمیں سیاستداں اچھے نہ ملے، سانحہ یہ ہے کہ آمر بھی ایسے ہی نکلے، آمریت ہی جھیلنی تھی تو کوئی سنگاپور کا لی کوان ملا ہوتا۔ بائیس کروڑ عوام سلیم کوثر کی پہیلی حل کرنے کی کوشش میں لوح مشکوک کو کھنگال رہے ہیں

میں خیال ہوں کسی اور کا، مجھے سوچتا کوئی اور ہے

سر آئینہ مرا عکس ہے، پس آئینہ کوئی اور ہے

سر آئینہ، پس آئینہ، سکے کی طرح آئینے کے دو رخ ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ دونوں رخ بھی ایک ہی پیج پر ہیں؟ نتائج سے تو یہی لگتا ہے، سیاستدان بھی خواب بیچتے رہے، آمر بھی خواب فروخت کرتے رہے، ایسے خواب جس کی تعبیر کبھی نہ ملی۔ اگر ایسا ہے تو پھر اسپارٹا اور ایتھنز بھی ایک ہی پیج پر ہونگے، بنو امیہ و بنو عباس، ہٹلر اور چرچل، کارل مارکس اور ایڈم اسمتھ، چرچ اور گلیلو یہ سب بھی ایک ہی پیج پر ہونگے۔

دنیا جانے کہاں پہنچ گئی، پاکستان آج بھی سنگین دور سے گزر رہا ہے، شاید بائیس کروڑ عوام اپنی قوت نہیں جانتے، شاید نہیں جانتے ریاست، حکومت اور اداروں کی نہیں خود انکی اپنی ملکیت ہے۔ انگریزی کی کہاوت ہے کہ خدا کو عام انسان پسند ہیں اسی لئے اتنے سارے بنائے، تاریخ انسانی چھان لیں، دنیا کے سارے بڑے مسائل دنیا کے بڑے لوگوں کی پیدا کردہ ہیں، عام انسان کی وجہ سے کوئی جنگ، کوئی قحط نہیں پڑا، عام انسان نے تختے نہیں الٹے، قتال و بربادی کی داستان نہیں لکھی۔ شاید پاکستان کا بھی یہی المیہ ہے، بڑے لوگوں کی بڑی غلطیاں جھیلتے بائیس کروڑ عوام لوح مشکوک کی بھول بھلیوں میں اندھے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈ رہے ہیں۔

جاہل نہ بک سکا نہ کبھی مفلسی بکی

عالم بکا، شعور بکا، آگہی بکی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments