مہنگائی کی رت اور موسم کا ملال


اکیسویں صدی کے اکیسویں سال کا نومبر اب کیلنڈر پر اتر آیا ہے۔ اشجار کے زردی مائل ہوتے پتے، پنچھیوں کے غمگین گیت، سورج کی گھٹتی تپش، اور مہتاب کا افسردہ ہالہ، ماحول کو جیسے ہر چیز اداس کرنے پہ تلی ہے۔ ایسے ماحول میں شیفتگی طبیعت کی برقرار کیسے رہ سکے ہے۔ کچھ سال پہلے تک یہی موسم نوابی کا ہوتا تھا۔ گھر کی چھت پر دھوپ میں پڑی چارپائی، گول تکیہ، اور پڑھنے کو اردو کا بہترین ادب، اور کیا چاہیے زندگی سے تھا۔ دل چاہا تو ادرک، سونف، اور دار چینی ملا شہد کا قہوہ طلب کر لیا اور من چاہا تو دونوں الائچیوں ملی چائے۔ جی چاہتا ہے کہ ایسی عیاشیاں میسر دوبارہ آ جائیں۔ مگر حسرتیں، صرف حسرتیں۔ اور ہم فقط اتنا کہے دیتے ہیں کہ ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں دور جا بسیں۔

اب عمر، نہ موسم، نہ وہ رستے کہ وہ پلٹے
اس دل کی مگر خام خیالی نہیں جاتی

بات اگر موسم کے ملال تک محدود رہتی تو رفو گری ممکن تھی، مگر پاک دھرتی پر مہنگائی کی ایسی رت چھائی ہے کہ ہر چیز دھندلا گئی ہے۔ نسیم حجازی سے لاکھ اختلاف کیجیئے، مگر آپ کو ان کی دور اندیشی کی داد دینی پڑے گی، ان کی ولایت پر ایمان لانا ہو گا۔ پریشان مت ہوئیے، ابھی بتائے دیتے ہیں کہ کیوں آپ کو حجازی صاحب کا مداح بننا پڑے گا۔

طنز و مزاح پر انہوں نے ایک کتاب لکھی تھی، نام تھا جس کا سفید جزیرہ، اس جزیرے پر ایک عظیم حکمران گزرا ہے جس کے دور حکومت کی کہانی قلم بند کی گئی ہے اور اس حکمران کا نام سر سائمن تھا۔ سفید جزیرہ پڑھ کر شاید آپ یہ محسوس کریں کہ قصہ یہ کوئی ماضی کا ہے، مگر حجازی صاحب نے مستقبل کے حکمران کی پالیسیوں کو ماضی کے پیرائے میں بیان کیا ہے تا کہ ان کی ولایت کا بہت زیادہ چرچا نہ ہو۔ سچے ولی کی نشانی یہی ہوتی ہے کہ تمنا وہ شہرت کی نہیں کرتا۔ اب تھوڑا سا ذکر سر سائمن کا ہو جائے۔

سر سائمن ایک طشتری میں خلا کی طرف جا رہے ہیں، مگر بد قسمتی سے طشتری فنی خرابی کی وجہ سے سفید جزیرے کے محل پر گرتی ہے، جہاں بادشاہ وفات پا چکا ہے اور اب مسئلہ یہ درپیش ہے کہ اگلا بادشاہ کون ہو گا۔ سائمن کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور قدرت کا انعام سمجھ کر اسے بادشاہ بنا دیا جاتا ہے، تھوڑی دیر کو رکیے، اس کہانی کو حال سے نتھی کرتے ہیں۔

سفید جزیرہ پاکستان ہے، جہاں کے حکمران یعنی نواز شریف کو اپنے تئیں سیاسی موت سلا دیا گیا ہے، اس سیاسی موت کے ذمہ داروں میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں، اور نام لکھنا خطرے سے خالی بھی نہیں، اور ویسے بھی ناموں میں آخر رکھا کیا ہے، اس لیے نام لکھنے سے مکمل پرہیز۔ سر سائمن تو حادثے کی وجہ سے سفید جزیرے پر اترا تھا مگر اصلی سائمن یعنی عمران خان کو باقاعدہ پلاننگ کے ذریعے امیر المومنین بنایا گیا ہے۔ قدرت کا یہ معجزہ ہے کہ پاکستان کو خاں صاحب ایسا حکمران نصیب ہوا ہے، ڈھنڈورا یہی پیٹا گیا اور جاتا ہے۔

سفید جزیرے کی کہانی میں واپس چلتے ہیں، سر سائمن کے وزیر ہر روز دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے دور حکومت میں سب کام تاریخ میں پہلی مرتبہ ہو رہے ہیں۔ سر سائمن کو فقط اپنی ذات سے دل چسپی ہے اور وہ اپنے اشغال میں مصروف رہتے ہیں۔ رعایا ایڑھیوں کے بل روزگار اور دو وقت کے کھانے کی تلاش میں ہے مگر سر سائمن اور ان کے وزرا اپنے دنیا میں مگن ہیں اور سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہے ہیں۔ عوام کی حالت اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ عوام اب یہ دعا بار بار دہرا رہے ہیں، زمین و آسمان کے مالک! ہماری حالت پر رحم فرمائیے، ہمیں اس بلائے عظیم سے نجات دلائیے جو چھت پھاڑ کر ہم پر نازل ہوئی ہے۔

اب پاکستان کی صورت حال بھی ملاحظہ ہو۔ فواد چودھری ہوں کہ فیصل جاوید خان، ہر کوئی حکومت کے اقدامات کو تاریخی قرار دیتا ہے۔ آئی ایم ایف کا قرضہ تاریخی، مہنگائی میں اضافہ تاریخی، پیٹرول اور ڈالر کی قیمت تاریخی، گویا کہ ہر چیز اور کام تاریخی ہے۔ سائمن کی طرح ہمارے خان صاحب بھی بس اپنی ذات کے اسیر ہیں اور ان کو اپنے سوا سجھائی کچھ دیتا نہیں۔ پاکستانیوں کی حالت اس قدر دگر گوں ہے کہ وہ صبح و شام فقط یہی دعا مانگتے ہیں کہ

اے زمین و آسمان کے مالک! ہمیں اس بلائے عظیم سے نجات دے جو پنڈی کے رہائشیوں نے ہم پر مسلط کی ہے۔ اے پروردگار! جو جو بھی اس بلا کے مسلط کرنے میں شریک تھا، اس پر گرفت فرما، چاہے کوئی ریٹائرڈ چیف جسٹس ہو یا کوئی بیوروکریٹ۔ اے پروردگار آپ نے کہا تھا کہ میں لوگوں پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا، مگر پروردگار کچھ بندوں نے خان صاحب کی صورت میں ہم پر ہماری طاقت سے زیادہ بوجھ لاد دیا ہے، اس بوجھ کو ہم سے دور فرمائیے اس سے پہلے کہ لوگ مہنگائی کی وجہ سے خود کشیاں شروع کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments