امرتا پریتم۔ ایک یاد (1)


امرتا پریتم ایک ہندوستانی ناول نگار اور شاعرہ تھیں جنہوں نے ہندی اور پنجابی میں لکھا۔ وہ پنجابی زبان کی پہلی ممتاز ناول نگار، مضمون نویس اور بیسویں صدی کی پنجابی زبان کی سرکردہ شاعرہ تھیں جنہیں پاک بھارت سرحد کے دونوں جانب یکساں طور پسندیدگی سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ چھے دہائیوں سے زیادہ اپنے ادبی دور میں انہوں نے شاعری، افسانے، سوانح عمری، مضامین، پنجابی لوک گیتوں کے مجموعے اور ایک خود نوشت سمیت سو سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں جن کا ترجمہ متعدد علاقائی اور غیرملکی زبانوں میں کیا گیا۔

انھیں اپنی پرجوش نظم ً آج آکھاں وارث شاہ نوں ً کے حوالہ سے سب سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے۔ وارث شاہ اٹھارہویں صدی کے ایک ممتاز پنجابی صوفی شاعر تھے جنہوں نے ہیر رانجھا کی داستان کو ہیر وارث شاہ کے نام سے منظوم کیا۔ یہ نظم ان کو مخاطب کر کے ہندوستان کی 1947 ء کی تقسیم کے دوران ہونے والے قتل عام اور عورتوں کی بے حرمتی پر اس کے غم کا اظہار ہے۔ ان کا ناول پنجر جو 1950 ء میں شائع ہوا، اس میں بھی انہوں نے پورو کے کردار کے ذریعے عورتوں پر تشدد، انسانیت کی تذلیل اور تقدیر کے سامنے ہاتھ ڈال دینے جیسے مسائل کر اجاگر کیا تھا۔

جب ہندوستان کی1947 ء میں تقسیم ہوئی تو وہ لاہور سے ہجرت کر کے بھارت چلی گئیں اس کے باوجود وہ پاکستان سے ہجرت کر نے والے معروف پنجابی شاعروں شو کمار بٹالوی اور موہن سنگھ کے مقابلے میں زندگی بھر پاکستان میں بہت زیادہ مقبول رہیں۔ امرتا پریتم کو پنجابی ادب میں خواتین کے حقوق کے لئے اٹھائی جانے والی سب سے اہم آواز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ 1956ء میں وہ اپنی ایک طویل لیکن شاندار نظم ً سنہیڑے ً (پیغامات) کے لئے ساہیتہ اکیڈمی ایوارڈ جیتنے والی پہلی خاتون بن گئیں۔

1982 ء میں انھیں ً کاغذ اور کینوس ً کے لئے ہندوستان کے اعلی ترین ادبی ایوارڈ ً بھارتیہ جنان پتھ ً سے نوازا گیا۔ 1969 ء میں وہ ً پدم شری ً کی حق دار ٹھہریں اور 2004 ء میں ہندوستان کا دوسرا بڑا شہری اعزاز ً پدم بھوشن ً ان کے حصہ میں آیا۔ اسی سال بھارت کی ساہیتہ اکیڈمی ( انڈیا کی اکیڈمی آف لیٹرز ) کی طرف سے انھیں بھارت کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ ساہیتہ اکیڈمی فیلوشپ ً سے نوازا گیا۔ یہ ایوارڈ ادیبوں اور شاعروں کو ان کی زندگی بھر کی ادب میں کامیابیوں پر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی نظمیں زیادہ تر تقسیم ہندوستان کے موضوع پر لکھیں۔

امرتا پریتم 1919 ء میں موجودہ پاکستانی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیں۔ والدین نے ان کا نام امرت کور رکھا۔ وہ اپنے والد کرتار سنگھ اور والدہ راج بی بی کی اکلوتی اولاد تھیں۔ ان کی والدہ ایک سکول میں استاد تھیں اور والد شاعر اور سکالر ہونے کے علاوہ سکھ مذہب کے ایک مبلغ تھے۔ وہ برج زبان کے ایک رسالے کے مدیر بھی تھے۔ گیارہ سال کی چھوٹی سی عمر میں آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس کے فوراً بعد ان کے والد ان کو ساتھ لے کر گوجرانوالہ سے لاہور منتقل ہو گئے جہاں وہ ہندوستان کی 1947 ء کی تقسیم تک قیام پذیر رہیں۔

بالغ ذمہ داریوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی والدہ کی موت کے بعد تنہائی میں گھری ہوئی امرتا نے چھوٹی عمر میں لکھنا شروع کر دیا تھا۔ ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ ً امرت لہراں کے نام سے 1936 ء میں شائع ہوا۔ اسی سال پریتم سنگھ سے ان کی شادی ہو گئی۔ پریتم سنگھ کے والدین لاہور کے انارکلی بازار میں ہوزری کے بہت بڑے تاجر تھے۔ پریتم خود اس وقت کسی اخبار کے مدیر تھے۔ پریتم سنگھ سے شادی کر کے انہوں نے اپنا نام امرت کور سے تبدیل کر کے امرتا پریتم رکھ لیا۔ لاہور میں 1936 ء سے 1943 ء کے درمیان ان کے پنجابی نظموں کے نصف درجن مجموعے شائع ہوئے۔

اگرچہ انہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز ایک رومانوی شاعرہ کے طور پر کیا تھا لیکن جلد ہی وہ ترقی پسند مصنفین کی تحریک کا حصہ بن گئیں۔ اس کا اثر ان کے 1944 ء میں شائع ہونے والے مجموعے ً لوک پیڑ ً میں نظر آیا جس میں 1943 ء کے بنگال کے قحط کے بعد جنگ زدہ معیشت پر کھل کر تنقید کی گئی تھی۔ اس دور میں وہ ایک حد تک سماجی کاموں کی طرف مائل ہوئیں اور اس طرح کی سرگرمیوں میں دل و جان سے حصہ لیتی رہیں۔ آزادی کے بعد جب سماجی کارکن گورو رادھا کشن نے دہلی میں پہلی جنتا لائبریری بنانے میں پہل کی تو انہوں نے اس موقع پر ان سے بہت تعاون کیا۔ لائبریری کا افتتاح مشہور اداکار بلراج ساہنی اور ارونا آصف علی نے کیا تھا۔

انہوں نے تقسیم ہند سے قبل آل انڈیا ریڈیو کے لاہور ریڈیو سٹیشن پر بھی کام کیا تھا۔ 1947 ء میں تقسیم ہند کے بعد ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات میں

بلوہ اور تشدد سے دس لاکھ سے زیادہ مسلمان، ہندو اور سکھ افراد ہلاک ہوئے۔ امرتا پریتم کو بھی اٹھائیس سال کی عمر میں پنجابی مہاجر بننا پڑا جس میں وہ لاہور سے ہجرت کر کے دہلی چلی گئیں۔ پریتم سنگھ سے ان کی شادی میں دو بچے پیدا ہوئے۔ ایک بیٹی کندلا اور ایک بیٹا نوراج کو اترا۔ 1960 ء میں امرتا نے اپنے شوہر پریتم سنگھ سے طلاق لے لی۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہندوستان کے مشہور شاعر ساحر لدھیانوی سے بہت محبت کرتی تھیں۔

اس محبت کی کہانی کو انہوں نے اپنی سوانح عمری ً رسیدی ٹکٹ ً میں بیان کیا ہے۔ جب ساحر کی زندگی میں ایک اور خاتون گلوکارہ سدھا ملہوترا آ گئیں تو انہوں نے ان سے دستبرداری اختیار کر لی۔ ایسے میں ایک مصور، فنکار اور مصنف امروز کی صحبت میں انھیں سکون ملا اور زندگی کے آخری چالیس سال انہوں نے امروز کے ساتھ گزار دیے۔ امروز نے ان کی بیشتر کتابوں کے سرورق ڈیزائن کیے اور انہیں اپنی متعدد ہاتھ سے بنائی جانے والی تصویروں کا موضوع بنایا۔ وہ طویل علالت کے بعد 31 اکتوبر 2005 ء کو چھیاسی سال کی عمر میں نئی دہلی میں نیند میں ان کا انتقال ہو گیا۔

1960 ء میں اپنی طلاق کے بعد وہ حقوق نسواں کے لئے کام کرنے لگیں۔ ان کی بہت سی کہانیاں اور نظمیں ان کی اپنی شادی کے ناخوشگوار تجربے پر مبنی تھیں۔ ان کی نظموں اور ناولوں کا انگریزی، فرانسیسی، ڈینش، جاپانی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے جس میں ان کی سوانح تصانیف کالا گلاب اور رسیدی ٹکٹ بھی شامل ہیں۔ امرتا پریتم نے 1961 ء میں آل انڈیا ریڈیو دہلی کی پنجابی سروس میں کام کیا۔ وہ کئی سالوں تک پنجابی زبان کے ایک ماہانہ ادبی رسالہ ً ناگ منی ً کی مدیر رہیں جسے وہ 33 سال تک امروز سے مل کر شائع کرتی رہیں۔ انہی سالوں میں انہوں نے اوشو کی طرف توجہ کی، اس کی متعدد کتابوں کے تعارف لکھے اور روحانی موضوعات اور خوابوں پر بھی لکھنا شروع کیا۔ انہوں نے 1968 ء میں کالا گلاب جبکہ 1976 ء میں رسیدی ٹکٹ اور آخری سالوں میں اکشروں کے سائی ( لفظوں کے سائے ) کے عنوان سے اپنی سوانح حیات لکھیں۔

انہیں دہلی یونیورسٹی اور جبل پور یونیورسٹی نے 1973 ء میں اور وشنو یونیورسٹی نے 1987 ء میں ڈاکٹر آف لٹریچر کی اعزازی ڈگریاں عطا کیں۔ 1979 ء میں بین الاقوامی واپسٹروف ایوارڈ بلغاریہ کی حکومت نے دیا۔ فرانسیسی حکومت کی طرف سے انہیں 1987 ء افسر کی ڈگری دی گئی (Order des arts et des letters۔ Officer ) ۔ وہ 1986 ء سے 1992 ء تک راجیہ سبھا کی ممبر نامزد ہوئیں۔ اپنی زندگی کے آخری دور میں انہیں پاکستان کی پنجابی اکیڈمی نے ایوارڈ سے نوازا اور پاکستان کے پنجابی شعرا نے انہیں بابا بلھے شاہ اور سلطان باہو کے مقبروں سے چادریں پیش کیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ بڑے دنوں کے بعد میرے میکے والوں کو میری یاد آئی ہے۔ (امرتا پریتم کی شاعری اور حالات زندگی کی کچھ اور تفصیلات اگلی قسط میں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments