وقار یونس: پاکستان کرکٹ کے ’اسلحہ خانے کا وہ ہتھیار‘ جس کی تیز رفتاری دنیا بھر میں مشہور رہی

عبدالرشید شکور - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


وقار یونس
16 نومبر 1989 کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ کے دوسرے دن نیشنل سٹیڈیم کراچی میں وہ منظر کوئی بھی نہیں بھولے گا جب ایک جانب گیند اٹھارہ سال کے جوشیلے پاکستانی فاسٹ بولر کے ہاتھ میں تھی اور دوسری جانب کریز پر 16 برس کا ایک باصلاحیت بیٹسمین بیٹ تھامے موجود تھا۔

یہ فاسٹ بولر وقار یونس تھے جبکہ بیٹسمین کا نام سچن تندولکر تھا۔ حسن اتفاق کہ دونوں کا یہ اولین ٹیسٹ میچ تھا۔ آنے والے برسوں میں دونوں نے اپنی دھاک بٹھائی لیکن سب سے اہم بات یہ تھی کہ اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں ان دونوں کھلاڑیوں کا ٹیلنٹ دنیا پر ظاہر ہو گیا تھا۔

وقار یونس نے اُس روز انڈیا کی گرنے والی چھ میں سے چار وکٹیں حاصل کی تھیں جن میں سنجے منجریکر، منوج پربھارکر، سچن تندولکراور کپل دیو شامل تھے اور اِسی خوشی کے ساتھ انھوں نے اُس روز اپنی اٹھارہویں سالگرہ بھی منائی تھی۔

وسیم اکرم کے بعد وقار یونس کی شکل میں ایک اور ’مہلک ہتھیار‘ کا پاکستانی ٹیم کے ’اسلحہ خانے‘ کا حصہ بن جانا بڑی اہمیت رکھتا تھا کیونکہ سب جانتے تھے کہ عمران خان کی بولنگ کی رفتار وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جا رہی تھی اور ٹیم کو دونوں اینڈ سے شعلے برسانے والی بولنگ کی ضرورت تھی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ آنے والا دو 2 ڈبلیوز یعنی وسیم اکرم اور وقار یونس کا تھا۔

میری زندگی اِک سفر ہے

وقاریونس کی زندگی کے ابتدائی دور پر نظر ڈالیں تو اس میں وہ ایک مقام سے دوسرے اور دوسری جگہ سے تیسری اور پھر چوتھی جگہ سفر کرتے نظر آتے ہیں۔

وقار یونس نے بی بی سی اردو سے ہونے والی تفصیلی گفتگو میں اپنی زندگی کے کئی دلچسپ پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

وہ کہتے ہیں کہ ʹمیری زندگی درحقیقت ایک سفر ہے۔ بچپن اور لڑکپن کا بڑا حصہ ہاسٹل میں گزرا۔ جب کرکٹ کھیلنی شروع کی تو ہوٹل دیکھے۔ فیملی لائف کچھ اس انداز کی رہی کہ میں نے مختلف شہروں میں وقت گزارا۔ کبھی شارجہ اور دبئی تو کبھی ابوظہبی میں قیام رہا۔ پاکستان میں رہتے ہوئے لاہور، وہاڑی اور بہاولپور میری زندگی کا حصہ بنے۔ وہ جو کہتے ہیں نہ کہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا تو بہت ہی زبردست انداز میں یہ پانی پیا۔‘

وقار یونس بتاتے ہیں کہ ʹجب میں آٹھویں جماعت میں تھا تو مجھے بہاولپور بھیج دیا گیا۔ میں نے صادق پبلک سکول سے میٹرک کیا۔ مجھے کرکٹ سے کبھی بھی اس طرح دلچسپی نہیں تھی جیسا عام طور پر لڑکوں کو جنون ہوتا ہے۔ میں سکول کی کرکٹ ٹیم میں ضرور کھیلا لیکن میں دوسرے کھیلوں میں بہت آگے تھا۔‘

’میں ایتھلیٹکس میں رننگ جیولن تھرو میں بہت زیادہ دلچسپی لیا کرتا تھا بلکہ کرکٹ بال تھرو میں بھی سکول کا بیس تیس سال پرانا ریکارڈ میں نے توڑا تھا۔ اس زمانے میں سکول میں کرکٹ بال تھرو کا باقاعدہ ایونٹ ہوا کرتا تھا۔‘

وقار یونس مزید بولے کہ ’میں نے تقریباً تمام ہی کھیلوں میں اپنا شوق پورا کیا جن میں ہاکی، بیڈمنٹن، فٹبال اور تیراکی شامل تھے۔ میں متعدد کھیلوں میں کلر ہولڈر بھی تھا لیکن ان میں کرکٹ شامل نہیں تھی۔‘

دیسی سپائکس نے پیر زخمی کر دیے

وقار یونس کہتے ہیں کہ جب وہ دسویں جماعت میں آئے تو تب کرکٹ میں ان کی دلچسپی بڑھی۔

’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے بہاولپور میں پہلی بار سپائکس خریدے تھے۔ دوسروں کو دیکھ کر مجھے بھی سپائکس پہن کر کھیلنے کا شوق ہوا تھا اور میں نے کھیلوں کے سامان کی ایک چھوٹی سی دکان سے ہاتھ کے بنے ہوئے دیسی سپائکس بنوائے لیکن انھوں نے میرے پیر زخمی کر ڈالے۔ پیروں سے خون بہنے لگا کیونکہ میں جس تیز رفتاری سے بھاگتے ہوئے بولنگ کرتا تھا اس وجہ سے وہ سپائکس نہیں چل پائے۔‘

وقار یونس کہتے ہیں کہ ʹجب میں بہاولپور سے وہاڑی آیا تو پھر میرا کرکٹ کی طرف رجحان بہت زیادہ ہو گیا۔ اس زمانے میں صوفی صدیق صاحب ہوا کرتے تھے۔ وہ بوریوالا وائٹس کرکٹ کلب کے کرتا دھرتا تھے۔ مجھے وہاڑی کے کلب سے کھیلنا چاہیے تھا لیکن مجھے ابھی یہ یاد نہیں کہ میری صوفی صدیق صاحب سے کیسے ملاقات ہوئی اور میں بوریوالہ کی طرف سے کھیلنے لگا۔‘

’وہاڑی والوں سے میری نہیں بنی اور میں اس زمانے میں کلب کرکٹ کی روایتی سیاست کا شکار ہو گیا۔ بوریوالا کلب کی ٹیم دوسرے شہر بھی جایا کرتی تھی لہذا میں میچ کھیلنے کوئٹہ بھی گیا۔‘

وقار بتاتے ہیں کہ ʹمیری والدہ نے مجھے کبھی کھیلنے سے نہیں روکا بلکہ ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ والد ملازمت کے سلسلے میں ملک سے باہر تھے۔ میں نے گورنمنٹ کالج وہاڑی میں داخلہ لیا اور وہاں بھی کرکٹ کھیلی۔‘

’وہ سخت زمانہ تھا جب روزانہ پریکٹس کے لیے وہاڑی سے بوریوالا بسوں میں سفر کرنا اور واپس آنا۔ کبھی پیسے نہیں ہوتے تو کنڈکٹر سے بھی جھگڑے ہو جاتے تھے۔ کبھی بس کی چھت پر تو کبھی بس کے پیچھے لٹک کر سفر کرنا۔ دو تین بار کوئٹہ بھی گئے تو مال گاڑیوں میں دھکے کھائے لیکن شوق کا یہ عالم تھا کہ جون جولائی کی سخت گرمیوں میں گراؤنڈ میں ہوتے تھے۔‘

وقار یونس

فاسٹ بولنگ نے پسند کو عشق میں بدل دیا

وقار یونس کو اچھی طرح یاد ہے کہ انھوں نے فاسٹ بولنگ اپنے سکول کے استاد کے کہنے پر شروع کی تھی۔

’صادق آباد میں ہمارے سکول کے ٹیچر تھے جن کا نام غلام تھا لیکن انھیں سب غمی صاحب کہہ کر بلاتے تھے۔ میں اس زمانے میں رائٹ آرم لیگ سپن کیا کرتا تھا۔ ایک دن میں نے تیز بولنگ کی تو غلام صاحب کہنے لگے کہ تم تو ٹھیک ٹھاک تیز بولنگ کر لیتے ہو۔‘

’ان کے کہنے پر تیز بولنگ شروع کر دی اور یقین جانیے کہ جس دن سے فاسٹ بولنگ شروع کی مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس کھیل سے میری پسندیدگی عشق میں بدل گئی ہو۔‘

نہر میں نہاتے ہوئے انگلی کٹ گئی

وقار یونس کے بائیں ہاتھ کی چار انگلیاں ہیں۔ ایک انگلی کم کیوں ہے؟ اس بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ کیسے نہر میں نہاتے ہوئے ان کی انگلی کٹ گئی۔

’ہم تمام دوست نہر میں نہایا کرتے تھے اور اس پر بنے ہوئے ُپل کی جالیاں پکڑ کر اوپر آ جایا کرتے تھے۔ ایک دن میں نہر میں نہانے کے بعد ُپل پر چڑھ رہا تھا کہ میرے پیر پھسل گئے۔ میں نے ُپل کی جالیوں کو پکڑنے کی کوشش کی اور اس دوران میرا ایک ہاتھ چھوٹ گیا۔‘

’میں نے دوسرے ہاتھ سے خود کو گرنے سے بچانا چاہا لیکن انگلی ُاس جالی میں پھنسی اور کٹ گئی۔ میں نیچے آ گرا جس سے میری دو پسلیاں بھی ٹوٹ گئیں اور میرا آپریشن ہوا تھا۔‘

میری جگہ کمشنر کا بیٹا آسٹریلیا چلا گیا

وقار یونس کہتے ہیں کہ ʹسنہ 1987 میں آسٹریلیا میں ہونے والے یوتھ ورلڈ کپ سے قبل ان کی پرفارمنس بہت اچھی تھی۔

’میں وکٹیں لے رہا تھا اور انضمام الحق سنچریاں بنا رہے تھے جس کی وجہ سے ہم دونوں کو ساہیوال میں یوتھ ٹیم کے کیمپ میں بلا لیا گیا۔ جب ٹیم سلیکشن ہوا تو میرا اور انضمام الحق کا سلیکٹ ہونا یقینی تھا لیکن انضمام تو ٹیم میں منتخب ہو گئے لیکن میں نہ ہو سکا۔ دراصل سفارش کام دکھا گئی اور ایک لڑکا جو فیصل آباد سے آیا تھا اور کسی کمشنر کا بیٹا تھا وہ سلیکٹ ہو کر آسٹریلیا چلا گیا حالانکہ وہ وہاں نہیں کھیلا بلکہ صرف ٹور کر کے آ گیا۔ دو تین مزید لڑکے تھے ان سے بھی میں بہت اچھا تھا۔‘

وقار یونس سابق ٹیسٹ کرکٹرز شفیق احمد پاپا اور احتشام الدین کے نام بہت احترام سے لیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اپنے کریئر میں جن لوگوں کے وہ احسان مند ہیں، ان میں شفیق احمد پاپا اور احتشام الدین قابل ذکر ہیں۔

’میں نے چند میچز پاکستان سٹیل ملز سے کھیلے جہاں میری بولنگ دیکھ کر شفیق پاپا مجھے یو بی ایل کی ٹیم میں لے آئے تھے۔ اس وقت وہ یو بی ایل کی ٹیم کے کپتان تھے جبکہ احتشام الدین کوچ اور ہارون رشید منیجر ہوا کرتے تھے۔‘

وسیم اکرم اور وقار یونس پر لکھی گئی کتاب ʹوسیم وقار، عمران کے وارثʹ کے مصنصف جان کریس لکھتے ہیں کہ ʹیو بی ایل ٹیم کے منیجر سابق ٹیسٹ کرکٹر ہارون رشید کے کہنے پر اُس وقت کے چیف سلیکٹر جاوید برکی نے وقار یونس کو پاکستان انڈر19 ٹیم کو پہلی بار منتخب کیا تھا حالانکہ جاوید برکی انھیں چانس دینے کے سلسلے میں تذبذب کا شکار تھے۔‘

وقار یونس

کریئر پر عمران خان کا اثر

وقار یونس کہتے ہیں کہ یو بی ایل اور دلی کی ٹیموں کے درمیان سپر ولز کپ کا میچ تھا جس میں انھیں سلیم جعفر کے ان فٹ ہونے کی وجہ سے کھیلنے کا موقع ملا۔

’عمران خان نے ٹی وی پر مجھے بولنگ کرتے ہوئے دیکھا اور میری سپیڈ سے متاثر ہوئے اور انھی کی وجہ سے میں شارجہ میں ہونے والے ٹورنامنٹ کی ٹیم میں شامل ہوا۔‘

مصنف جان کریس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سلیکٹرز کا خیال تھا کہ وقار یونس ابھی انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے تیار نہیں لیکن عمران خان مصر تھے کہ وقار یونس کو ٹیم میں ہونا چاہیے۔‘

عمران خان نے اپنی کاؤنٹی کو کیا کہا؟

وقار یونس سنہ 1989 میں بین الاقوامی کرکٹ میں آئے تھے اور اگلے ہی سال وہ کاؤنٹی کرکٹ میں اپنی تیز رفتار بولنگ سے حریف بیٹسمینوں کے لیے پریشانی کا سبب بن گئے۔ انھیں کاؤنٹی کرکٹ تک پہنچانے میں بھی عمران خان کا ہی ہاتھ تھا۔

عمران خان نے اپنی کاؤنٹی سسیکس کے کپتان پال پارکر اور کوچ نارمن گفرڈ سے بات کی اور انھیں بتایا کہ ان کے پاس ایک ایسا سٹرائیک بولر ہے جو بہت مختلف اور منفرد ہے اور کہا کہ آپ لوگ اسے سائن کر لیں تو اچھا ہو گا ورنہ اگلے سال کوئی اور اسے لے جائے گا۔

عمران خان کے کہنے کے باوجود سسیکس کاؤنٹی نے وقار یونس کو ناں کر دی اور ٹونی ڈوڈیمیڈ کو کنٹریکٹ دے دیا۔ جب عمران خان کی شارجہ ٹورنامنٹ کے موقع پر اپنے پرانے ساتھی ای این گریگ سے ملاقات ہوئی جو سرے کاؤنٹی کے کپتان تھے تو انھوں نے ان سے وقار یونس کے لیے بات کی۔

عمران خان

سرے کاؤنٹی فاسٹ بولر ٹونی گرے کی فٹنس سے پریشان تھی۔ عمران خان نے وقار یونس سے یہ تک کہا کہ اگر سرے کاؤنٹی انھیں فوری طور پر پیسے نہ بھی دے تو تب بھی وہ وہاں جا کر قسمت آزمائی کریں۔

ان کے کہنے پر وقار یونس اوول گراؤنڈ پہلی بار گئے جہاں ای این گریگ نے انپیں سیکنڈ الیون کی طرف سے کھیلنے کا موقع فراہم کیا لیکن اس کے بعد وہ کاؤنٹی چیمپئن شپ اور دوسرے ٹورنامنٹس میں کھیل رہے تھے۔

سرے کاؤنٹی نے وقاریونس سے جو پہلا معاہدہ کیا وہ صرف سات ہزار پاؤنڈ کا تھا۔ اس سیزن میں انھوں نے عمدہ بولنگ کرتے ہوئے 57 وکٹیں حاصل کر ڈالی تھیں اور گراؤنڈ میں موجود کھلاڑی ہی نہیں امپائر بھی ان کی تیز رفتاری دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔

وقار یونس کے پہلے کاؤنٹی میچ میں امپائرنگ کرنے والے جان ہولڈر کا کہنا تھا کہ ’میں نے وقار یونس کو جب انڈیا میں نہرو کپ میں بولنگ کرتے دیکھا اور اب دیکھ رہا ہوں تو وہ مختلف بولر ہیں اور بہت تیز بولنگ کر رہے ہیں۔‘

مشہور مصنف ڈیوڈ فُوٹ نے گارجین میں لکھا کہ ’وقار نیچرل ایکشن کے ساتھ بہت تیز بولر ہیں۔‘

وقار یونس کے لیے سرے کے ساتھ گزارے ہوئے ابتدائی ہفتے مشکل تھے۔ سرے نے انھیں رہائش نہیں دی تھی اور انھوں نے چند ہفتے پاکستانی دوستوں کے ساتھ گزارے تھے پھر کہیں جا کر انھیں ایک کمرے کا فلیٹ ملا تھا۔ کھانے کا مسئلہ بھی اپنی جگہ موجود تھا جبکہ ڈریسنگ روم میں مختلف قومیتوں کے حامل کرکٹرز کے لہجے سمجھنا بھی ان کے لیے آسان نہیں تھا۔

وقار یونس

خطرناک یارکر سے پنجے زخمی ہونے لگے

پہلے سیزن میں وقار یونس کی شاندار بولنگ اور تیز رفتاری دیکھ کر سرے کاؤنٹی نے اندازہ لگا لیا کہ اس ٹیلنٹ کو ہاتھ سے نکل جانے دینا کتنا بڑا نقصان ہو گا لہذا اس نے پانچ سال کا معاہدہ کرنے میں ذرا دیر نہیں لگائی۔

وقار یونس نے اپنے دوسرے ہی سیزن میں تباہ کن بولنگ کرتے ہوئے 113 فرسٹ کلاس وکٹیں حاصل کیں جن میں 13 مرتبہ اننگز میں پانچ یا زائد اور دو مرتبہ میچ میں دس یا زائد وکٹوں کی شاندار کارکردگی شامل تھی۔

وزڈن المانک نے وقاریونس کو اس غیرمعمولی کارکردگی پر سال کے پانچ بہترین کرکٹرز میں شامل کیا تھا۔

یہ وہ دور ہے جب وقاریونس کی بولنگ اپنے عروج پر تھی۔ وہ بیٹسمینوں پر خوف کی علامت بنے ہوئے تھے۔ ان کی خطرناک یارکر بیٹسمینوں کے پنجے بری طرح زخمی کر رہی تھیں۔ اگر وہ زخمی ہونے سے بچ جاتے تو یا ایل بی ڈبلیو ہو جاتے یا پھر فضا میں سٹمپس اڑتی تھیں۔

کرکٹر اور صحافی سائمن ہیوز کا یہ جملہ مشہور ہے کہ ʹوقار یونس کا سامنا کرنے کے لیے آپ کو ہیلمٹ کا ضرورت نہیں۔ پنجے (ٹو) بچانے کے لیے سٹیل کیپ ہونا ضروری ہے۔‘

انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی کئی بیٹسمین وقار یونس کی خطرناک سوئنگنگ یارکر کا نشانہ بنے جن میں ویسٹ انڈیز کے برائن لارا یہ بات کبھی نہیں بھول سکتے کہ وقار یونس کو لگاتار دو چوکے لگانے کے بعد وہ یارکر پر اپنا توازن برقرار نہ رکھتے ہوئے گر پڑے اور بولڈ ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیے

ریورس سوئنگ: دنیائے کرکٹ کا ’کالا جادو‘

’پتہ نہیں وقار یونس کہاں کھوئے ہیں!‘

انڈیا پاکستان کا وہ میچ جب کرکٹ سٹیڈیم ’چھاؤنی‘ بن گیا

ٹو ڈبلیوز کی مشہور جوڑی

وسیم اکرم اور وقار یونس کی جوڑی کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ یہ کرکٹ کی تاریخ کی چند بہترین فاسٹ بولنگ جوڑیوں میں سے ایک ہے جس نے پاکستانی ٹیم کی فتوحات میں کلیدی کردار ادا کیا۔

وقار یونس بتاتے ہیں کہ ’وسیم بھائی مجھ سے سینئیر ہیں۔ جب میں ٹیم میں آیا تو اُس وقت وہ سپر سٹار تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب انھیں کوئی چیلنج کرنے والا بولر نہ تھا۔‘

’اس زمانے میں سلیم جعفر، عظیم حفیظ اور محسن کمال ہوا کرتے تھے۔ میں نے جب کاؤنٹی کرکٹ میں وکٹیں لینا شروع کیں تو میں ان کے مقابلے پر آ چکا تھا۔ ان کی عزت اپنی جگہ لیکن فیلڈ میں چیلنج مختلف بات تھی۔ اس وقت وہ لنکاشائر کی طرف سے کھیل رہے تھے۔ ہم دونوں کے درمیان مقابلے کا ہم دونوں کو ہی نہیں بلکہ پاکستانی ٹیم کو بھی فائدہ ہوا اور ہم نے پاکستان کو کئی سیریز جتوائیں۔‘

وقار یونس کی اس بات کو اگر ہم اعداد و شمار میں دیکھیں تو یہ دونوں فاسٹ بولرز 61 ٹیسٹ میچوں میں ایک ساتھ کھیلے ہیں۔ ان 61 ٹیسٹ میچوں میں وسیم اکرم نے 282 وکٹیں حاصل کیں جبکہ وقار یونس کی حاصل کردہ وکٹوں کی تعداد 277 ہے یعنی دونوں نے اکٹھے کھیلتے ہوئے 559 ٹیسٹ وکٹیں حاصل کی ہیں۔

کرکٹ کی وجہ سے شادی

وقار یونس کی شادی کا معاملہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ وقار یونس اس کی تفصیل بتاتے ہیں کہ جب وہ لاہور میں میچ کھیل رہے تھے تو فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی طالبات کا ایک گروپ میچ دیکھنے سٹیڈیم آیا تھا۔

’میں نے فریال کو دیکھا۔ وہ مجھے اچھی لگیں اور میں نے فیصلہ کیا کہ انھی سے شادی کروں گا۔‘

’لیکن سوال یہ تھا کہ مجھے تو وہ اچھی لگی ہیں لیکن کیا میں بھی انھیں اچھا لگا ہوں یا نہیں۔ ان کی فیملی آسٹریلیا میں رہتی تھی۔ چند ملاقاتوں کے بعد میں نے باقاعدہ رشتہ بھیجا جسے ان کی فیملی نے قبول کر لیا۔

وقار یونس بتاتے ہیں کہ ان کی اہلیہ کو کرکٹ کی بہت زیادہ سمجھ ہے۔

وقار یونس کہتے ہیں کہ ’دنیا میری بولنگ کی بات کرتی ہے لیکن گھر میں معاملہ ʹگھر کی مرغی دال برابرʹ والا ہے۔ میری دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ میں اکثر گھر میں بچوں سے مذاق کرتا رہتا ہوں کہ میں سپر سٹار ہوں آپ لوگوں کو کون جانتا ہے؟ تو یہ سب مجھ پر ہنستے ہیں کہ ہمیں نہ بتائیں۔ میرا بیٹا سپورٹس مین ہے لیکن اس کی زیادہ توجہ پڑھائی پر ہے اور وہ ڈاکٹر بن رہا ہے۔‘

وقار یونس کہتے ہیں کہ جب وہ گھر پر ہوتے ہیں تو کوئی بھی انھیں کرکٹ دیکھنے نہیں دیتا۔

’ان سب کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ آپ کم وقت کے لیے گھر میں ہوتے ہیں لہذا کرکٹ نہیں دیکھنی۔ میں پھر بھی باز نہیں آتا اور چوری چوری ٹی وی پر میچ دیکھ لیتا ہوں، کبھی سکور دیکھ لیتا ہوں۔‘

دنیا کے تیز ترین ایتھلیٹ یوسین بولٹ بھی وقار یونس کے مداح

دنیا کے تیز ترین ایتھلیٹ یوسین بولٹ بھی وقاریونس کے زبردست مداح ہیں۔ یوسین بولٹ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اپنے بچپن میں وہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو بہت پسند کرتے تھے اور وقار یونس کی تیز بولنگ کے وہ دیوانے تھے۔

وقار یونس کہتے ہیں کہ ان کی یہ خواہش رہی ہے کہ وہ یوسین بولٹ سے ملاقات کریں لیکن ابھی تک ملاقات نہیں ہو پائی۔

’ایک بار پتہ چلا تھا کہ وہ کلب فٹبال کھیلنے سڈنی آئے ہیں لیکن میں مل نہیں پایا۔ اسی طرح اس سال ہم ویسٹ انڈیز کے دورے پر تھے لیکن اس وقت بھی بولٹ سے ملنے کا موقع نہ مل سکا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments