رکاکت اور ابتذال کے موسم میں جینا


برادر محترم ان دنوں خاموش ہیں ۔یوں بھی اسرافیلی طبیعت پائی ہے ۔ مہینوں بلکہ برسوں میں قلم اٹھاتے ہیں ، ان کا قلم بھی برہمن کے ناقوس، جوگی کے سنکھ اور نالہ جرس سے کم نہیں۔ کوئی چار برس پہلے خامہ ہوش ربا کو حرکت دی اور پارٹی ختم ہو نے کی خبر دی۔ یہ برہم ہونے والی محفل یوں بھی برہم ہو جاتی۔ برادر محترم کی رسوائی کو مفت میں پر لگ گئے۔ 2018ءکے ابتدائی مہینوں میں صاحبان ذی وقار کی محفل سے آیہ نو کی وعید لائے۔ عذاب شدید کی نوید کی طرح یہ خبر بھی درست نکلی ۔حضرت نے اس دوران ایک تصنیف لطیف بھی تالیف کی۔ پہلے اک روزن در توڑا تھا، اب کے دیوار گرا دی ہم نے۔ کتاب کے سرورق ہی پر قضیہ کھڑا ہو گیا۔ بارے یہ جھگڑا بھی فیصل ہوا۔ اب کے حضرت کا فرمان تھا ، ’یہ کمپنی نہیں چلے گی ‘۔ایک برس پہلے کی یہ پیش گوئی اب کوچہ و بازار میں گونج رہی ہے۔ حضرت کے قلم سے گلہ نہیں۔ خبر لانے والا واقعے کا ذمہ دار تو نہیں۔ بازوئے قاتل کو قرار ہے اور نہ موج خوں ٹھہرتی ہے۔
ہم نے کس عہد میں آنکھ کھولی تھی۔ لکھنے والا دنیا کے دائم آباد رہنے کی خبر دیتا تھا اور اگر غم کی جاں گدازی بڑھ جاتی تو یہ کہہ کر خاموش ہوجاتا ، میں کل ادھر سے نہ گزروں گا ،کون دیکھے گا۔ اب ایسے دن آئے ہیں کہ رکاکت اور ابتذال میں مناقشہ ہے۔ تصویر کے دونوں رخ ایک سے تاریک ہیں۔ ایک آزمائش ختم ہونے کے آثار ہیں ، ایک اور امتحان کے اندیشے ہیں۔ ایک صفحے پر لکھی تحریر مرموزکے سب رموز کھل چکے۔ بنگالے کی مہم پر نکلنے والے لشکر کے پیادے اور رسالے میں اعتماد کی خلیج پیدا ہو چکی۔ بنگالے کا ذکر آئے تو وارن ہیسٹنگز کے مظالم یاد آتے ہیں۔ اٹھارہویں صدی کی برطانوی پارلیمنٹ میں کالے مقامیوں پر کمپنی بہادر کی چیرہ دستیوں کا تفصیلی بیان ہوا تھا۔ تین صدی بعد آج کا المیہ یہ ہے کہ مدعی اور منصف کے گٹھ جوڑ میں فریادی کا مردہ خراب ہو رہا ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ معیشت کی رگ جاں فرنگ کے پنجہ استبداد میں ہے۔ افتادگان خاک تک مگر تیل ، بجلی اور گیس کی گرانی پہنچتی ہے۔ اشیائے خورونوش تک نارسائی کا دکھ پہنچتا ہے۔ ہزاروں میل دور بندکمروں میں عہد و پیماں کا کیف و کم ہمیں کیا معلوم ہو گا۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ستر ہزار سے زیادہ ابنائے وطن کے قاتلوں سے کن شرائط پر بات ہو رہی ہے۔ ہفتوں ملک کی معاشی شہ رگ پر قبضہ کرکے تباہی پھیلانے والوں سے معاہدے کے خدوخال کیا ہیں۔ عجیب خواب دکھاتے ہیں ناخدا ہم کو۔ کل تک جو بھارت کے فرستادہ تخریب کار تھے آج انہیں دامن عاطفت کی پیشکش کی جاتی ہے۔ اہل صحافت کو بند کمرے میں جن گروہوں کے مذموم عزائم سے آگاہ کیا جاتا ہے چند گھنٹوں بعد ان سے معانقہ کی رسم عمل میں آتی ہے۔

جس ولایت سے اونچی اور گہری دوستی کا دعویٰ تھا اب معلوم ہوا کہ اس سے موانست میں معاشی منفعت کا چنداں امکان نہیں۔ دوسری طرف جن سے بے وفائی کے شکوے تھے ، اغیار سے پینگیں بڑھانے کا گلہ تھا ، اب انہی کے در پر جبہ سائی کا ارادہ ہے ۔ قوموں کے تعلقات میں ایسی اونچ نیچ نئی بات نہیں۔ سوال مگر یہ کہ انحرافی نقطہ نظر رکھنے والے اہل وطن کل بھی معتوب تھے اور آج بھی مقہور ہیں۔ اہل حکم کا فرمان کل بھی صائب تھا اور آج بھی معتبر ہے۔ دوسری طرف جن اہل سیاست سے خستگی کی داد پانا تھی وہ ایک دوسرے پر درپردہ روابط کے الزام ارزاں کر رہے ہیں۔ ایسے میں حکومتوں کی تبدیلی بے معنی ہے۔ درویش نے چار برس پہلے عرض کی تھی کہ ’عمران خان ابھی میرے وزیراعظم نہیں بن سکتے‘۔ کچھ وقفے کے بعد گزارش کی کہ قوم کی خستہ حالی میں ’عمران خان فریق نہیں ہیں‘۔ لکھنے والا رائے ہی دے سکتا ہے، کسی کو تڑی پار نہیں کر سکتا۔ آج بھی معاشی بدحالی ، سیاسی انتشار اور سفارتی تنہائی کی ذمہ داری عمران خان پر رکھنا محض کتاب گزشتہ پر ایک بے معنی ضمیمہ ایزاد کرنے کے مترادف ہو گا۔

سوال یہ ہے کہ کیا سیاست کے دستوری خدوخال اور قوم کی معاشی بہتری میں نامیاتی تعلق تسلیم کر لیا گیا ہے۔ کیا ماضی بعید اور قریب کی کوتاہیوں کا ادراک ہو چکا ۔ کیا سیاسی قوتوں کے چوبی پتلے تراشنے کی لاحاصلی واضح ہو چکی۔کیا پولنگ بوتھ پر جھرلو کی قبیح رسم سے ہاتھ کھینچ لیا گیا۔ کیا ہم نے قومی سلامتی کی ریاست کے معاشی طور پر ناقابل عمل ہونے کا سبق سیکھ لیا ہے۔ ہماری نسل نے تیس برس پہلے قلم کو اظہار کا پردہ کیا تھا تو دنیا ابھی دو عالمی طاقتوں کے نمونے سے جھونجھ رہی تھی۔ بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر ایک ارب ڈالر سے بھی کم تھے۔ آج بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 641 ارب ڈالر ہیں اور ہم کولہو کے بیل کی طرح بیس ارب پر گھوم رہے ہیں۔ ہمیں یہ بھی تھا گوارا مگر مشکل یہ ہے کہ چوتھے صنعتی انقلاب کی دنیا میں محنت کش ہاتھ تیزی سے بیروزگار ہوں گے ۔ نئی دنیا آٹومیشن ، مصنوعی ذہانت اور انسانی سرمائے کے اعلیٰ معیار سے تشکیل پا رہی ہے۔ امریکا ، چین ، بھارت اور یورپ میں روایتی تصادم کی امید رکھنے والوں کو خبر ہو کہ تجارت اور بندوق میں کوئی تال میل نہیں۔ اگر بندوق سے قوم کا پیٹ بھرا جا سکتا تو افغانستان پر قبضہ کرنے والے غذائی کمی کے انسانی المیے کی دہائی نہ دیتے۔ ہمارے لیے اب بھی ترمیم زہد کی مہلت باقی ہے۔ شفاف انتخاب کی طرف پیش رفت کی جائے اور پیداواری معیشت کے لیے معیاری تعلیم کو واحد قومی ترجیح قرار دیا جائے۔ رکاکت اور ابتذال کے جس موسم میں ہم زندہ ہیں ، اس میں اجتماعی رسوائی اور فرد کی بے دست و پائی کے سوا کچھ نہیں رکھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments