سابق جج کے بیان حلفی کی قانونی حیثیت


آج کل چارسو ایک غلغلہ ہے۔ میڈیا کا شور ہے، بیان بازی ہے، الزامات ہیں کہ ایک دوسرے پر دھرے جا رہے ہیں۔ حکومت اور حزب اختلاف ایک دوسرے کے خلاف تو تھے ہی اس حلفیہ بیان نے مزید ان کے درمیان تلخیاں اور دوری بڑھا دیں۔ ایک شور شرابا ہے۔ سیاسی گفتگو غیر سیاسی گفتگو کی تمام حدیں پار کر چکی ہے۔ ججز کے لئے لٹکانے اور ان پر پیسے کھانے کے سیاسی مباحثوں میں بڑے دھڑلے سے بولا جا رہا ہے۔ ادھر دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس پر ازخود نوٹس بھی لے لیا ہے اور دونوں سابقہ ججز اور انصار عباسی کو بھی طلب کیا گیا ہے۔

اصل میں اس حلفیہ بیان پر دو طرح سے بحث کی جا سکتی ہے۔ ایک تو یہ کہ ایک سابقہ جج نے ایک سابقہ جج کے خلاف حلفیہ بیان دیا ہے اور اس پر شور شرابا، بیان بازی اور لڑنا جھگڑنا آپس میں سیاست داں کر رہے ہیں۔ اس کے بھی دو کون سی کونسز ہیں ایک یہ کہ یا تو یہ سیاست داں سمجھ ہی نہیں رہے ہیں اس مسئلے کو یا پھر بہت اچھی طرح اس حلفیہ بیان کو نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ کہیں نہ کہیں خود کو بھی ان صاحبان میں سے کسی ایک کے ساتھ اٹھک بیٹھک کے روادار بھی ہو سکتے ہیں، کہیں نہ کہیں سیاسی اثر و رسوخ کے مرتکب شاید نظر آ رہے ہوں یا پھر اپنی شخصیت سے متعلق کچھ وابستگیاں ہیں جسے غیر وابستگی کی طرف لے جانے کی سعی لا حاصل ہور ہی ہے۔

بہرحال یہ تو سیاسی صورت حال کی بات تھی۔ اب آتے ہیں کہ اس حلفیہ بیان کی قانونی کیا حیثیت بنتی ہیں۔ تو پہلی بات تو یہ کہ قانونی طور پر اس وقت اس حلفیہ بیان کی کوئی لیگل ویلیو نہیں ہیں۔ جب تک کہ یہ اس کو عدالت میں کسی کمپلینٹ یا استغاثہ کی صورت میں نہ لایا جائے۔ اور اس کو فورنزک یا پھر عدالتی جرح سے گزارا نہ جائے۔ ہمارے ہاں عام تاثر یہ بنا ہوا ہے کہ جو چیز بھی سٹامپ پیپر پر لکھی جائے یا کوئی بھی حلفیہ بیان نوٹری پبلک یا اوتھ کمشنر سے کرایا جائے وہ مستند اور راسخ سمجھا جاتا ہے لیکن اگر کوئی بھی شخص خوا وہ جج ہو یا پھر کوئی عام آدمی اگر وہ کہیں پر بھی کوئی حلفیہ بیان دے دے اور وہ حلفیہ بیان پھر اپنے پاس جیب میں رکھیں تو اس کی کیا حیثیت ہوگی۔

یہی مسئلہ ارشد ملک کے ویڈیو کے حوالے سے بھی تھا کہ جب تک اس کو عدالتی یافورنزک پروسس سے نہ گزارا جاتا اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ہاں ایسے چیزوں کے پیچھے کچھ مقاصد ضرور ہوتے ہیں، اور اس طرح کا کوئی بھی جج اگر کسی متعلقہ کیس کی سماعت کرتے ہوں اور ان کو متنازعہ بنایا جائے تاکہ وہ اخلاقی طور پر اس کیس کی سماعت سے ہٹ جائے تو ایسے اقدامات ان کے فی الفور پورے ہو جاتے ہیں کیونکہ اکثر ججز ایسے کیسز کی سماعت سے پھر خود کو الگ کر دیتے ہیں۔

رانا شمیم صاحب میرے ایس۔ ایم۔ لاء کالج کراچی میں ایل ایل بی اور ایل۔ ایل۔ ایم کے استاد بھی رہے، پھر اکٹھے ایک ساتھ کسٹم ٹریبونل اور نارکوٹکس کورٹس میں الگ الگ ملزمان کی طرف سے پیش بھی ہوتے رہے۔ مشرف کے دور میں سندھ میں پراسیکیوٹر جنرل بنے پھر سندھ ہائی کورٹ کے جج بھی بنے لیکن پی۔ سی او کے تحت دیگر ججز کے ساتھ پھر گھر بھی چلے گئے۔ اس کے بعد وفاقی اردو یونیورسٹی کے لاء فیکلٹی کے ڈین بنے۔ اور کئی پی سی او ججز کو ادھر وزٹنگ فیکلٹی لگوایا۔

میں بھی ان کے ڈین شپ میں وزٹنگ فیکلٹی رہا لیکن وفاق کے خلاف رانا مقبول کے کیس میں وکیل ہونے کی وجہ سے اپنی سیٹ سے مستعفی ہوئے۔ میں اس ادارے میں دو ہزار دس سے دو ہزار سترہ تک رہا۔ اس دوران رانا شمیم صاحب کراچی اور اسلام آباد میں پریکٹس کرتے رہے۔ اور پھر گلگت بلتستان کے چیف جج مقرر ہوئے۔ میرا اس دوران ان سے مبارک بادی کے بعد دوسری بار رابطہ سبکدوشی کی بعد ہوا جب وہ کراچی میں زیبل یعنی ذوالفقار علی بھٹو لاء یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے پھر مبارکباد دی دی اور پھر ان کے پاس کبھی نہیں گیا گو کہ انھوں نے مجھے سی وی دینے کا بھی مشورہ دیا لیکن میں اپنی ذاتی پریکٹس کی وجہ سے دوبارہ زیبل نہیں گیا اور اب پتہ چلا کہ رانا صاحب نے سابقہ چیف جسٹس سپریم کورٹ اف پاکستان کے خلاف حلفیہ بیان دیا ہے۔

جہاں تک میں ذاتی طور پر رانا صاحب کو جانتا ہوں وہ جھوٹا بندہ بالکل نہیں لیکن یاروں کے یار ہیں اور یار دوستوں کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔ دوسری جانب ثاقب نثار صاحب سے بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ کھلم کھلا کسی کے سامنے رجسٹرار کو حکم جاری کریں لیکن ثاقب نثار صاحب کی نمود و نمائش کا جو شوق یا وتیرہ تھا وہ سب کو معلوم ہے۔

اوپن کورٹ میں ان کیمرہ اپنے لاڑکانہ کے ایڈیشنل سیشن جج کا موبائل فون اپنے سامنے میز پر رکھنے کے ایک چھوٹے سے عمل پر توہین کرانا۔ بطور جج ڈیم کے لئے پیسے اکٹھا کرانا اور ریٹائرمنٹ کے بعد پھر اس منصوبے کا سرے سے نہ پوچھنا۔ معمولی معمولی بات پر ازخود نوٹس لینا اور اپنے پورے ٹینیور میں اے۔ پی ایس کے کیس کو ہاتھ تک نہ لگانا ایسی چیزیں تھیں جو ان کی شخصیت پر سوال اٹھاتی تھی۔

میرے خیال سے جو مقاصد اس تمام سناریو کے پیچھے ہیں وہ حاصل ہوچکے ہیں یا پھر حاصل ہوجائیں گے۔ یہ بات کچھ دنوں تک ارشد ملک کے کیس کی طرح سرفس پر رہے گی اور پھر خود بخود تہہ میں آرام سے بیٹھ جائے گی۔ یہ معاملہ جج و رسز جج ہے اور ججز ایک دوسرے کو خوب جانتے ہیں اور پھر جب وہ سبکدوش بھی ہوں۔ میرے خیال سے یہ اتنا آگے نہیں لے کے جائیں گے اور بالآخر تصفیے کی صورت میں اس کا حل نکال دیں گے یا پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود بخود اس مسئلے کو لوگ بھول جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments