لڑکی کی قسمت اور تعویذ کا توڑ



لڑکی نے خوب کس کر مرد کے پہلو میں بانہیں ڈال کر جپھی ڈالی ہوئی تھی اور سر اس کے کاندھے پر رکھا ہوا تھا۔ جنگل کے بیچوں بیچ بل کھاتی سڑک سنسان پڑی تھی۔ پوہ کا جاڑا پڑ رہا تھا۔ دسمبر کی ایک یخ بستہ شام تھی۔ دونوں خوب گرم کپڑوں میں لپٹے لپٹائے موٹر بائیک پر اٹکھیلیاں کرتے جاتے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ سپیشل آج کی شام سیلیبریٹ کرنے نکلے ہیں۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کی سال گرہ تھی کیونکہ سال گرہ والی مخروطی ٹوپی اس لڑکی کے ہاتھ میں تھی۔

وہ بھی جنگل کی اسی چھوٹی سی خوب صورت مگر ویران شاہراہ کے کنارے کرسی ڈالے تن تنہا بیٹھا تھا۔ ساتھ ہی ایک پرانے ماڈل کی خوب ہنڈی ہوئی ڈیزل انجن ٹیوٹا کرولا کھڑی تھی۔ اس نے اپنے ساتھ ایک قد آدم پینا فلیکس ایستادہ کیا ہوا تھا جس پر اجرام فلکی، کہکشائیں، نظام شمسی، مختلف برج، ان کے دو تین زبانوں میں نام اور تخیلاتی اشکال بنی ہوئی تھیں۔ کسی بکری کے ببر شیر کا سر لگا ہوا تھا اور کسی کامنی سی عورت کا نچلا دھڑ مچھلی کا تھا۔ اس سٹینڈی کے عین درمیان میں جلی حروف میں لکھا تھا ”اپنی قسمت کا حال جانیئے۔“

پھٹ پھٹ پھٹ کرتی بائیک جب اس کے سامنے سے گزری تو لڑکی نے ہلکی سی شرارت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ لڑکے کے کان میں سرگوشی کی۔

”آؤ قسمت کا حال معلوم کریں۔ دیکھیں تو سہی کہ میں تمہاری قسمت میں ہوں بھی یا نہیں۔“
لڑکے نے ایک نظر اس پامسٹ پر ڈالی مگر بائیک نہ روکی۔
”تم میری قسمت میں ہو نہ ہو مگر میں تمہاری قسمت میں ضرور ہوں۔“ ۔ قہقہہ
”نہیں ناں۔ آؤ تو سہی۔ میری جان نہیں ہو؟“
یہ وار کاری ثابت ہوا۔
لڑکے نے موٹر سائیکل پیچھے موڑ دی۔
”آئیے سر! کچھ جاننا چاہیں گے؟“
پامسٹ نے ایک بیگ سے ٹیرو کارڈز کا گٹھا سا نکال کر پھینٹتے ہوئے پوچھا۔
” کیا چارجز ہیں۔ ؟
”سر ویسے تو چھ سو روپے پر ہیڈ ہیں۔ پر آپ کے لئے پانسو پر ہیڈ ہوجائیں گے۔“
لڑکا اور لڑکی دونوں واپس جانے کے واسطے مڑے۔
لڑکے نے لڑکی کے کان میں انتہائی مدھم آواز میں کچھ کہا
”۔ ۔ اور ویسے بھی سورج غروب ہونے کو ہے۔ سنسان جنگل ہے۔“
پیچھے سے آواز آئی
”سر سنیئے تو۔ آپ تو کچھ بتائیں۔ مناسب کردوں گا۔“
”نہیں شکریہ۔“
”اچھا چلیں تین سو پر ہیڈ ہوجائیں گے۔ آپ کیا کہتے ہیں۔ ؟“
لڑکی کی فرمائش تھی۔ لڑکے نے چلتے چلتے کتبے والے شریف حسین کی طرح کہہ دیا
”ہم تو سو روپیہ دیں گے دونوں کا۔“
شاید اس کے پاس بھی آج کوئی گاہک نہ آیا تھا اس نے اسی کو غنیمت جانا۔
”اچھا آ جائیے۔“
پہلے لڑکی نے ہاتھ دکھایا۔

اس نے موٹی سی عینک لگا کر خوب غور سے لڑکی کا ہاتھ دیکھنا شروع کیا۔ ساتھ ساتھ کچی پنسل سے ہاتھ کی لکیروں پر ہولے ہولے لکیریں مارتا رہا۔ اس سے لڑکی کو گدگدی ہوتی اور وہ ”ہی ہی ہی“ کرتی جاتی تھی۔ پھر تھوڑی دیر تاش کے پتوں کو بیٹھا پھینٹا کیا۔ پھر ایک کاغذ پر چند آڑی ترچھی لکیریں لگا کر ان میں کچھ ادق غیر معروف حروف لکھ دیے۔ جب وہ کاغذ ایک تعویذ کے مشابہ ہو گیا تو عینک اتار کر گہرا سانس لے کر منہ سے ایک طویل پھونک فضا میں ماری اور عینک کی ایک ٹانگ دانتوں میں داب کر لڑکی سے گویا ہوا۔

”آپ بچپن سے لڑکپن کے درمیان ایک بار شدید بیمار ہوئی تھیں۔ ؟ ایسی بیمار کہ کوئی دوا کام نہ کرتی تھی؟“

لڑکی نے فٹافٹ منہ پر ہاتھ رکھا
”ہائے اللہ!

میں مر گئی۔ ہاں ہاں۔ بالکل۔ مجھے یرقان ہوا تھا۔ جو کھاتی تھی فوراً الٹی آجاتی تھی۔ تب میرا تایا میرے لئے شربت بزوری لایا تھا۔ لیکن یہی دسمبر کا مہینہ تھا۔ میں نے وہ جو پیا تو میرا یرقان تو ٹھیک ہو گیا لیکن مجھے ڈبل نمونیا ہو گیا۔ میں مر مر کر بچی تھی۔ آپ کو کیسے پتا چلا؟ آپ تو بہت قابل ہیں سچی اور پتا ہے۔ ”

چار دن بعد موبائل ڈیٹا آن کرنے پر جس رفتار سے نوٹیفیکیشن آتے ہیں لڑکی اسی رفتار سے بولتی گئی۔

”بس جی یہ تو علم کی بات ہے۔ میں نے جہاں سے سیکھا ہے وہ کوئی عام آدمی نہ تھے۔ اب تک ڈیڑھ سو ملکوں میں کام کر چکا ہوں۔ “ پامسٹ کا حوصلہ بڑھا۔

”ہاتھ کی ہتھیلی کے بیچ میں پنسل کی نب سے ایک نقطہ سا لگاتے ہوئے بولا

”آپ کی ساس آپ سے بہت جھگڑا کرتی ہے۔ یہ جو مشتری ہے یہ ساتویں گھر میں داخل ہو رہا ہے۔ یہاں سے برج سنبلہ اور زحل کی جنگ شروع ہوتی ہے۔ ریکھا یہ بتا رہی ہے کہ زحل کا نحس سنبلہ کو شکست دے چکا۔ ساس نے جادو کرا دیا ہے۔ اور تعویذ بھی راکھ میں لپیٹ کر دفنا دیا ہے۔ اس کا اثر زائل کرنا ہے۔ اس کا توڑ کروانا ہو گا۔“

لڑکی نے لڑکے کی طرف پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھا۔
لڑکا اب تک بت بنا چپ چاپ کھڑا تھا۔
اب اس نے پوچھا
”توڑ کیسے ہو گا؟“
”وہ میں کردوں گا۔ عمل کروانا ہو گا۔ اس کے پانچ ہزار چارجز ہیں۔“

لڑکی اور لڑکے کو خدا جانے کیا ہوا کہ یک لخت دونوں پیٹ پکڑ کر ہنسنے لگے اور ہنس ہنس کر دوہرے ہو گئے۔ اتنا ہنسے کہ لڑکی کی آنکھوں سے پانی نکل آیا۔ سارا جنگل ان کے قہقہوں کی آواز سے گونج اٹھا۔ پامسٹ خفیف سا ہو کر ان کی اس غیر متوقع اور اچانک حرکت کو دیکھنے لگا اور تھوڑا بھینچ سا گیا۔

لڑکے نے دیوانہ وار ہنستے ہنستے جیب سے سو روپے کی لال پتی نکالی اور پامسٹ کے ہاتھ پر رکھ دی۔
”کیکککک۔ ککیا۔ کیا ہوا سر؟ میڈم؟ آپ لوگ؟“

”او بببھائی۔ او پامسٹ صیب! او ماڑا۔ ہاہاہاہاہاہا ہوہوووو ہاہاہاہاہاہا اوووففففف۔ ہماری شادی نہیں ہوئی یرا۔ اس کی برتھ ڈے ہے بھائی میرے۔ ہم ڈیٹ پر نکلے ہیں۔ خیر کوئی بات نہیں۔ ہاہاہاہاہاہاہاہا۔ ہاہاہا۔ ہا۔ وووہوہوہو۔ ہی ہی ہی۔ اوہ یارا اا اا ا۔ لڑکی پاگلوں کی طرح ہنستے ہنستے جواب دیتی ہوئی بائیک پر بیٹھ گئی۔

”اوہ مائی گاڈ۔ ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا اہا۔ شکر ہے تم نے نہیں دکھایا۔ تم صحیح کہہ رہے تھے یار۔“
بائیک سڑک پر دور نکل گئی۔ پامسٹ ہکا بکا بیٹھا تھا۔
کھانا کھا کر دونوں نے واپس اسی راہ سے جانے کی ٹھانی۔
جب اس مقام پر پہنچے تو پامسٹ جا چکا تھا۔ آج تک دوبارہ نظر نہیں آیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments