پری زاد: ایک خبطی کی تخلیق؟


زندگی تقریباً تمام بڑے فلاسفرز کی نظر میں اذیت کی حیثیت رکھتی ہے۔ میرے لحاظ سے زندگی مجموعی طور پر اپنے پھٹے ہوئے لباس کے ساتھ اب کھل کر ہمارے سامنے آ چکی ہے۔ ہمیں اس کا کیسے سامنا کرنا ہے یہ ابھی طے ہونا باقی ہے۔ مگر یہ طے ہو چکا ہے کہ اس کے پھٹے ہوئے لباس سے اخلاقی اور معاشرتی تعفن کو کیسے ڈھانپا جا سکتا ہے۔ یوٹوپین ادب، فینٹسی، سائنس فکشن اور دیگر ایسی تکنیک کا استعمال کر کے لکھاریوں نے اس معاشرے اور اس زندگی کو اپنے اور ہمارے لیے کسی حد تک قابل قبول تو بنایا ہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس معاشرے کے پھٹے ہوئے لباس کو بھی کسی حد تک ڈھانپنے کی کوشش کی ہے۔

جہاں تک ناول کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ناول نگار اس دنیا کا سے سب سے زیادہ خود غرض انسان ہوتا ہے۔ ایک لکھاری، ایک مصنف اور خاص طور پر فکشن نگار دو دنیاؤں میں رہنے والا شخص ہوتا ہے۔ وہ حقیقی دنیا کے ساتھ ساتھ ایک دوسری دنیا میں بھی رہتا ہے جہاں وہ اپنی مرضی کے کردار بن رہا ہوتا ہے، جہاں وہ معاشرے کی سطحی اخلاقیات سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ سو یہ کہنا بجا ہو گا کہ تخلیق کرنا اپنے اندر ایک بہت بڑا عمل تو ہے ہی مگر اپنے اندر ایک بہت بڑا فرار، انقلاب اور فینٹسی بھی ہے۔

”پری زاد“ ایک ناول نگار کی فینٹسی کا قصہ ہے۔ پری زاد سے میرا تعارف نویں کلاس میں ہوا تھا۔ تب کسی کے ہاتھ میں کوئی بھی فکشن دیکھ کر پہلی سوچ یہی ہوتی تھی کہ اس سے کسی طرح یہ کتاب لے کر ایک ہی نشست میں ختم کردوں۔ اس عمر میں وہ کتابیں بھی پہلی نشست میں ختم ہوئیں جو آج اگر پڑھنے بیٹھیں تو ان کا پہلا صفحہ بھی ہضم نہ ہو۔ پری زاد بھی اس زمانہ میں پہلی نشست میں ختم ہونے والا ناول تھا۔ فکشن کی میرے لحاظ سے ایک خوبی یہ بھی ہونی چاہیے کہ وہ آپ کو اپنے سحر میں مبتلا کردے، آپ کئی کئی دن اس کے مختلف کرداروں کو اپنے اندر محسوس کرو۔

پری زاد ایک مصنف کی محرومی کا قصہ ہے۔ مصنف کی محرومی دراصل معاشرے کی محرومی ہوتی ہے۔ معاشرہ انڈسٹریل دور کی دوڑ میں تھک چکا ہے۔ اس کا لباس جگہ جگہ سے پھٹ چکا ہے۔ معاشرے کو فرار چاہیے۔ پری زاد میں دکھائے گئے کردار وہ کردار ہیں جن کی ہم توقع کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ وہ کردار ہیں جو آئیڈیل ہیں۔ آئیڈیل چیزوں کی حقیقت نہیں ہوتی۔ یہ وہ کردار ہیں جو ہمارے اندر بیٹھے مفرور اور تھکے شخص کو تسلی دیتے ہیں۔ اور ہمیں آمادہ کرتے ہیں اور امید دیتے ہیں زندگی کی جانب۔

پری زاد آئیڈیل کرداروں کا مجموعہ ہے۔ کہانی کا ہیرو وہ شخص ہے جو ہم سب کہیں نہ کہیں بننا چاہتے ہیں۔ ہم سب کے اندر یہ خواہش زندگی کے کسی حصے میں بہت شدت کے ساتھ جاگزیں ہوتی ہے کہ ہمارے ہاتھ کوئی سونے کی چڑیا لگے اور ہم راتوں رات امیر ہو جائیں۔

ہم اندرونی طور پر جن چیزوں کی کمی کا شکار ہوتے ہیں وہ ہم بیرونی دنیا میں تلاش کرنے لگتے ہیں تاکہ ہمارے اندر کا خلا بھر جائے۔ ہم پھولوں، پودوں اور جانوروں کے ساتھ اس لیے بھی منسلک ہو جاتے ہیں کہ ہمیں نا دانستہ طور پر ان کے اندر وہ خوبیاں نظر آ رہی ہوتی ہیں جو ہم میں نہیں ہوتیں، وہ ہمارا اندرونی خلا بھر رہے ہوتے ہیں۔ پری زاد ڈرامہ زیادہ تر لوگوں کو اس لیے بھی پسند آ رہا ہے کہ یہ ان کے اندر کی خالی جگہوں کو پر کر رہا ہے۔

پری زاد میں معاشرے کے ایسے کرداروں پر روشنی ڈالی گئی ہے جن سے روزمرہ کی زندگی میں ہمارا واسطہ کم ہی پڑتا ہے۔ سو جن چیزوں سے واسطہ کم پڑتا ہے ہمیں ان کی اخلاقیات کا بھی زیادہ پتہ نہیں ہوتا۔ اس چیز سے ناول نگار نے بخوبی فائدہ اٹھایا ہے اور اس نے ان سے متعلق خود کردہ اخلاقیات پر مبنی کردار تشکیل دیے ہیں جو ظاہری بات ہے آئیڈیل ہیں۔

پری زاد محرومیوں کی انتہاؤں کو بنیاد بنا کر لکھا گیا ہے۔ فرار کے لیے ہمیں درمیانی یا معمولی کیفیت یا جذبے آزمودہ نہیں دکھائی دیتے۔ ہمیں فرار کے لیے انتہاؤں کو چھونا پڑتا ہے۔ ڈرامے میں ان محرومیوں کو دکھایا گیا ہے جن سے ہم خود بخود منسلک ہو جاتے ہیں اور انہیں مکمل کرنا اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔ جیسے پری زاد کردار کا گٹار کی خواہش کرنا اور اسے روزانہ دکان کے سامنے کھڑے ہو کر دیکھنا اپنے اندر ایک بہت بڑی محرومی ہے۔ اور اس کردار کو دیکھتے ہی ناظرین اپنے آپ کو اس کے ساتھ منسلک کر لیتے ہیں اور اندر ہی اندر یہ تہیہ کر لیتے ہیں کہ اسے کسی بھی صورت یہ گٹار ملنا چاہیے۔

ایسے ڈرامے کم ہی بنتے ہیں جن میں کسی عام آدمی کی محرومیوں کو مرکز بنا کر کہانی اس کے گرد گھمائی جائے۔ زیادہ تر ڈراموں میں ہمیں ایسا کلچر دیکھنے کو ملتا ہے جو اکثریت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہماری اکثریت محرومی، غربت، منافقت، جھوٹ، دھوکے بازی، مادہ پرستی، ہوس اور ظاہری حسن کا شکار ہے۔ سو ایک ایسا ڈرامہ جو اس طبقے کو بنیاد بنا کر لکھا جاتا ہے تو اس میں آئیڈیل دنیا اور فینٹسی کا ہونا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔

پری زاد میں کرداروں کے مختلف روپ نہیں دکھائے گئے ہیں۔ ہر کردار کا ایک ہی چہرہ دکھایا گیا ہے۔ وہ اگر اچھا ہے تو شروع سے لے کر آخر تک اچھا ہے۔ وہ اگر برا ہے تو آخر تک برا ہے۔ کرداروں کی پرتیں نہیں کھولی گئیں۔ ایسا کرنے سے کہانی میں فینٹسی کا عنصر زیادہ بڑھ جاتا ہے اور حقیقت کا کم۔

مختصر یہ کہ پری زاد میں ناول نگار نے اپنی اور معاشرے کو محرومیوں کو مدنظر رکھ کر ایک ”کنٹرولڈ ماحول“ میں کرداروں کو اپنی مرضی کے ساتھ کہانی کے مطابق چلنے پر مجبور کیا ہے۔ کرداروں کو ان کی مرضی کے مطابق چلنے کی اجازت ہر گز نہیں دی گئی۔ اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یہ کہنے میں بجا ہوں کہ یہ ڈرامہ ایک فینٹسی اور فرار کے سوا کچھ بھی نہیں۔ دیکھنے والے اسے دیکھ کر اپنی اپنی محرومیوں اور اپنے اندر کی خالی جگہوں کو پر کرنے میں کسی حد تک تو کامیاب ہوسکتے ہیں مگر اس سچ سے منہ نہیں پھیر سکتے کہ زندگی ایک اذیت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments