’رپھڑی‘


شوکت خاں عرف شوکے کی دوستی اصل میں شیر کی سواری ہے اور یہ شیر تو میں نے محاورتاً لکھ دیا ورنہ یہاں دیگر جنگلی جانور از قسم بھیڑیا، ریچھ وغیرہ بھی آسانی سے استعمال ہو سکتے ہیں بلکہ شاید زیادہ بہتر انداز میں مفہوم واضح کر سکتے ہیں۔ شوکے کا شمار ان ہستیوں میں ہوتا ہے جنہیں اپنی عزت کا خیال ہوتا ہے اور نہ دوسروں کی۔ دھول دھپا اور لڑائی مار کٹائی اس کا واحد پسندیدہ مشغلہ ہے گاؤں میں شاید ہی کوئی معقول آدمی ایسا بچا ہو جس کے ساتھ موصوف کی ہاتھا پائی نہ ہوئی ہو اور نا معقولوں کی تو بات کیا کریں ان کے ساتھ تو ڈانگ سوٹا روز کا معمول ہے۔

انہی خوبیوں کی بنا پر گاؤں والوں نے اس کے کئی نام رکھے ہوئے ہیں۔ ’رپھڑی۔ فتنہ۔ راندو۔ پھڈے باز‘ وغیرہ۔ اور ہر نام اک نگینے کی طرح اس پر فٹ بیٹھتا ہے۔ عجیب ’دبڑ دوش‘ اور بلڈوزر قسم کی طبیعت پائی ہے۔ موصوف علاقے میں ”سیریل پھینٹے باز“ مشہور ہیں۔ باقاعدہ ایک لسٹ بنا رکھی ہے جس میں ان حضرات کے نام درج ہوتے ہیں جنہیں پھینٹا لگانا مقصود ہوتا ہے۔ اس بلیک لسٹ میں حسب ضرورت کانٹ چھانٹ ہوتی رہتی ہے۔ یہ بات بھی نہیں تھی کہ لڑائی میں ہمیشہ شوکے کا ہی پلا بھاری رہتا ہے اور وہ ہر جگہ دوسروں کی پٹائی کرتا پھرتا ہے۔

چشم فلک نے لاتعداد ایسی لڑائیاں بھی دیکھی ہیں جس میں بڑے معمولی اور عام سے لوگوں نے نہایت مثالی انداز میں شوکت خاں کی ”دھلائی“ کی۔ کئی ایک موقعوں پر گٹے گوڈوں وغیرہ کی شدید مضروبی حالت کی بنا پر موصوف کو چارپائی وغیرہ پر لٹا کر گھر تک پہنچایا گیا۔ لیکن اس طرح کی معمولی چوٹیں اور چھوٹی موٹی ’بزتی‘ اسے اپنے ’عظیم‘ مقصد سے نہیں روک سکتیں اور اس کا یہ عظیم مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ اپنی اس فانی زندگی میں اپنے اور ساتھ والے پانچ سات گاؤں کے تمام لوگوں کی کم از کم ایک دفعہ پٹائی ضرور کی جائے۔

لوگوں کے ساتھ لڑائی کے لیے شوکے کو کسی معقول وجہ یا جواز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ بس اس کے ارادے پہ منحصر ہے اور وہ اس کا فی الفور فیصلہ کرتا ہے۔ اکثر اوقات وہ لڑائی کے بعد اس کا جواز وغیرہ ڈھونڈتا ہے۔ موصوف کی لڑائیوں کے قصے سنیں تو بچپن میں پڑھی بھیڑیے اور بھیڑ کے معصوم بچے کی کہانی یاد آ جاتی ہے۔ ندی کنارے بیٹھے چھوٹے سے میمے کو خوفناک بھیڑیا کہتا ہے کہ میں نے آج تمہیں کھانا ہے۔ بھیڑ کا کمزور سا بچہ ڈرتے ہوئے اس کی وجہ پوچھتا ہے تو بھیڑیا کہتا ہے کہ میں نے ندی کا پانی پینا ہے لیکن تم پانی گدلا کر رہے ہو۔

بچہ کہتا ہے کہ پانی تو آپ کی طرف سے آ رہا ہے۔ میں تو نچلی طرف بیٹھا ہوں۔ اس پر بھیڑیا کہتا ہے کہ تم نے پچھلے سال مجھے گالیاں نکالی تھیں آج میں نے اس کا بدلہ لینا ہے اس پر بچہ کہتا ہے کہ پچھلے سال تو میں پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس کے بعد بھیڑیا فضول باتوں میں وقت ضائع نہیں کرتا اور بھیڑ کے بچے کو کھا جاتا ہے۔ شوکے کی لڑائیوں کا بھی یہی عالم ہے۔ اکثر اوقات لڑائی کے بعد اسے یاد آتا ہے کہ یہ لڑائی تو اس نے بے وجہ لڑی ہے۔

تھانہ کچہری سمیت کریمنل جسٹس سسٹم کے ہر آرگن کے ساتھ اس کا اکثر واسطہ رہتا ہے۔ تھانہ حاضری تو روز کا معمول ہے۔ بعض اوقات تو وہ صبح صبح پولیس والوں سے پہلے ہی تھانے پہنچا ہوتا ہے۔ کئی دفعہ جیل یاترا کا موقعہ ملا۔ بلکہ اب تو اگر کچھ دن اس سے ملاقات یا فون پر بات نہ ہو تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ موصوف جیل میں ہوں گے۔ پھر کچھ عرصہ بعد جب ملاقات ہو تو اگر پوچھ لیں کہ جناب اتنا عرصہ کدھر غائب تھے تو وہ بڑی لاپرواہی سے بتا رہا ہوتا ہے کہ بس یار!

وہ ایک بندے کو فائر مارنا پڑ گیا تھا یا پھر انتہائی ایمرجنسی میں کسی کی ٹانگیں توڑنا پڑ گئیں تھیں جس کی وجہ سے دو ماہ جیل میں رہا اور ابھی ضمانت پہ نکلا ہوں۔ عزت شرم وغیرہ اس کے لیے اضافی چیزیں ہیں۔ وہ اگر چند لمحے کہیں خاموش بیٹھا ہو ( جو کہ بہت کم ہوتا ہے ) تو اس دوران بھی وہ پورے خلوص کے ساتھ اس بات پر غور کر رہا ہوتا ہے کہ اگر کسی ناسمجھ کی ٹانگیں اچانک اور انتہائی ایمرجنسی میں توڑنا پڑیں تو یہ کام عجلت میں کمال نفاست کے ساتھ کیسے انجام دیا جا سکتا ہے۔

شوکے کا والد سلامت خاں گاؤں کا شریف ترین آدمی ہے۔ حیرت کی بات تھی کہ باپ اور بیٹے کے مزاج میں بعد مشرقین واقع ہے۔ لڑنا تو دور کی بات ہے وہ کسی کے ساتھ اونچے لہجے میں بات بھی نہیں کرتا۔ گاؤں میں چھوٹی سی دکان اور چند ایکڑ زرعی زمین۔ سلامت خاں کا کل اثاثہ ہے۔ اب کچھ دنوں سے شوکے کی توپوں کا رخ اس کے اپنے گھر کی طرف ہوا ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ گھر کی دکان اور زمینوں کا انتظام اس کے حوالے کیا جائے۔ وہ تین چار بار پہلے بھی اپنا یہ مطالبہ بزور منوا چکا ہے اور ہر بار اپنی لا ابالی طبیعت کی بنا پر دکان اور زمینوں کے حساب کا ستیاناس کر کے چھوڑ دیتا ہے۔

آج کل اس کے ذہن پہ پھر یہی بھوت سوار ہے۔ سلامت خاں بیچارہ شدید پریشان ہے۔ ایک دن اس نے مجھ سے اس کا ذکر کیا۔ میں نے اسے تسلی دی اور کہا کہ قریبی گاؤں میں ایک بابا جی ہیں جو دم درود اور دعا کرتے ہیں۔ شوکا بھی ان کے پاس جاتا رہتا ہے۔ ہم ان کے پاس جائیں گے اور انہیں کہیں گے کہ وہ شوکے کو سمجھائیں اور اس کے لیے دعا کریں۔ چچا سلامت میری بات سن کر مطمئن ہو گیا۔

اگلی اتوار ہم اس مقصد کے لیے بابا جی کے آستانے پر پہنچے۔ بڑے دروازے کے اندر کی جانب کچھ ملنگ صورت حضرات ”دوری ڈنڈے“ میں کوئی مرکب گھوٹنے میں مصروف تھے۔ بابا جی اپنے حجرے میں مریدان خاص کے جھرمٹ میں براجمان تھے۔ سائلین و زائرین کا ایک ہجوم تھا۔ ہماری باری کافی دیر بعد آئی۔ اس دوران ایک دو نمازوں کے اوقات بھی گزر گئے لیکن بابا جی اسی جگہ اسی حالت میں موجود رہے۔ ہماری باری آئی تو سلامت خاں نے شوکے خاں کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کے موجودہ مطالبے اور مذموم عزائم کے بارے میں آگاہ کیا۔

اور کھل کر بتایا کہ وہ گھر کے سارے انتظام پر اپنا کنٹرول چاہتا ہے جبکہ وہ اس کے بالکل قابل نہیں ہے۔ مہربانی فرما کر اسے سمجھایا جائے اور اس کے لیے دعا کی جائے۔ اس دوران بابا جی ایک خاص کیفیت میں آنکھیں بند کیے بالکل خاموش بیٹھے رہے۔ بابا جی شوکے خاں کو جانتے تھے۔ پوری بات سننے کے بعد انہوں نے ایک لمحے کو آنکھیں کھولیں۔ شہادت کی انگلی کو اوپر اٹھایا اور پھر آنکھیں بند کرتے ہوئے دوبارہ اسی ساکت کیفیت میں چلے گئے۔

ہم کچھ نہ سمجھ سکے تو مریدان خاص نے بابا جی کے اشارے کی وضاحت کرتے ہوئے سرگوشی میں بتایا کہ بابا جی کہہ رہے ہیں کہ شوکے کو گھر کا انتظام سنبھالنے کا ایک اور موقعہ دیا جائے۔ اس پر چاچا سلامت نے دوبارہ وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ شوکے نے یہ انتظام تین چار دفعہ پہلے بھی سنبھالا ہے اور ہر دفعہ ایسی تباہی پھیلائی ہے کہ ہم وہ کانٹے ابھی بھی چن رہے ہیں۔ چاچا ابھی بات کر رہا تھا کہ بابا جی کے چہرے پہ ہلکی سی ناگواری کے تاثرات آئے۔ اس پر مریدوں نے فوراً اپنے منہ پر انگلی رکھ کر ہمیں خاموش رہنے اور باہر جانے کا اشارہ کیا۔ ہم باہر نکلے تو شوکا دروازے پہ کھڑا ہنس رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments