پاکستان کی معیشت: کچھ غیرملکی رپورٹیں


اس بات کو کس طرح چھپایا جا سکتا ہے کہ اس وقت وطن عزیز میں بے چینی عروج پر ہے۔ آج ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی، بیروزگاری اور عدم مساوات ہے؟ لکھنے والا ان مسائل کی نشاندہی اور محرومیوں کے ازالے کی دہائی دینے سے کس طرح باز رہ سکتا ہے؟ لکھاری کا بنیادی کام سماج کی ترجمانی ہے جب ہر طرف غربت اور بیروزگاری نظر آئے گی تو لکھنے والا یہی قصے لکھے گا۔ ہم ایسوں کی بات رد کرنا آسان ہے کیونکہ ہم پر حکومت اور اداروں کی مخالفت کا لیبل چسپاں ہو چکا ہے اس لیے آج کچھ عالمی اداروں کی رپورٹس شیئر کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں عدم مساوات اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ 19۔ 2018 میں ملک کے ایک فیصد امیر ترین افراد ملکی آمدن کے 9 فیصد کے مالک تھے، اب امیر ترین 20 فیصد پاکستانی قومی آمدن کے 49 اعشاریہ 60 فیصد کے مالک ہیں جبکہ غریب ترین 20 فیصد لوگ قومی آمدن میں محض 7 فیصد کے مالک ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہیومن ڈیولپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کے ذیلی ادارے نیشنل ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ (این ایچ ڈی آر) کی اس رپورٹ میں جنوبی ایشیائی ملکوں میں عدم مساوات کے مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جس کے مطابق پاکستان کا طبقہ اشرافیہ 14 ارب 40 کروڑ ڈالر کی مراعات لے چکا ہے۔

اسی طرح یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2018 میں پاکستان کی آبادی کی 31.3 فیصد تعداد یعنی تقریباً سات کروڑ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے رہ رہی تھی اور 2020 میں یہ تعداد بڑھ کر 40 فیصد یعنی آٹھ کروڑ 70 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ اسی طرح ایک اور رپورٹ کے مطابق پچھلے تین سال میں مسلسل بڑھتی افراط زر کی شرح کے سبب نچلے متوسط اور غریب طبقے کے لوگ اپنی آمدن کا 70 سے 80 فیصد حصہ خوراک پر خرچ کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ آخر میں برطانوی جریدے اکانومسٹ کی رپورٹ بھی سن لیں جس کے مطابق پاکستان اس وقت دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک ہے۔ مہنگائی کے ساتھ اس وقت بیروزگاری کا گراف بھی آسمان چھو رہا ہے اور خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سال میں تین سے چار کروڑ افراد بیروزگار ہو چکے ہیں۔

کچھ دوست اب بھی کہتے ہیں پچھلی حکومتوں میں کون سی دودھ شہد کی نہریں اس دیس میں بہہ رہی تھیں۔ یہ بات کسی حد تک درست ہوگی مگر کوئی دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے اس طرح کی بدترین انارکی اور نظام پر عوامی عدم اعتماد کی کیفیت پہلے کسی نے کبھی دیکھی یا سنی؟ اس ملک نے نام نہاد جمہوری ادوار بھی دیکھے اور آمرانہ حکومتیں بھی یہاں دس دس سال موجود رہیں معاشی طور پر مگر جتنی بری کارکردگی اس حکومت کی ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

جتنا سازگار اور پر سکون ماحول موجودہ حکومت کو ملا اب اس کے پاس اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے؟ ماضی میں ہر حکومت کی راہ میں حزب اختلاف روڑے اٹکاتی رہی، اداروں کی آپسی چپقلش، کھینچا تانی اور مداخلت کا بھی ہر حکومت کو سامنا رہا۔ یہ واحد دور ہے جس میں تمام ادارے حکومت کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہیں اور حزب اختلاف بھی چوں تک نہیں کر رہی۔ موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ پر آمرانہ ادوار سے بھی زیادہ قدغنیں ہیں اور میڈیا حکومتی اسکینڈلز اور بری کارکردگی سے نظریں چرا رہا ہے پھر بھی شکایت ختم نہیں ہوتی۔

چلیں اب بھی وزیراعظم صاحب کی بات مان لیتے ہیں کہ کارکردگی جانچنے کو تین سال کافی نہیں۔ ان کے فرمان پر ایمان لاکر دل کو تسلی دے لیتے ہیں کہ ہتھیلی پر سرسوں نہیں جما کرتا اور حکومت کو کوئی جادو کی چھڑی دستیاب نہیں تھی جسے وہ گھماتے اور ہمارے پون صدی سے الجھے گمبھیر مسائل سلجھ جاتے۔ اس سے مگر کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ پچھلے تین سالوں میں مہنگائی بیروزگاری اور عدم مساوات میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ شروع میں حکومت اپنی نا اہلی کا ملبہ گزشتہ حکومتوں پر ڈالتی رہی اس کے بعد انہیں کورونا کا بہانہ مل گیا اور اب عالمی مہنگائی کی آڑ لی جا رہی ہے۔

یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ پچھلی حکومتیں معیشت کی جو حالت کر گئیں اور جتنے مسائل چھوڑ کر گئیں اس کے بعد جلد بہتری کی امید نہیں تھی۔ سوال لیکن یہ پیدا ہوتا ہے کہ مہنگائی بیروزگاری اور عدم مساوات کی شرح مگر کم نہ ہوتی تین سال میں کم از کم پرانی سطح پر برقرار تو رہ سکتی تھی۔ عام آدمی کی زندگی سب سے زیادہ اشیائے خور و نوش کی گرانی سے اجیرن ہوئی ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ آٹے و چینی جیسی اشیاء کے نرخ میں اضافے کا عالمی سطح پر بڑھنے والی مہنگائی سے کیا تعلق ہے؟

پچھلے سال حکومتی وزیر مشیر ڈھنڈورا پیٹتے رہے گندم کی ریکارڈ فصل ہوئی ہے اس کے باوجود آٹے کے نرخ قابو سے باہر ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ گندم اسمگل ہو رہی ہے۔ جب سے یہ حکومت آئی ہے ہر سال گندم کی بوائی سے قبل کابینہ میں اس کی امدادی قیمت میں اضافے کی سمری پیش ہو رہی ہے لیکن کابینہ کے ارکان اپنے سیاسی و کاروباری مفادات کی خاطر اس کی منظوری نہیں دیتے۔ کسان کو اس کی فصل کی مناسب قیمت نہیں ملتی تو وہ گندم کی پیداوار بڑھانے کی کوشش نہیں کرتا اور اسمگلنگ کی بھی یہی بڑی وجہ ہے۔ جب اپنی گندم اسمگل ہو جاتی ہے تو بھاری زر مبادلہ خرچ کر کے دگنے نرخ پر امپورٹ کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے روپے کی قیمت پر دباؤ آتا ہے اور عوام کو دہرا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ حکومتی نا اہلی نالائقی اور کرپشن حالیہ خرابی کی وجہ تو ہیں لیکن ملکی معیشت مستقل تباہی کی چند اور بنیادی وجوہات بھی ہیں۔

خراب معاشی حالت کا سبب بننے والی ان بنیادی وجوہات کی نشاندہی کی جائے تو چوروں، لٹیروں اور غداروں کی وکالت کا طعنہ ملتا ہے۔ گزشتہ دنوں جی بی کے چیف جج کا جس طرح اچانک ضمیر جاگا ہے اس عمل سے نظام عدل کی توقیر میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر لگنے والا الزام سچ ہے یا جھوٹ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دونوں صورتوں میں عدلیہ کی ساکھ مزید متاثر ہوگی۔ کوئی بھی محب وطن اور با شعور شہری کسی کرپٹ آدمی کا دفاع اور کرپشن کے خلاف کارروائی کی مخالفت کس طرح کر سکتا ہے؟

نواز شریف کے خلاف مگر جس انداز میں کارروائی ہو رہی تھی ہم دہائی اس لیے دے رہے تھے اس سے نہ صرف ریاستی ادارے بے توقیر ہوں گے بلکہ نظام سے عوام کا اعتماد ہی اٹھ جائے گا۔ گزشتہ روز حکومت کے ایک ماتحت حتمی فیصلہ ساز ادارے نے جس طرح بندے اکٹھے کر کے انڈین جاسوس کلبھوشن یادیو کے حق میں اور اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے کنٹرول میں دینے کے قانون عجلت میں منظور کرائے اس سے پارلیمنٹ کی توقیر میں کتنا اضافہ ہو گا۔

ملک جن مشکلات کا شکار ہے اس سے نکلنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کا قومی ایجنڈے پر متفق ہونا ضروری ہے۔ اسے حالات کا جبر کہیں یا کچھ اور حزب اختلاف ہر معاملے میں تعاون پر مکمل آمادہ ہے لیکن حکومت اور دیگر فیصلہ ساز قوتیں اپنے فیصلے مسلط کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہیں۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ زبردستی بنائے گئے قانون کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کی جیت کو دوسرے مان لیں گے۔ ایک منصوبے پر اتفاق رائے ہی نہیں تو اس پر اربوں روپے کے اخراجات کر کے انتشار کا ماحول پیدا کرنا کس طرح ملکی مفاد میں ہو سکتا ہے۔ آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments