پیاسے سندھو کی فریاد


دنیا کی قدیمی تہذیبوں نے دریاوٴں سے جنم لیا ہے۔ ان قدیمی تہذیبوں میں اک سندھو تہذیب بھی ہے۔ جس نے دنیا کو مہذب ہونا سکھایا جس کی واضح مثال موہن جو دڑو ہے۔ جس کو مکمل تہذیبی یافتہ شہر کہا جا سکتا ہے۔ وہ تہذیب بھی اسی سندھو کے کنارے سے شاد و آباد ہوئی۔ وہ دریا جو مکمل اک ضابطہ حیات رہا اور صدیوں سے اپنے بچوں کو سیراب کرتا رہا ہے۔ آج وہ پیاسا ہو کر رو رہا ہے۔ اس کے سینے میں بھی کئی غم اور فریادیں ہیں

اچھا آج آئے ہو دیکھنے۔ چلو فرصت ملی ہے آپ کو وہ بھی اس وقت جب میں پیاسا ہوں اور میرے بچے بھی مر رہیں ہیں

میری طرف سے یقیناً یہی جواب ہوتا کہ میں مشغول رہا کچھ اپنی زندگی میں۔ وقت نکال نہیں پایا۔ میں معذرت خواہ اور شرمندہ ہوں۔

اسکے خشک ہونٹ ہلے اور پھر فریاد کرتا رہا خشکی کی وجہ سے آنسو بھی نہیں تھے۔ میں کب سے اپنے وجود کے لیے چیکھ رہاں ہو ساتھ میں اپنے ان بچوں کے لیے بھی جو شاید بھول گئے ہیں۔ سنو برسوں سے مجھے پیاسا رکھا گیا ہے

مجھے پچھلی کئی دہائیوں سے تنگ کیا گیا ہے اتنا تنگ کہ راستہ بھی بھول چکا ہوں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے مجھ پر بڑے ظلم کیے گئے ہیں۔ ساٹہ کی دہائی میں اک معاہدے کے تحت میرا خون کسی کو بیچ دیا گیا وہ بھی میری مرضی کے بغیر۔ اس پے احتجاج و فریاد کرتا رہا مگر کچھ نہیں بنا۔

اسکے بعد مسلسل مجھ پے حملے ہوتے رہے میں مقابلہ کرتا رہا اپنے بچوں کے ساتھ۔ میرا سینہ چیر کر مجھ سے غیر اخلاقی کینال نکالے گئے وہ غیر اخلاقی و غیر انسانی تھے کیونکہ وہ میرے بچوں کو تباہ کرنے کے لیے نکالے گئے تھے۔ برسوں سے میری کوکھ کو پیاسا رکھا گیا اور میرے بچے مارے گئے۔

برسوں قبل میرے بچے جن کے لیے میں اک پاکیزہ رشتہ اور ضابطہ حیات ہوں وہ نکل کر میرے لیے فریاد کرتے تھے مگر وہ آواز بھی خاموش ہو گئی ہے

میری سندھ دھرتی کی زمینیں جو سرسبز میری کوکھ سے ہوتی تھے آج وہ بنجر ہو گئی ہیں۔ میرے گاوٴں جو ہرے بھرے تھے اجڑ گئے ہیں۔ اوپر سے یہ ظلم کے میرے سینے پے ڈیم بنائے گئے تھے اور بنائے جا رہیں ہے جو میرے سینے کو چیرتے بھی ہیں تو کوکھ بھی خالی کرتے ہیں غالباً میرے بچوں کو مارتے بھی ہیں

میرے بچوں کی حالت چاہے جوہی، قمبر شھداد کوٹ یا بدین ہو وہ اب مجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔ میری آنکھوں میں آنسو وہ بھی خشک ہوتے ہیں

افسوس صد افسوس کے مجھے پیاسا رکھنے کی وجہ سے سمندر بھی ملک ریاض کی طرح میری زمین کھا رہا ہے

ہر جگہ اور ہر موڑ پے روتا اور لڑتا رہا تاکہ میرے بچے نہ مارے جائے، زمین بنجر نہ ہو اور میرے گاوٴں ویران نہ ہو۔ اب ان کو دیکھتا ہوں تو دل پھٹ جاتا ہے گردن جھکا کر یاد ماضی میں گم ہوجاتا ہوں جب میرے بچے میرے کناروں پے آباد ہوا کرتے تھے اور میں اپنے پیٹ سے ان کو کھلاتا تھا۔ میری زمین سرسبز اور گاوٴں شاد ہوتے تھے مگر افسوس آج نہیں

اب مجھے بھی مچھلی بازار سے لانی پڑتی ہے جو میں اپنا پیٹ چاک کر کے دیتی تھی۔ آج کی نسل نے تو مجھے بھول ہی دیا ہے کہ میں بھی کوئی جینپے کی وجہ ہوں۔ انھوں نے میری عزت بھی نہیں کی۔

اب خود میں اپنی جنگ لڑ رہا ہوں اپنے اور اپنی قوم کے وجود کی بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments