دنیا دار کمینے


مزار اقبال پر حاضری کے دوران ایک عجیب منظر دیکھا، جو دیکھنے والوں کے لیے نظر کا دھوکا مگر سمجھنے والوں کے لئے سچائی پر مبنی ایک داستان تھا۔ پر رونق شہر کے مرد و زن مزار اقبال پر حاضری کی تمنا دل میں اور مزار کی زیارت کی خواہش چہروں پر سجائے خراماں خراماں مزار کی جانب رواں دواں تھے۔ مزار کا احاطہ قریب آیا تو ادب کے لباس میں ملبوس ہو کر، جوتیاں اتار کر مزار اقبال کے اندر حاضر ہونے اور فاتحہ خوانی کی خاطر آگے بڑھے تو عجیب منظر دیکھ کر حیران و پریشان ہو کر ایسے کھڑے ہو گئے جیسے بجلی کا بل دیکھ کر غریب آدمی۔

مزار کے اندر لوگوں کا جم غفیر تھا، وہ سفید لباس میں ملبوس، ہاتھوں میں سبز جھنڈے بلند کیے نعرے لگا رہے تھے۔ ہر منٹ بعد نعرے کی صدا بجلی کی کڑک کی مانند بلند ہوتی اور پھر سکوت۔ نئے آنے والے لوگ اس انتظار میں کھڑے ہو گئے کہ کچھ لمحات بعد ان لوگوں، جو پہلے سے ہی مزار کے اندر موجود ہیں، کی حاضری مکمل ہو جائے گی، تو ہم داخل ہو کر اقبال سے اپنی عقیدت کا اظہار انسانیت کے درجے میں رہتے ہوئے کریں گے۔ نعرے بار بار لگائے جا رہے تھے، آواز بلند ہو کر مدھم اور پھر بلند ہوتی رہی۔

لوگ مزار کے اندر جانے کی خواہش کو دل میں دبائے احاطہ میں خاموش کھڑے محو انتظار رہے، مگر ان کی حالت صرف وہ آدمی ہی سمجھ سکتا ہے جو شدید پیاسا ہو اور دریا اس کے سامنے اور پانی پینے سے روک لیا جائے۔ مزار کے اندر والے لوگ باہر نکلنے کا نام تک نہیں لے رہے تھے اور غضب تو یہ تھا کہ سفید لباس میں ملبوس، ہاتھ میں سبز جھنڈا اٹھائے جو بھی آتا، سیدھا اندر داخل ہو کر نعرے بازی میں حصہ دار ٹھہرتا۔ ہر نعرے کے ساتھ مزار کے احاطہ میں کھڑے لوگوں کے خون کی گردش میں غصہ کی بدولت تلاطم پیدا ہو جاتا مگر وہ اپنے آپ پر قابو پا لیتے۔

آخرکار ان لوگوں نے جو باہر احاطہ میں کھڑے تھے ایک شخص کو اندر بھیجا اور کہا کہ وہ اندر جاکر ان لوگوں کو یہ بتائے کہ باہر کچھ لوگ کھڑے ہیں، جن کے ہمراہ لڑکیاں بھی ہیں اور مرزا میں حاضری کے خواہشمند ہیں، برائے مہربانی ان کو اندر آنے کی اجازت دی جائے۔ وہ شخص ہمت کر کے مزار کے اندر داخل ہوا اور انہیں کہا کہ ”ہم مزار کے اندر حاضری کے خواہشمند ہیں اور ہمارے ساتھ لڑکیاں بھی شامل ہیں، آپ برائے مہربانی پانچ منٹ ہمیں بھی موقع دیں کہ ہم اقبال کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کر سکیں۔

“ الفاظ ختم ہوئے تو ایک معمر آدمی غصہ سے گرجا، ”ایتھے بیبیاں دا کی کم اے“ اور اپنی جماعت کو حکم صادر فرمایا، ”نعرے بازی جاری رکھو!“ ۔ نعرے بلند ہونا شروع ہوئے، شروع کیا ہوئے ایک طوفان سا برپا ہو گیا۔ چند لوگوں نے مزار سے باہر آ کر، ٹھیک ان لوگوں کے سامنے جو مزار اقبال کے اندر داخل ہونے کی اجازت کے خواہاں تھے، نعرے بازی شروع کردی۔ یہ نعرے بازی تو نہ تھی مگر طعنہ زنی۔ ایک ایک نعرے کے ساتھ جذبات مشتعل ہو جاتے اور نعرے بازوں کو قتل کرنے کی خواہش کی چنگاری بھڑک اٹھتی ہے مگر شرافت مانع آتی۔ آخر ان لوگوں نے باہر سے ہی فاتحہ خوانی کی اور مزار اقبال کے اندر حاضری کی خواہش دل میں دبائے واپس چل دیے۔ آپ سب سوچ ہی رہے ہو گئے کہ، ایسا کیا نعرہ تھا جو غصہ، اور خون کی گردش میں تلاطم کا باعث بن جاتا تھا؟ نعرہ تھا، ”قدر نبی ﷺ دا اے کی جانن دنیا دار کمینے! ، دنیا دار کمینے!“ ، کمینے!

علی حسن اویس

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی حسن اویس

علی حسن اُویس جی سی یونی ورسٹی، لاہور میں اُردو ادب کے طالب علم ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے۔ مزاح نگاری، مضمون نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ تحقیقی آرٹیکل بھی لکھتے ہیں۔

ali-hassan-awais has 66 posts and counting.See all posts by ali-hassan-awais

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments