ورلڈ ٹوائلٹ ڈے: اوکھل بابو کا طنزیہ خط جس نے عام آدمی کو ٹرین میں ٹوئلٹ کی سہولت دلائی

وقار مصطفیٰ - صحافی و محقق، لاہور


یہ سنہ 1909 کا موسمِ گرما تھا۔ برطانوی ہندوستان میں ریل کو چلتے 54 برس ہوچکے تھے۔ ریل کا نظام بنگال، آسام، آندھرا پردیش، گجرات اور راجستھان تک پھیل چکا تھا۔ اوکھل بابو کہلانے والے مغربی بنگال کے اوکھل چندر سین دھوتی کُرتا پہنے دیگر ہم وطنوں کی طرح ریل کے بھیڑ بھرے تیسرے درجے کے ڈبے میں سفر کر رہے تھے۔

یہ تیسرا درجہ بھی کیا عجب درجہ تھا۔

رضا علی عابدی اپنی کتاب ریل کہانی میں لکھتے ہیں کہ تیسرے درجے کے مسافروں پر عرصے تک ایک ظلم یہ ڈھایا گیا کہ ان کے ڈبوں میں بیت الخلا تک نہیں ہوتے تھے۔ لیکن مہاتما کے نام سے مشہور ہندوستان کے سرکردہ رہنما موہن داس کرم چند گاندھی پھر بھی تیسرے درجے ہی میں سفر کیا کرتے تھے۔

رضا علی عابدی اپنی کتاب میں گاندھی کا کہا یوں بیان کرتے ہیں ’میں ایسے مسافروں کو جانتا ہوں جو سفر کے دنوں میں کھانا پینا ترک کردیتے ہیں، صرف اس لیے کہ انسان کے ایک بنیادی حق پر پڑے ہوئے تالے سد راہ نہ بن جائیں۔‘

انڈیا میں مسافر ٹرین

انڈیا میں رش کی وجہ سے مسافر ٹرین کے ٹوائلٹ میں کھڑے سفر کر رہے ہیں

رضا علی عابدی لکھتے ہیں کہ پائے خانہ اس عہد میں نہ انٹر میں تھا نہ تیسرے درجے میں۔ اس معاملۂ خاص میں ان درجوں مسافروں کی بابت محکمہ ریلوے کا غالباً یہ خیال تھا کہ وہ ملکوتی (فرشتوں جیسی) صفات رکھتے ہیں۔ انسان صرف پہلے اور دوسرے درجے کے مسافر ہیں جن کی ضرورت کے لیے ہر درجے میں غسل خانہ موجود تھا۔

رضا علی عابدی نے تیسرے درجے کے مسافروں کے اضطراب کا احوال یوں لکھا ہے: ’گاڑی کہیں رُکتی تو پریشان حال مسافر کنارے بیٹھ کر یا سٹیشن کے بیت الخلا میں جا کر فراغت پاتے تھے۔ اس وقت ٹرین کے دروازے باہر کی طرف کھلتے تھے۔ غالباً مضطرب مسافر چلتی گاڑی میں اپنا آدھا دھڑ باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہوں گے اور اس طرح دس نئے مسئلے پیدا ہوتے ہوں گے۔ چنانچہ ریلوے کے حکام نے ایک بڑا غضب کیا اور ٹرین کے دروازوں میں تالے ڈال دیے۔ یہ تالے صرف سٹیشنوں پر ہی کھولے جاتے تھے اور پھر جو منظر ہوتا ہوگا اسے تصور تو کیا جاسکتا ہے، بیان کرنا مشکل ہے۔‘

اب اوکھل بابو نے کھا رکھے تھے فائبر سے بھرپور کٹھل نامی پھل اور وہ بھی کافی مقدار میں۔ ضبط دشوار ہوا جاتا تھا کہ اتنے میں ریل گاڑی احمد پور کے سٹیشن پر رُکی۔

بھاگے بیت الخلا کی جانب مگر ابھی فراغت نہ ہو پائی تھی کہ تنبیہی سیٹی کے بعد گاڑی چل دی۔ یہ لشٹم پشٹم بھاگے مگر ٹرین چھوٹ چکی تھی۔ ان پر جو بیتی اس کی شکایت خط کے ذریعہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں یوں کی:

(چونکہ مقصد ہنسی اُڑانا نہیں اس لیے خط کا سنجیدہ مفہوم پیش ہے)

تاریخ: 02 – 07 – 1909

ڈویژنل ریلوے آفیسر،

صاحب گنج، موجودہ جھاڑکھنڈ میں (احمد پور ریلوے سٹیشن جس کے تحت تھا)

محترم جناب،

میں احمد پور سٹیشن پر ٹرین سے پہنچا۔ اس وقت میرا پیٹ بہت زیادہ کٹھل کھانے سے پھول رہا تھا۔ اس لیے میں رفع حاجت کے لیے بیت الخلا گیا۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں فارغ ہو پاتا، گارڈ نے ٹرین روانگی کے لیے سیٹی بجا دی۔ میں ایک ہاتھ میں ’لوٹا‘ اور دوسرے میں ’دھوتی‘ لے کر بھاگا۔ ایسا کرتے ہوئے میں نیچے گر گیا اور یوں میری شرم گاہ کھل گئی جس سے پلیٹ فارم پر موجود مردوں اور عورتوں کو صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔

میں ٹرین پر نہ چڑھ سکا اور احمد پور سٹیشن پر ہی رہ گیا۔ یہ واقعی بہت بُری بات ہے۔ اگر مسافر رفع حاجت کے لیے جائیں تو گارڈ کو ان کے لیے چند منٹ تو انتظار کرنا چاہیے۔ اس لیے میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ سفر کرنے والے عوام کی خاطر اس گارڈ کو بڑے جرمانے کی سزا دیں۔ ورنہ میں اخبارات کو تفصیلی رپورٹ لکھوں گا۔

آپ کا وفادار خادم،

اوکھل چندرسین

بیبیک ڈبرائے کی کتاب ‘انڈین ریلویز: دی ویونگ آف اے نیشنل ٹیپسٹری’ میں فروغ پاتی ریل کی آزمائشوں اور مصیبتوں کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ابتدائی مسافروں کو اپنی موم بتیاں اور تیل کے لیمپ اٹھانا پڑتے تھے۔ بیت الخلا مبینہ طور پر بیسویں صدی کے اوائل میں متعارف کرائے گئے جب ایک مسافر، اوکھل چندر سین نے کٹھل کی زیادہ مقدار کھا لی تھی اور وہ رفع حاجت کے لیے ایک سٹیشن پر اُترے کیونکہ ٹرین میں یہ سہولت نہیں تھی اور وہ پلیٹ فارم پر پیچھے رہ گئے۔

یہ بھی پڑھیے

اپنے گھر کے باغ میں بیٹھے شخص پر طیارے نے انسانی فضلہ کیوں گرایا؟

ٹوائلٹ میں اپنی ’پوزیشن‘ کا خیال رکھیں

ٹوائلٹ کی بدبو کم کرنے والی کوٹنگ ایجاد

ٹرین کا سفر: ’بہو، ٹوائلٹ اور مائنڈ دا گیپ‘

اوکھل چندر سین کے شکایتی خط نے ریل کے سفر کے دوران بیت الخلا کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے مسافروں کی تکلیف کی طرف توجہ مبذول کروائی۔ تب بنگال کی تقسیم کے خلاف ملک گیر مظاہرے، بشمول سودیشی تحریک، زوروں پر تھے۔

ہندوستانی ریلوے کی تاریخ کی ایک اہم دستاویز، اسی خط کی ہاتھ سے پینٹ شدہ نقل نئی دہلی کے نیشنل ریل میوزیم، چانکیا پوری میں نمائش کے لیے رکھی گئی ہے۔

اس بظاہر بے ضرر خط کے بعد برطانوی راج کی طرف سے تحقیقات کا آغاز ہوا۔ گارڈ کو سزا یا جرمانے کی تو کوئی خبر نہیں۔ البتہ اس خط کے نتیجے میں ریل میں نچلے درجے کے ڈبوں میں بھی بیت الخلا کی تنصیب شروع ہوگئی۔

جی رگھورام نے 2008 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’ٹائلیٹس اینڈ ٹرینز‘ میں لکھا ہے کہ: ’2 جولائی 1909 کو ایک مشتعل بابو، اوکھل چندر سین نے شکایت درج کروائی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے بعد ریلوے حکام نے 50 میل سے زیادہ چلنے والی ٹرینوں میں تمام نچلے درجوں میں بیت الخلا متعارف کرائے۔‘

تاہم، ایک طویل عرصے تک نچلے طبقہ کے بیت الخلا میں نہ بلب تھا اور نہ ہی بہتا ہوا پانی۔

اور رضا علی عابدی لکھتے ہیں کہ نارتھ ویسٹرن ریلوے نے تو ابھی آزادی سے چھ سال پہلے یہ سہولت فراہم کی (نارتھ ویسٹرن ریلوے کا بڑا حصہ پاکستان ریلوے بنا اور چھوٹا حصہ ایسٹرن پنجاب ریلوے بن گیا)۔

بہرحال، عوام کی بڑی تعداد ٹوائلٹ کی سہولت سے اب بھی محروم ہے۔

عالمی سطح پر 3.6 ارب لوگ محفوظ طریقے سے صفائی کی خدمات تک رسائی سے محروم ہیں۔ دنیا کی تقریباً آٹھ فیصد آبادی کھلے میں رفع حاجت کرتی ہے۔

بہتر صفائی ستھرائی سے بیماریوں کا بوجھ کم ہوتا ہے، بہتر غذائیت، سٹنٹنگ میں کمی، معیار زندگی میں بہتری، سکول میں لڑکیوں کی حاضری میں اضافہ، صحت مند زندگی کا ماحول، بہتر ماحولیاتی انتظام، روزگار کے مواقع اور اجرت میں اضافہ دیگر معاشی اور سماجی فوائد ہیں۔

عالمی بینک کے مطابق صفائی کی کمی اقتصادی ترقی کو روکتی ہے۔ کچھ ممالک میں ناقص صفائی ستھرائی پر اربوں لاگت آتی ہے، جو بنگلہ دیش میں جی ڈی پی کے 6.3 فیصد، انڈیا میں جی ڈی پی کے 6.4 فیصد اور پاکستان میں جی ڈی پی کے 3.9 فیصد کے برابر ہے۔ معاشی نقصانات بنیادی طور پر قبل از وقت اموات اور صحت کی دیکھ بھال کی لاگت میں اضافے اور پیداواری صلاحیت میں کمی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

آٹھ کروڑ پاکستانی مناسب ٹائلٹ کی سہولت سے محروم ہیں

صحت اور صفائی ستھرائی کی مہم چلانے والی تنظیم سلمان صوفی فاؤنڈیشن نے ’سیف باتھ پروجیکٹ‘ کے نام سے ایک مہم ڈیزائن کی ہے جس میں عوام کو صاف ستھرے بیت الخلا کی سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس تنظیم کے سربراہ سلمان صوفی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کھلے میں رفع حاجت کرنے والوں کی تعداد دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ ’یہاں کم و بیش آٹھ کروڑ پاکستانی اب بھی مناسب ٹوائلٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔‘

انڈیا میں مسافر ٹرین

آج کے انڈیا میں ملک کے طول و عرض کو جوڑنے کے لیے ٹرینوں کا ایک وسیع نیٹورک ہے

مناسب ٹوائلٹ سے کیا مراد ہے؟

سلمان صوفی کے مطابق ایک پبلک ٹوائلٹ کا معیار تین امور پر منحصر ہے۔ ایک یہ کہ اس میں مرد، عورت، ٹرانس جینڈر اور خصوصی افراد کے لیے سہولت موجود ہو۔

اس میں مسلسل صفائی ہوتی ہو کیوںکہ پبلک ٹوائلٹ گندے رہیں تو وہ ناقابل استعمال ہو جاتے ہیں اور ایسا اکثر مقامات پر ہوتا ہے۔ صفائی اور جراثیم کے خاتمہ کے لیے اہتمام ہو تاکہ پبلک ٹوائلٹ بیماریوں کی آماجگاہ نہ بنے۔ ساتھ ہی ساتھ اس کا سیور یا سیپٹک ٹینک کے ساتھ جڑنا بہت ضروری ہے تاکہ فضلہ وہاں پر اکٹھا نہ ہو۔

صوفی کہتے ہیں کہ پبلک ٹوائلٹ نہ ہونے سے باہر کام کرنے والے افراد کھلے میں رفع حاجت پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ان کی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ قریب رہنے یا گزرنے والوں پر بھی اثر پڑتا ہے، ماحول کا نقصان الگ ہوتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہر سال 22,000 سے زیادہ بچے اسہال کی وجہ سے موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں۔ 53 فیصد پاکستانی خواتین کو مناسب صفائی ستھرائی تک رسائی نہیں۔ اگر سکولوں میں صفائی اور حفظان صحت کی ناکافی سہولیات ہوں تو لڑکیاں کی تعلیم پر فرق پڑتا ہے۔

’عوامی بیت الخلا کی کمی سے سالانہ ڈھائی ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے‘

ٹوائلٹ، دیہات، پاکستان

سلمان صوفی نے بتایا کہ پاکستان کے سیاحتی مقامات پر بیت الخلا کی مناسب سہولت نہیں ہے۔ عوامی بیت الخلا کی کمی سے پاکستان کو سالانہ 2.5 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔

دو ہزار سترہ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، 2030 تک کھلے میں رفع حاجت سے ’پاک پاکستان‘ کے حصول کے لیے روزانہ تقریباً 820 لیٹرینز تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔

صوفی کہتے ہیں کہ ہر علاقے کا کوٹا ہونا چاہیے۔ مگر مقصد صرف ٹوائلٹ بنانا اور انھیں ٹھیکے پر دے دینا نہیں کیوںکہ اس سے لاکھوں روپوں کا صرف ضیاع ہوتا ہے۔ ٹوائلٹ کی مسلسل دیکھ بھال بہت ضروری ہے۔ پبلک سیکٹر کو کارپوریٹ سیکٹر کو مراعات دے کر اس جانب لانا چاہیے۔ ان کے مطابق اگر ایسا ہوگا تو عوامی بیت الخلا کی کمی بہت جلد پوری ہوسکتی ہے۔

اوکھل بابو کی کہانی ہو یا سلمان صوفی کی عوامی بیت الخلا کی کمی پورا کرنے کی کوشش، 19 نومبر، ٹوائلٹ کے عالمی دن کا پیغام یہی ہے کہ صفائی اور حفظان صحت کی سہولیات سب کی پہنچ میں ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments