احساس کمتری کے شکار شخص سے دور رہیے


جب معروف بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے نے لکھا تھا کہ ”دشمن آپ کی ہمت کو نہیں توڑ سکتا، یہ کام صرف آپ کے دوست کر سکتے ہیں“ تو ان کے مدنظر یقیناً ایسے دوست نما لوگ ہوں گے جن کی روح بغض کے بوجھ تلے آ کر مر چکی ہوتی ہے۔

لیکن بات بغض سے شروع نہیں ہوتی۔ کینہ و بغض سے پہلے آتا ہے احساس کمتری۔ کمتر ہونے کا احساس حسد پیدا کرتا ہے۔ حسد بغض میں تبدیل ہوتا ہے اور بغض دشمنی میں۔ اور پھر یہ صورتحال انسان کو اس سطح پر لے جاتی ہے جہاں اسے دوستوں کی خوشیوں کامیابیوں حتی کہ خوبیوں سے بھی تکلیف پہنچتی ہے۔ یہ اندرونی تکلیف اسے چین سے جینے نہیں دیتی اور جواب میں وہ بھی آپ کو چین نہیں لینے دیتا۔

”دوستی“ کی بنا پر آپ رواداری سے کام لیتے ہیں یا پھر ”قریبی تعلق“ کا خیال آپ کو ذہنی طور پر واضح فیصلہ ہی لینے نہیں دیتا اور آپ اس زہر آلود رشتے میں جکڑے رہتے ہیں۔ اس سے بہت بہتر اور خوشگوار زندگی آپ کا حق ہے لہذا اگر آپ پرسکون رہنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو احساس کمتری کے شکار انسان سے دور رہنا ہو گا۔

لیکن کوئی شخص احساس کمتری کا شکار کیوں بنتا ہے۔ اگر اس سوال کا جواب ڈھونڈیں تو شاید ایسے شخص سے نفرت کی بجائے ہمدردی محسوس ہو۔ محرومیوں کا شکار بچپن، تفکرات سے عبارت جوانی، مقاصد کے حصول میں مسلسل ناکامی اور اعتماد اور کشش سے عاری شخصیت جیسے کتنے ہی عوامل ہیں جو کسی بھی انسان کو دوسروں سے کمتر ہونے کے احساس میں مبتلا کر سکتے ہیں۔

اب ان عوامل کا جائزہ لیں اور ایسے شخص کے بارے میں سوچیں جس نے زندگی بھر یہ سب جھیلا ہو تو اس کے بارے میں یہ کہنا کہ ایسے انسان سے دور رہو خاصی خود غرضانہ اور تلخ سی بات لگتی ہے۔ لیکن کیا کیا جائے، حقائق عموماً تلخ ہی ہوتے ہیں۔ اور اپنے سکون کے لیے اگر انسان تھوڑا خود غرض بھی ہو جائے تو اس میں ایسا کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے۔

اگر آپ اس ”فلسفے“ سے اتفاق نہیں کرتے اور ایسے شخص سے دوستی نبھا کر اس کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ احساس کمتری کے گرداب سے نکل سکے تو ایسا کر دیکھیں۔ میری رائے میں آپ کو بدلے میں مایوسی اور ذہنی اذیت کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ اس کے سوا کچھ اور نتیجہ نکلنا ممکن ہی نہیں۔ وہ اس لیے کہ جس منزل کے لیے وہ شخص زندگی بھر ترسا ہو آپ پہلے سے ہی اس پر براجمان ہوں، جس شخصی اعتماد سے وہ بری طرح محروم ہو آپ اس سے مالا مال ہوں اور جس آسانی سے آپ اپنے مقاصد حاصل کر جاتے ہوں وہ اس کے لیے ایک خواب کی طرح ہو تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ آپ کے ساتھ بھی رہے اور آپ سے حسد بھی نہ کرے اور اس حسد کے زیر اثر آپ کو دوستی یا ہنسی مذاق کی آڑ میں نیچا دکھانے کی کوشش نہ کرے؟ اس کے پاس اپنا قد اونچا کرنے کے لیے آپ کو نیچا دکھانے کے علاوہ کوئی دوسری آپشن کوئی مثبت صلاحیت بھی تو نہیں ہوتی۔

لیکن یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا محرومیاں، غربت، شخصی خوبیوں کی کمی اور مسلسل ناکامیاں دیکھنے والا ہر شخص اپنے سے بہتر پوزیشن رکھنے والے لوگوں سے بغض رکھتا اور احساس کمتری کا شکار بن کر ان کے خلاف سازشیں کرتا پھرتا ہے تو اس کا جواب ہے بالکل نہیں۔ ایسا دعوی کرنا بیہودہ ترین بات ہوگی۔

اصل نکتہ یہ ہے کہ جو شخص ان مصائب و مسائل کے بعد منفی طرز فکر کے بھنور میں گر جائے صرف وہی شخص ایسی حرکات کا مرتکب ہوتا ہے۔ جو ان مشکلات کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھ کر مثبت سوچ کے ساتھ زندگی کا سامنا کرتا ہے وہ اس چھوٹی اور تنگ ذہنیت سے بہت اوپر اٹھ جاتا ہے اور پھر زمانہ اس پر دادو تحسین اور خوشیاں نچھاور کرتا ہے۔ اس کا اپنا قد اتنا اونچا ہوجاتا ہے کہ اسے دوسروں کو نیچا دکھانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔

لیکن ہمارا موضوع تو وہ شخص ہے جو یہ سب نہیں کر پاتا اور خود ترسی کا شکار ہو کر پہلے احساس کمتری میں مبتلا ہوتا ہے اور پھر اندرونی آگ میں جل کر اپنے ارد گرد موجود لوگوں کو ہر ممکن ذریعے سے ذہنی اذیت دے کر لطف اٹھاتا ہے۔

اس لیے جہاں آپ کو ہلکا سا بھی اندازہ ہو کہ کوئی شخص دعوی تو دوستی کا کرے لیکن عین موقع پر دشمنی سی کر جائے اس شخص سے ہوشیار ہو جائیے۔ وہ کسی نا کسی کمتری کے احساس کے تحت آپ سے بغض رکھتا ہے۔ اس سے محتاط ہو جائیے۔ دوستیاں کیجیے لیکن آنکھیں اور دماغ کھلا رکھیں۔ خوش رہیں گے۔

ایک انگریزی کہاوت کے مطابق ”دھوکے کے تیر کا سب سے دکھ دینے والا پہلو یہ ہوتا ہے کہ یہ کبھی دشمن کی جانب سے نہیں آتا“ ۔ لہذا دشمنوں سے زیادہ دوستوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ زندگی کے بڑے اسباق میں سے ایک اہم سبق ہے۔

شاہد وفا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شاہد وفا

شاہد وفا ایک براڈکاسٹ جرنلسٹ اور لکھاری ہیں۔ معاشرے میں تنقیدی سوچ اور شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں اس لیے معاشرتی ممنوعات کو چیلنج کرنے، جمود توڑنے اور سماجی منافقت کو بے نقاب کرنے کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

shahid-wafa has 31 posts and counting.See all posts by shahid-wafa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments