پاکستان کی داخلی سیکورٹی اور خارجی چیلنجز


پاکستان کی سیاسی قیادت اور قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کا داخلی اور خارجی سیکورٹی و سلامتی کے مسائل پر عسکری قیادت سے بریفنگ یا مکالمہ ایک بروقت اور درست اقدام ہے۔ پاکستان کی داخلی، علاقائی اور عالمی صورتحال کا تقاضا سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان مختلف نوعیت کے حساس معاملات پر بداعتمادی کے مقابلے میں اعتماد سازی یا سازگار ماحول سمیت دو طرفہ بات چیت کا عمل ہے۔ مسئلہ کا حل کسی صورت بدگمانی نہیں بلکہ باہمی تعاون کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی ہونی چاہیے۔

یہ ہی سوچ اور فکر اس نقطہ کو بھی تقویت دے گی کہ قومی سیکورٹی مسائل پر کوئی فریق یا اسٹیبلیشمنٹ تن تنہا فیصلہ کر کے قومی معاملات پر بالادست ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ اگرچہ اس باہمی گفتگو کی بنیادی محور ہمیں افغانستان کی صورتحال اور اس سے جڑے معاملات جن میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ پس پردہ چلنے والے مذاکرات بھی تھے دیکھنے کو ملے۔ یہ محض یک طرفہ گفتگو نہیں تھی بلکہ سوال و جوابات کی نشست اور مختلف موضوعات پر مختلف سوچ اور فکر نے بھی مکالمہ کی افادیت کو بھی اور زیادہ بڑھادیا تھا۔

اگرچہ ابتدائی طور پر مسلم لیگ نے اس بریفنگ کا بائیکاٹ کرنے کا عندیہ دیا تھا مگر شہباز شریف کی حکمت عملی کی وجہ سے مسلم لیگ نے بائیکاٹ کی بجائے اس میں بھرپور شرکت کرنے کا فیصلہ کیا جو درست پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ سیاسی اور عسکری قیادت میں یہ بات چیت اس لحاظ سے اہمیت رکھتی تھی کہ بلاوجہ کچھ ایسی باتیں افغان صورتحال کو بنیاد بنا کر سیاسی منظر نامہ میں مختلف فریقین کی جانب سے کی جا رہی تھی جو عدم اعتماد کا ماحول پیدا کرنے کا سبب بن رہی تھی۔

ایسے میں افغان صورتحال و ٹی ٹی پی کے تناظر میں پانچ بنیادی نوعیت کے نکات سامنے آئے ہیں جو اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔ اول افغانستان کی صورتحال اور وہاں ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں پاکستان کے مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور پاکستانی مفاد اولین شرط ہو گا۔ دوئم پاکستان افغانستان کے معاملات میں مداخلت کی بجائے معا ونت کا کردار ادا کرتا رہے گا جو کہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔ کیونکہ اگر افغانستان میں امن نہیں ہو گا تو ہم ہی براہ راست متاثرین میں ہوں گے ۔

سوئم افغانستان جب تک Inclusiveحکومت نہیں بنے گی تو افغان طالبان کی عالمی قبولیت ممکن نہیں ہوگی۔ چہارم پاکستان عالمی قوتوں پر یہ دباؤ جاری رکھے گا کہ اگر افغانستان میں طالبان حکومت کی مالی حمایت اور انسانی بنیادوں پر مدد نہیں کریں گے تو اس کا نتیجہ عملی طور پر ہمیں داعش کی مضبوطی کی صورت میں دیکھنا ہو گا جو عالمی یا علاقائی امن کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ پنجم پاکستان افغان حکومت کی مدد سے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکراتی عمل کا حصہ ہے اور افغان حکومت کی ضمانت پر ان سے کوئی معاہدہ بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ہمیں افغان حکومت نے یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ افغان طالبان افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔ اسی طرح ٹی ٹی پی سے جو بھی بات چیت ہوگی وہ آئین اور قانون کے دائرہ کار میں ہوگی اور آرمی چیف کے بقول وقت پڑنے پر اس

اہم معاملے پر پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں لیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی سیاسی اور عسکری قیادت میں اتفاق نظر آیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جو لوگ بھی خود کو سرنڈر کرنے اور آئین کو تسلیم کرنے کی حمایت کرتے ہیں ان کو بعض یقین دہانیوں پر معافی دی جا سکتی ہے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں تحریک طالبان کی جانب سے ایک ماہ کے لیے جنگ بندی کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے اور ان کے بقول فریقین کی رضامندی سے اس میں مزید توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کو افغانستان کی صورتحال پر بہت تشویش اور فکرمندی ہے۔

یہ کام آسان نہیں بلکہ تمام فریقین کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی ہے اور اس کے مثبت نتائج بھی کسی سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں۔ مسئلہ کا حل تمام فریقین داخلی یا خارجی کے درمیان باہمی تعاون یا مشترکہ حکمت عملی یا کوششوں سے جڑا ہوا ہے۔ اس مسئلہ کا حل کسی بھی صورت میں بداعتمادی یا ایک دوسرے پر الزام تراشی کی سیاست سے ممکن نہیں اور ہر فریق کو اس بحران کے حل میں کسی پر بھی ڈکٹیشن مسلط کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی مجبوریوں اور ضرورتوں کو سمجھ کر آگے بڑھنے سے جڑا ہوا۔

اس میں ایک بڑا کردار امریکہ اور بھارت کا بھی ہے۔ کیونکہ دونوں پر افغان طالبان کی برتری کے بعد داخلی سیاست میں کافی دباؤ ہے کہ ان کی افغانستان پالیسی ناکام ہوئی ہے۔ افغانستان میں موجودہ صورتحال سیکورٹی کے تناظر میں کافی بہتر ہوئی ہے۔ ایک ہی خطرہ داعش کے پھیلاؤ یا ان کی سرگرمیوں سے ہے۔ اصل مسئلہ وہاں مالی وسائل کی فراہمی کا ہے اور یہ کام امریکہ سمیت عالمی قوتوں کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہو گا۔ اسی طرح افغان حکومت میں دیگر فریقین کی شمولیت کے بارے میں بھی بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ اس اہم مسئلہ پر افغان طالبان تقسیم ہیں اور یہ ہی وہ وجہ بن رہی ہے جو ان کی عالمی قبولیت میں رکاوٹ کا سبب بن رہی ہے۔

ایک ایسے موقع پر جب بھارت افغانستان میں پاکستان کو سیاسی طور پر تنہا کرنا چاہتا ہے یا وہ مختلف الزامات کی بنیاد پر دنیا میں اس بیانیہ کو ہی پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ افغان بحران کا اصل ذمہ دار پاکستان ہی ہے۔ اسی طرح امریکہ کے ساتھ بھی بہت سے معاملات پر پاکستان کے تعلقات میں کچھ سردمہری بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ پہلی بار امریکہ کو پاکستان سے مختلف امور پر مزاحمت کا سامنا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان امریکہ کی ڈکٹیشن کی بجائے اپنی ترجیحات کو بدل رہا ہے۔

اسی طرح بھارت ایک مردہ علاقائی سیکورٹی فورم کی بنیاد پر جو عملی طور پر فعالیت ہی نہیں رکھتا وہ اس کی بنیاد پر افغانستان میں اپنا نیا کردار ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر ہم نے اس فورم میں شرکت سے انکار ہی اسی بنیاد پر کیا کہ ہم کسی بھی صورت میں اپنی شرکت سے اس فورم کی ساکھ کو قبول کرنے کے لیے سہارا نہیں بنیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ خود چین بھی اس فورم کا حصہ بننے کی کوشش نہیں کرے گا تاکہ بھارت کے اس فورم کی ساکھ متاثر ہو۔ پاکستان نے پہلے بھی اس فورم میں کبھی شرکت نہیں کی تھی اور نہ ہی وہ اب کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسی طرح اس بار پاکستان افغانستان کی حکومت کو فوری طور قبول کرنے کے بجائے عالمی و علاقائی دنیا کے ساتھ کھڑا ہے کہ ہم تنہائی میں قبول نہیں کریں گے۔

پاکستان کی علاقائی سیاست میں کامیابی کا بڑا انحصار علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات پر مبنی ہیں۔ چین، روس، ترکی، ایران، افغانستان اور بھارت کے ساتھ معاملات کو بہتر طور پر نمٹ کر ہی ہم علاقائی سیاست میں معاشی ترقی کے نئے امکانات کو پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ پالیسی کہ ہمیں تنازعات اور ٹکراؤ کی سیاست اور جیو سٹرٹیجک کے مقابلے میں جیو معیشت کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہے درست پالیسی ہے۔ اس عمل کو ہی آگے بڑھانے کے لیے ہمیں اپنی حکمت علمی اور پالیسی میں ماضی کے مقابلے میں نئی جہتوں کو قائم کرنا ہو گا۔

یہ پالیسی تمام فریقین کی باہمی کوششوں کا نتیجہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ جو ہمیں داخلی سیکورٹی اور علاقائی و خارجہ پالیسی کے چیلنجز ہیں اس سے نمٹنے کے ہمیں جو جنگ لڑنی ہے اس میں جذباتیت کی بجائے عقل و دانش اور ماضی کے خول سے نکل کر مستقبل کی طرف پیش قدمی کرنا ہوگی۔ ماضی میں رہنے کی بجائے اس سے سبق سیکھ کر مستقبل کے لیے نئی راہوں کو تلاش کر کے ہی ہم ایک بہتر مستقبل کا نقشہ کھینچ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمیں بھارت کے ساتھ بھی معاملات کو درست کرنا ہے اور اگر فوری طور پر حالات درست نہیں بھی ہوتے تو تب بھی ایک دوسرے کے خلاف مخالفانہ سیاسی حکمت عملیوں اور عملی اقدامات سے گریز کر کے سازگار ماحول کو پیدا کرنا ہی ہماری ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔

اسی طرح ایک مضبوط معیشت ہی ہمیں داخلی اور علاقائی سطح کی سیاست میں بڑے فیصلے کرنے کی طاقت دے سکتا ہے۔ کیونکہ کمزور معیشت کی بنیاد پر عالمی و علاقائی ایجنڈا اور ہم کو اس پر دباؤ میں لانے کی عالمی پالیسی جاری رہے گی۔ اسی لیے معاشی صورتحال کی بہتری میں ہمیں روایتی طور طریقوں کے مقابلے میں غیر معمولی اقدامات درکار ہیں، یہ ہی ہماری ترجیح بھی ہونی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments