انتہا پسندی: یہ نصف صدی کا قصہ ہے


وفاقی وزیر اطلاعات نے گزشتہ روز کسی ایک تقریب سے اپنے خطاب کے دوران انتہا پسند رویوں اور ریاست کے ناکافی رد عمل پر کچھ بات کی ہے۔ ان کی تقریر کی ان جزئیات کو ٹی وی چینلز نے ہیڈ لائنز کے طور پیش کیا ہے۔ انتہا پسند رویے مگر ایک آدھ تقریر اور دو چار برس کا معاملہ نہیں۔

ہماری نسل نے نوجوانی کی دہلیز پر ، روسی افواج نے افغانستان او ر ’اسلامائزیشن‘ نے وطن عزیز میں ایک ساتھ قدم رکھے۔ دسویں جماعت میں ہم چند کلاس فیلوز نے اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں پرایک دن زناٹے دار بید اس بناء پر کھائے تھے کہ نماز کے سرکاری وقفے میں ہم مسجد کی بجائے سکول کے گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلتے پائے گئے تھے۔ کالج پہنچے تو مصلحین کی ایک اور جماعت سے واسطہ پڑا۔ سائنس کالج وحدت روڈ کے آڈیٹوریم میں ایک عام معاشرتی سوال پر مباحثہ تھا۔ ہر مقرر کے لئے تقریر کا چند منٹوں کا دورانیہ مختص تھا۔ کالج کی سٹوڈنٹس یونین سے وابستہ کسی ایک نوجوان کو روسٹرم ملا تو موضوع سے ہٹ کر حاضرین کا لہو گرمانے لگا۔ صدر مجلس کے ہاتھوں میں سکت نہ تھی کہ لامتناہی تقریر کا سلسلہ روکنے کے لئے سامنے پڑی گھنٹی بجاتے۔ ہال مسلسل تالیوں اور نعروں سے گونجتا رہا۔ نہر کے کنارے واقع یونیورسٹی سے ہمارے کالج کو کمک آتی تھی۔ ہم جیسوں نے مزاحمت کی خاطر ’بلیک ایگلز‘ جیسی تنظیموں میں عافیت پائی۔ بھلا ہوا کہ فوج نے اپنے پروں میں لے لیا۔

پاکستان آرمی میں کمیشن ملا تو اس دور کی سرکاری پالیسی کے اثرات ادارے کی صفوں میں بھی اتر چکے تھے۔ ایک ممتاز دینی و سیاسی رہنماء کی تصانیف سروسز بک کلب کے ذریعے تقریباً مفت فراہم کی جا رہی تھیں۔ ہر یونٹ میں سرکاری خطیب کا عہدہ متعارف کروایا گیا۔ علی الصبح جب یونٹ پریڈ گراؤنڈ میں جمع ہوتی تو پی ٹی پریڈ کا آغاز خطیب صاحب کے درس سے ہوتا، جسے سب افسر اور جوان ہمہ تن گوش سنتے۔ شلوار قمیض اور ویسٹ کوٹ افسر میسز کا سرکاری لباس قرار پائے۔ ممتاز سکالر سٹیفن پی کوہن اس دور میں پروان چڑھنے والے پاکستانی افسروں کو ابتدائی برسوں کی ’برٹش‘ اور اس کے بعد آنے والی ’امریکن جنریشن‘ کی نسبت سے ’ضیاء الحق جنریشن‘ کہتے ہیں۔

ہمارے میس میں کسی اور یونٹ کے ایک خوبرو کپتان صاحب بھی رہتے تھے۔ شاندار پیشہ وارانہ ریکارڈ کے حامل یہ صاحب گفتگو میں اکثر کچھ حدود پار کر جاتے۔ ہم لفٹینوں میں مگر بہت مقبول تھے۔ ظہر کی نماز کی ادائیگی کے سرکاری حکم پر ایک روز اپنے کمانڈنگ افسر سے الجھ پڑے۔ کچھ ماہ گزرے تو فوج چھوڑ کر مستقلا امریکہ منتقل ہو گئے۔

یادش بخیر، تمام تر پابندیوں کے باوجود کرنل تاجک کا سٹور کوئٹہ کی جناح روڈ پر مگر آباد اور سرشام کھلتا تھا۔ اسی دور میں کوئٹہ کلب کے لان میں ایک محفل موسیقی کا انعقاد کیا گیا۔ معروف غزل گو فنکار خلیل حیدر، انور مقصود اور محمد علی شہکی کے ہمراہ پرفارم کرنے کو آئے۔ محمد علی شہکی نے اپنے مخصوص انداز میں پرفارم کرنا شروع کیا تو درجنوں نوجوان افسر بھی سٹیج کے سامنے اچھل کود کرنے لگے۔ سامنے والی نشست پر تشریف فرما کور کمانڈر صاحب کو یہ اودھم ناگوار گزرا۔ لفٹینوں کی اچھل کود کے سد باب کی خاطر حکم ہوا کہ محمد علی شہکی کو ہٹا کر غزل گو فنکار سے غزلیں سنانے کو کہا جائے۔ لفٹینوں نے کچھ سیٹیاں بجائیں تو ایک اور حکم آیا کہ احتجاج کرنے والوں کا فوری طور پر ’میڈیکل‘ کروایا جائے۔ ملٹری پولیس والے حرکت میں آئے تو لفٹین تتر بتر ہو گئے۔ ہم سب تو اپنے اپنے میسز کو لوٹ آئے تھے، لہٰذا باقی شام کی روداد کا ہمیں علم نہیں۔ اگلی صبح البتہ یہ سننے میں آیا کہ رات گئے تک معروف غزل گو فنکار یہی الاپتے رہے کہ نئے کپڑے جو انہوں نے سلوا رکھے ہیں، ان کو پہن کر وہ کہاں جائیں!

مجھے یاد ہے کہ انہی دنوں قذافی سٹیڈیم میں بھی ایک میوزیکل شو کے انعقاد کا اعلان کیا گیا تھا کہ جس میں چند غیر ملکی فلمی ستاروں کی آمد بھی متوقع تھی۔ پروگرام کی ایک ریہرسل کے دوران مقامی یونیورسٹی کے نیو کیمپس سے نوجوان جتھوں کی شکل میں آئے اور آلات موسیقی توڑ پھوڑ کر چلتے بنے۔ غیر ملکیوں تک خبر پہنچی تو وہیں بیٹھے معذرت کر لی۔ اس دور میں پی ٹی وی پر بھی اچھل کود کو برا جانا جاتا تھا۔ اپنے شعیب منصور نے ’میوزک 89‘ کے نام سے پی ٹی وی پر نوجوانوں کا ایک پروگرام کیا تو علماء کرام کے علاوہ عام پاکستانیوں نے بھی اچھا خاصا برا منایا۔ گلوکاروں کی پرفارمنس سے زیادہ اعتراض نوجوان تماشائیوں کے اچھلنے کودنے پر تھا۔ سال 1988 ء کے وسط میں جنرل ضیاء الحق کی شہادت کی خبر ملی تو ہم گرمائی مشقوں کے لئے کوئٹہ کے نواح میں کیمپ لگائے بیٹھے تھے۔ خدا جنرل ضیاء الحق کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ محض ایک فرد نے چند سالوں کے اندر پاکستان کی سیاست سمیت پورے معاشرے کی ہیئت کو بدل کر رکھ دیا تھا۔

افغان جہاد اختتام کو پہنچا۔ روسی اور امریکی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ تاہم نئی صدی نے کروٹ لی تو امریکی ایک بار پھر لوٹ آئے۔ نئی جنگ نے پاکستان کو مزید ویران کر دیا۔ چار متشدد عشروں میں پوری ایک نسل گزری ہے۔ ہماری عمر کے پاکستانی اسی اداس نسل کا حصہ ہیں!

پاکستان نے اپنی غلطیوں کی پوری قیمت چکائی ہے۔ جنرل مشرف کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے دنیا اب کشمیریوں کی آزادی نہیں بلکہ دہشت گردی پر بات کر رہی تھی۔ امریکی ہم پر دوغلے پن کا الزام دھرتے۔ افغانستان کے بدعنوان، کٹھ پتلی حکمران تک ہمیں آنکھیں دکھانے لگے تھے۔ دنیا بھارت کو ایک قابض طاقت نہیں بلکہ وسیع تجارتی منڈی کی حیثیت سے دیکھ رہی تھی۔ ضرور کچھ تو کوتاہی ہم سے بھی سرزد ہوئی ہو گی۔ اگر احساس ہو ہی گیا تھا تو طعنہ زنی نہیں، سمت درست کرنے کی ضرورت تھی۔ افسوس کہ کوئی اور نہیں، خود حکومت اپنے اداروں کو دنیا میں رسوا کرنے پر تل گئی۔ کچھ بد امنی تو کچھ بد عنوانی، گزرے عشروں پاکستان کی معیشت اندر سے کھوکھلی ہو کر رہ گئی۔

گزشتہ دنوں رونما ہونے والے واقعات ہرگز حوصلہ افزاء نہیں تھے، تاہم مقام اطمینان ہے کہ ریاست نے بے دریغ تشدد سے گریز برتا۔ جنرل مجید ملک نے اپنی خود نوشت میں صدر ایوب کو یاد کرتے ہوئے لکھا کہ ’وہ مذہبی نہیں تھے، مگر مذہب کے خلاف بھی نہیں تھے‘ ۔ مذہبی شدت پسندی کی طرح، مذہب سے بیزاری اور مادر پدر آزادی کے مطالبات بھی انتہا پسندی ہی کی جہتیں ہیں۔ انتہا پسندی کسی بھی شکل میں ہو، خود پسندی (Narcissim) کو جنم دیتی ہے۔ خود پسندی ہی جنت سے بے دخلی کا باعث بنی تھی۔

ایک اندازہ ہے کہ موجودہ حکومت اور سلامتی کے اداروں میں کم ازکم متشدد گروہوں کے باب میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ انتہا پسندی سے متعلق کھل کر بات کرنے میں اگرچہ اب بھی گھبراہٹ کا احساس ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments