اخلاق احمد کے افسانوں کی پانچویں کتاب”جانے پہچانے”


اخلاق احمد کا شمار اسی کی دہائی میں منظر عام پر آنے والے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ یہ کم وبیش وہی زمانہ ہے جب کہانی کی واپسی کی ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ اس نسل سے تعلق رکھنے والوں نے جہاں جدیدیت کی تحریک کے زیر اثر افسانے میں در آنے والی علامیت، تجریدیت اور خالص داخلیت سے گریز کا رویہ اپنایا، وہیں پر انہوں نے اپنے زمانے کے نقادوں کے خلاف بغاوت بھی کی کیوں کہ اس دور کے ناقد جدید افسانے کے مفسر و شارح بنے ہوئے تھے۔ اس دور میں سامنے آنے والے افسانہ نگاروں نے دل میں ٹھان لیا کہ اب وہ اپنے لکھے پر ترقی پسندی، جدیدیت، مابعد جدیدیت یا کوئی اور لیبل لگائے بغیر اپنی پوری سے آزادی سے لکھیں گے۔ اسی عمومی ماحول میں اخلاق احمد کی اپنے ادبی سفر کی شروعات کی۔

اخلاق احمد کو افسانے لکھتے ہوئے تین دہائیوں سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”خیال زنجیر“ 1994 میں شایع ہوا تھا۔ انہوں نے سب رنگ ڈائجسٹ کے لیے تواتر کے ساتھ تراجم بھی کیے۔ اس کے علاوہ وہ طویل عرصے تک اردو کے مشہور ترین ہفت روزہ ”اخبار جہاں“ کے مدیر بھی رہے۔ ”جانے پہچانے“ ان کی کہانیوں کا پانچواں مجموعہ ہے جو تقریباً چار برس پہلے شایع ہوا۔ اس مجموعے میں ان کا کہانی کہنے کا فن نئی بلندیوں سے ہم کنار دکھائی دیتا ہے۔ اس مجموعے کے بیشتر افسانے نہایت عمدگی سے کرافٹ کیے گئے بہترین افسانے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اخلاق احمد جیسے باہنر افسانہ نگار اردو ادب میں جس اہمیت کے حق دار تھے، وہ انہیں شاید نہیں دی گئی۔ لیکن وہ صلے کی پرواہ کیے بغیر شب و روز فن عرق ریزی میں مصروف ہیں۔

اخلاق احمد کو ہمیشہ سیدھے سبھاؤ کہانی کہنے سے دل چسپی رہی۔ کہانی کا ابلاغ ان کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ انہوں نے اس کتاب کے پیش لفظ میں اپنے افسانوں کو انسان کہلانے والے ایک معمے کو سمجھنے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔ اسی لیے ان کے ہر افسانے میں ہماری ملاقات ایک نئے کردار اور اس کی الجھی ہوئی زندگی کے تانے بانے سے ہوتی ہے۔ انسان اپنے ظاہر میں کچھ اور باطن میں کچھ اور ہوتا ہے۔ اس کے ظاہر و باطن کو ملا جلا کر ایک عمدہ کہانی میں ڈھالنا کوئی سہل کام نہیں ہے۔ اخلاق احمد نے اس دشواری کو غیر محسوس طریقے سے کہانی بنانے کی کوشش کی ہے اور اس میں پوری طرح کامیاب ہوئے۔ ان کے افسانوں کی زبان رواں دواں مگر صاف اور شستہ ہے۔ وہ بیان میں کسی الجھاوے کے قائل نہیں کیوں کہ وہ سادگی کے ساتھ جو قصہ کہتے ہیں وہ خاصی الجھنوں کا حامل ہوتا ہے۔ اس میں کئی موڑ اور پیچ و خم آتے ہیں۔ اختتام تک پہنچتے پہنچتے مذکورہ کردار کی زندگی کی بپتا پڑھنے والے پر حیرت کے نت نئے در وا کرتی چلی جاتی ہے۔

”جانے پہچانے“ میں کل دس افسانے ہیں اور ان میں بیشتر افسانوں کا محل وقوع کراچی ہے۔ ان مجموعے کے چھ افسانے صیغہ واحد متکلم میں جب کہ چار صیغہ غائب میں ہیں۔ ان دونوں میں، صیغہ واحد متکلم کی تکنیک مصنف کو پسند و مرغوب معلوم ہوتی ہے کیوں کہ اس میں لکھے گئے سبھی افسانے ایک خاص گہرائی اور تاثیر کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا راوی دوسروں کی کہانی سناتے سناتے خود بھی ایک کردار میں ڈھل جاتا ہے۔ جب کہ صیغہ غائب والے افسانے بھی بہتر ہیں لیکن ان میں وہ گداز، کھوج، اداسی اور جستجو نہیں ملتی جو اول الذکر افسانوں کا خاصہ ہے۔ اس لیے ”اچھے ماموں کا چائے خانہ“ ، ”ایک، دو، تین، چار“ ، ”اونچا، لمبا، تنہا، سردار“ ، ”سات سو ارب کہانیوں میں سے ایک کہانی“ یقیناً بہترین کہانیاں کہلائے جانے کی مستحق ہیں۔ کسی مجموعے میں اتنے سارے بہترین افسانوں کا ہونا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ افسانہ نگار افسانہ لکھنے کے فن پر پوری طرح قادر ہے۔ اس مجموعے کے مطالعے کے بعد اخلاق احمد سے توقعات کا بڑھ جانا ایک فطری عمل ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ اپنی نئی کہانیوں کے ذریعے ہمیں ورطہ حیرت میں ڈالنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments