ون وے کی خلاف ورزی پہ چالان


خبر خوش آئند ہے، آنی انتظامیہ کی طرف سے چاہیے تھی لیکن آئی عدلیہ کی طرف سے ہے۔ امر واقعہ یہی ہے کہ متعلقہ ادارے جب اپنے کام نہیں کرتے اور ان کا کام عدالت کو کرنا پڑتا ہے تو بھی کسی حد تک خوشی ہوتی ہے کہ چلو اس بہانے ہی سہی سوئی ہوئی انتظامیہ حرکت میں تو آئے گی۔ خبر یہ ہے کہ ون وے کی خلاف ورزی کرنے پر عدالت نے دو ہزار روپے جرمانہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ گو اس موضوع پر پاکستان میں بہت زیادہ تربیت کی ضرورت ہے اور ابھی بہت سا کام باقی ہے لیکن پہلے قدم کے طور پر یہ خبر جہاں سے بھی آئی خوش آئند ہے۔

اگر آپ پاکستان کی سڑکوں بشمول اسلام آباد میں گاڑی چلاتے ہیں اور خصوصاً اگر سکول لگنے اور چھٹی کے وقت سڑک پر ہوتے ہیں تو آپ اس خبر میں چھپی خوشی سمجھ سکتے ہیں۔ کس کس طرح گاڑیاں اور موٹر سائیکل کہاں کہاں سے کس کس سمت رواں ہوتے ہیں کہ اچھے سے اچھا ڈرائیور اپنی ڈرائیونگ بھول جائے۔ دوسرے سے پہلے نکل جانے کی خواہش میں دو قطاروں میں تین اور تین قطاروں والی جگہ پر پانچ لین بن جاتی ہیں۔ سڑک پر ٹریک کا نشان بے معنی ہوتا ہے۔ چند گز کے فاصلے سے یو ٹرن لینے کی بجائے ون وے میں آ کر نہ صرف خود خطرہ بنتے ہیں بلکہ بعض اوقات سامنے سے آنے والی پوری ٹریفک کو روک دیتے ہیں۔

برادرم وقار ملک پچھلے دنوں ملائشیا سے آئے کچھ مہمانوں کو لے کر شمالی علاقہ گئے۔ وہاں بشام سے داسو سے کی طرف جانا تھا۔ یہ کوئی ڈیڑھ گھنے کا سفر ہے۔ لیکن یہ لوگ کوئی بارہ گھنٹے کے قریب ٹریفک میں پھنسے رہے۔ لینڈ سلائیڈنگ کے علاوہ وہی دوسرے سے آگے نکلنے کا شوق، گاڑی میں موجود ایک مہمان نے تبصرہ کیا کہ اگر دنیا کا تیز ترین کمپیوٹر خریدا جائے اس میں مہنگا ترین سافٹ وئیر انسٹال کیا جائے اور وہ سافٹ وئیر کوئی مشکل سا پروگرام ڈیزائن کرے کہ ٹریفک کس کس طرح پھنسائی جا سکتی ہے پھر بھی وہ ان پاکستانیوں کے طریقے کے قریب بھی نہ پہنچ سکے گا۔

امر واقعہ یہی ہے کہ آپ سے آگے لائن میں لگا شخص بیوقوف نہیں ہے کہ وہ رکا ہوا ہو بلکہ اس کے آگے کوئی گاڑی ہوگی جو وہ لائن میں لگا کھڑا ہے ورنہ اسے آپ سے بھی زیادہ جلدی ہو سکتی ہے۔ لیکن آپ دائیں بائیں سے نکل کر آگے جانے کی کوشش کرتے ہیں، نتیجہ سامنے سے آنے والی ٹریفک رک جاتی ہے۔ ایک چین ری ایکشن پیدا ہوتا ہے اور پیچھے کسی چوک میں گاڑیاں ہلنے جلنے سے قاصر ہو جاتی ہیں۔ آپ کی حماقت سے آپ کے دائیں بائیں ساری گاڑیاں رک جاتی ہیں اور بے وجہ رش کا باعث بن جاتی ہیں۔

اب مذکورہ بالا جرمانہ کرنے کی ہدایت تو عدالت کی طرف سے کردی گئی ہے لیکن کیا اس پر عمل ہو سکے گا؟ کسی گاڑی سے کوئی وکیل صاحب برآمد ہوں گے، کسی سے ایس پی صاحب کا دوست۔ ایک گاڑی سے جج صاحب کا ڈرائیور دھونس دے گا دوسری سے کوئی بزنس مین دھمکی۔ رہ گئے موٹر سائیکل اور رکشے والے تو وہ خود کو آگ لگا لینے کا ڈرامہ کر کے بلیک میل کریں گے۔ اب ٹریفک پولیس پہ بھی مختاری کی تہمت ہوگی کہ دو ہزار حکومت کے اکاؤنٹ میں جمع کرانے کی بجائے پانچ سو اپنی جیب میں ڈالنے کا اختیار آپ کو دیں۔

کالم کی تنگئی داماں کی وجہ سے ٹریفک کی صرف ایک دو خلاف ورزیوں کا ذکر ہی ممکن ہے۔ روز بیسیوں قسم کی خلاف ورزیاں ہم دیکھتے ہیں، دل کڑھتا بھی ہے، بلڈ پریشر بھی بڑھتا ہے لیکن ٹریفک مسائل میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ راقم کا دل چاہتا ہے کہ اس پر مسلسل لکھنے کے ساتھ ڈاکومنٹریز بنا کر عوام اور حکومت کو اس کی طرف مسلسل توجہ دلائی جائے۔ لیکن نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔

میرے ایک پہلے مضمون پر کسی قاری نے تبصرہ کیا تھا کہ یہ عالمگیر مسئلہ ہے اور ساتھ لندن شہر کی مثال دی تھی۔ ان کی بات سر آنکھوں پر اس میں شک نہیں کہ بڑھتی آبادی کے ساتھ گنجان آباد شہروں میں ٹریفک کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے اور پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ لیکن ہماری بے ترتیبی، بد نظمی اور لاقانونیت نے ان مسائل میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ اگر صورت حال یہی رہی تو آئندہ کچھ عرصے تک ٹریفک کا مسئلہ پاکستان کے دو تین بڑے مسائل میں سے ایک ہو گا۔ ہم ہر ون وے، ہر چوک میں گاڑیاں پھنسائے گھڑے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments