مین سٹریم میڈیا پر پابندیاں اور صحافیوں کی مشکلات


”آزادی صحافت جمہوریت کا بنیادی جزو ہے، آزادی اظہار کے بغیر آزادی صحافت کا تصور ممکن نہیں ہے“

قیام پاکستان کے بعد ملک کی سیاست کا پہلا اصول یہ ٹھہرا کہ حکومت پر نکتہ چینی ملک سے بغاوت قرار دی جائے گی اور یہی سلسلہ آج تک جاری ہے۔ مختلف ادوار میں صحافیوں کو مختلف قسم کی مشکلات درپیش رہیں اور ہر حکومت نے اپنے انداز سے صحافت کو پابند سلاسل کیا۔

پاکستان بننے کا اعلان ہونے سے محض تین روز قبل حکومت پاکستان کے سیکرٹری جنرل چوہدری محمد علی نے پہلی پریس ایڈوائس جاری کی جس میں آئین ساز اسمبلی میں قائداعظم کی تقریر وہ حصہ حذف کرنے کی ہدایت کی جس میں مذہبی آزادی، امور مملکت سے مذہب کی علیحدگی اور بلا تمیز مذہب کو ریاست کا مساوی شہری قرار دیا گیا تھا۔ قانون ساز اسمبلی میں صرف اسپیکر کو اسمبلی میں ہونے والی تقریروں یا کارروائی کا کوئی حصہ حذف کرنے کا اختیار ہوتا ہے، روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین نے یہ ایڈوائس ماننے سے انکار کر دیا تب سے اب تک یہ سلسلہ جا ری ہے کہیں صحافی جھک جاتے ہیں اور کہیں ڈٹ جاتے ہیں۔ آج اگر ہم دیکھیں تو آج کے دور میں بھی صحافت پابند سلاسل ہی دکھائی دیتی ہے اس کا واضح ثبوت ہے کہ جن صحافیوں کا قلم خریدا نہیں جا سکتا وہ بے روزگار کروا دیے جاتے ہیں اگر وہ اپنا یوٹیوب چینل کھول کر بیٹھے ہیں یا سوشل میڈیا پر اظہار رائے کر رہے ہیں تو ان کو سبق سکھانے کے لئے مختلف طریقوں سے تنگ کیا جاتا ہے کسی کو دن دیہاڑے اٹھا لیا جاتا ہے تو کسی کو ایف آئی کے ذریعے نوٹس دلوائے جاتے ہیں۔ ماضی قریب میں معروف صحافی عامر میر کو ان کے گھر کے باہر سے بے ڈھنگے انداز میں اٹھا لیا گیا، اسی روز عمران شفقت کو اٹھایا گیا اس سے قبل رضوان رضی کو بھی اٹھا لیا گیا اور پھر ان کی ہتھکڑیاں لگائے ایک تصویر جاری کی گئی تاکہ دوسرے صحافی عبرت پکڑیں۔ اس سے پہلے بھی دیکھیں تو مطیع اللہ جان، اسد طور، حامد میر، احمد نورانی، ابصار عالم، جیسے صحافیوں کو ہراساں کیا گیا ان پر حملے کیے گئے مارپیٹ کی گئی اسی طرح سے طلعت حسین، احمد نورانی، مطیع اللہ جان، مرتضی سولنگی، عامر متین اور رؤف کلاسرا و دیگر کو نوکریوں سے باقاعدہ ہاتھ دھونے پڑے۔

موجودہ دور حکومت کو اگر آزادی صحافت کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ جنرل مشرف اور ضیاءالحق کی حکومتوں کا تسلسل ہی ہے۔ موجودہ حکمران میڈیا کو اسی طریقے سے ہینڈل کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ مارشل لائی دور ادوار میں کیا گیا۔ جنرل مشرف نے گو کہ بہت بڑا کام کیا الیکٹرانک میڈیا کو بڑھایا لیکن پھر اسی مشرف نے جیو سمیت کئی نیوز چینلز کو بند کیا اس کے خیال میں یہ چینلز حکومت کے خلاف بات کرتے تھے۔ جنرل مشرف کے اس اقدام کے خلاف صحافیوں نے کئی ماہ تک تحریک بھی چلائی اور صحافیوں کی تمام تحریکوں کی طرف مشرف کے دور میں چلائی گئی تحریک بھی کامیاب ہوئی اور انہیں چینلز کو کھولنا پڑا۔ جنرل مشرف کے دور میں فیصلہ ہوا تھا کہ پاکستان میں آزاد میڈیا نہیں ہونا چاہیے صرف سرکاری اخبارات اور چینلز ہونے چاہیں جس کی سرپرستی حکومت کرے اور اس کی مرضی کے مطابق سب چلے جیسا کہ سعودی عرب او ر ترکی میں ہوتا ہے اور حکومت ابھی تک ڈٹی ہوئی ہے، جس طرح سے صحافیوں کو اٹھایا جا رہا ہے اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ آزاد صحافت کا خاتمہ حکومت کی اولین ترجیح ہے، جس میں کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ انٹرنیٹ ہونے کی وجہ سے حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اس کے باوجود صحافی یوٹیوب چینلز اور سوشل میڈیا پر اظہار خیال کر رہے ہیں لیکن یہ چیز بھی برداشت نہیں کی جا رہی اس کی سب سے بڑی مثال معروف صحافی عامر میر کی گرفتاری ہے جن پر الزام یہ لگایا گیا کہ آپ نے اپنے یوٹیوب چینلز پر کچھ ایسے پیکج بنائے ہیں جو حکومت اور ریاست کے اداروں کے خلاف ہیں۔ اسی طرح سے کچھ عرصہ قبل سینئر صحافی رضوان الرحمٰن رضی عرف رضی دادا کو ٹویٹر میں عدلیہ، حکومتی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیز کے خلاف ’ہتک آمیز اور نفرت انگیز‘ مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ عمران شفقت کو بھی انہی الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا اور عمران شفقت کو جس انداز سے گرفتار کیا گیا وہ نہایت ہی خوفناک تھا ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر انہیں گھر کے اندر سے ان کی فیملی کے سامنے گھسیٹ کر لے جایا گیا۔

صحافی عامر میر کے مطابق جب یہ گورنمنٹ اقتدار میں آئی تو انہیں انفرمیشن منسٹر فواد چوہدری نے بتایا کہ جنرل باجوہ اور عمران خان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ میڈیا کرپٹ ہے، تگڑا ہو چکا ہے اور سیاسی حکومتوں نے ان کو سرکاری اشتہارات دے کر بھرا ہے لہذا ان کو کمزور کرنا ہے اور نکیل ڈالنی ہے اور اسی بات کے تناظر میں دیکھا جائے تو میڈیا کو نکیل تو ڈالی، موجودہ حکومت نے آتے ہی سب سے پہلے اخبارات کو اشتہارات دینے بند کیے، دو تین سال میں ہی ہزاروں لوگ بے روزگار ہوئے، صحافیوں کے گھروں میں فاقے پڑ چکے ہیں۔

صحافتی تنظیموں کے کردار دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے جب بھی کسی اتحاد کے ساتھ کسی بھی جابر حکمران کے خلاف تحریک چلائی وہ کامیاب ہی ہوئی، ہاں اگر پی ایف یو جے کے آج اگر پانچ چھ دھڑے ہیں تو اس کا بھی ایک ماضی ہے اور اس کی بنیاد جنرل ضیاءالحق کے زمانے میں رکھی گئی تھی اس زمانے میں پی ایف یو جے کا بٹوارہ کیا گیا جو کہ آج تک ختم ہی نہیں ہو سکا پہلے دو دھڑے بنے پھر تین اور آج پانچ سے زیادہ ہیں جو خود کو صحافیوں کا نمائندہ کہتے ہیں۔

ہمیں یہ کہنے دیں کہ آج پورے سچ کے ساتھ آدھا جھوٹ بولنا اس لئے ضروری ہو گیا ہے کہ کیونکہ صحافیوں کو بھی لگنے لگ گیا ہے کہ بقا اسی میں ہے لیکن اس دور میں بھی کچھ صحافی مزاحمت کر رہے ہیں نتیجے میں ان کو نوکریوں سے ہاتھ بھی دھونے پڑ رہے ہیں اور اگر وہ کسی بھی پلیٹ فارم پر رائے کا اظہار کر رہے ہیں تو ان کو مختلف حیلوں بہانوں سے تنگ کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے دو ہزار اکیس میں جب دنیا بھر میں صحافیوں کے تحفظ کے لئے باقاعدہ مہم چلائی جا رہی ہے پاکستان میں تحقیقی صحافت کرنے والوں یا اختلاف رائے رکھنے والوں کے لئے زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے گزشتہ دو تین برس میں پاکستان کے نمایاں صحافیوں کو اس حوالے سے مشکل حالات سے گزرنا پڑا ہے لوگ اغوا ہوئے حملے ہوئے زخمی ہوئے، ملازمتیں ختم ہوئیں آف ائر ہوئے تحریر پر پابندی لگی، نقل و حرکت محدود ہوئی لیکن کسی بھی صحافی پر حملہ کرنے والا یا اغوا کرنے والا تشدد کرنے والا آج تک کوئی شخص گرفتار نہیں ہوا۔ نہ ہی کسی کی ملازمت ختم کرنے، تحریر پر پابندی یا آف ائر کیے جانے کے حوالے سے سرکاری سطح پر تسلیم کیا گیا لیکن سب جانتے ہیں کہ صحافیوں پر یہ مشکل وقت پاکستان تحریک انصاف میں حکومت میں آنے کے بعد سے زیادہ ہوا ہے جو کہ ابھی تک جاری ہے، گو کہ لوگوں کا رشتہ قلم سوچ، کتاب تحقیق سے توڑنے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے اپنائے جا رہے ہیں۔ حامد میر کو آف ائر کیے جانا اس کی سب سے بڑی مثال ہے ان کا کام تک چھپنا بند ہو گیا، طلعت حسین آج تک مین سٹریم میڈیا سے غائب ہیں۔ صحافیوں کو اپنی زندگی/جان کا خطرہ ہے ان کا معاشی مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے، خوف کی فضا ہے، ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اثر انداز ہو رہی ہے، میڈیا پر غیر علانیہ کریک ڈاؤن نے بہت سے صحافیوں کو صحافت سے مایوس کر دیا ہے ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو چکے ہیں۔ آج آزادی رائے نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ جنرل ضیاءاؒلحق اور پرویز مشرف کے دور کی پابندیوں سے واقف نئی نسل کے زیادہ تر صحافیوں نے اپنی نوکریاں بچانے کے لئے سیلف سنسر شپ لگا نافذ کر لی ہے اب تو کسی ایڈوائس کی ضرورت ہی نہیں رہی، قیادت اور یونیز سے محروم صحافیوں نے آزادی صحافت کو خود اپنے لئے حرام قرار دے دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments