بھلے آسمان ٹوٹ پڑے


پانامہ کیس کے دوران جوڈیشل ایکٹو ازم اپنی انتہاؤں کو چھو رہا تھا۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ ججز نہیں ان کے فیصلے بولتے ہیں لیکن پانامہ کیس کے دوران اگر عالی مرتبہ ججز کے بلند آہنگ بیانات ٹی وی سکرینوں پر رونق افروز نہ ہوتے تو ماحول پر افسردگی چھائی رہتی۔ انہی ایام میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کبھی ہسپتالوں میں برتن کھڑکاتے دکھائے دیتے اور کبھی ڈیم فنڈ کے نام پر ڈرامے کرتے دکھائی دیتے تھے اگر وہ نظر نہیں آتے تھے تو صرف عدل و انصاف کرتے نظر نہیں آتے تھے۔

پانامہ کیس کے دوران سابق جسٹس اعجاز افضل کہا کرتے تھے ’بھلے آسمان ٹوٹ پڑے ہم انصاف کریں گے‘ ۔ یہ جملہ اس بات کی غمازی کرتا تھا کہ ہماری عدلیہ مصلحتوں کا شکار ہوئے بغیر مبنی بر انصاف فیصلے دے گی لیکن جب فیصلہ بیٹے سے غیر وصول شدہ تنخواہ گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے کے جرم میں نا اہلی کی شکل میں سامنے آیا تو واضح ہوا کہ ہاتھ کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہیں۔ یہ جملہ یاد آنے کا سبب حالیہ کچھ واقعات ہیں جن پر تفصیل سے بات کریں گے۔

بسا اوقات کچھ ایسی خبریں نظروں سے گزرتی ہیں کہ بیس سال بعد سائل کی بے گناہی ثابت ہو گئی، کبھی اٹھارہ سال جیل گزارنے والا قاتل بے گناہ نکلتا ہے اور کچھ کیسز میں تو پچپن سال بعد سائل کو انصاف ملتا ہے۔ عدالتی کیسز میں یہ کہاوت عام ہے کہ دادا کے مقدمے کا فیصلہ پوتا سنتا ہے۔ ایسی مثالوں کی وجہ سے انصاف میں تاخیر انصاف کا قتل کہلاتی ہے۔ ہمارے عدالتی نظام میں تاخیر سے ہونے والے فیصلوں کے علاوہ دباؤ میں کیے جانے والے فیصلے بھی عدالتی توقیر میں کمی کا سبب بنتے ہیں۔ دباؤ کے باعث برق رفتاری سے کیے گئے فیصلوں میں نہ صرف انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے بلکہ ایسے فیصلے عدلیہ کے لئے ہزیمت کا باعث بنتے ہیں جیسے ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل اور پانامہ کیس عدلیہ کے لئے بن چکے ہیں۔

جسٹس اعجاز افضل کا یہ جملہ یاد آنے کا ایک سبب وہ بیان حلفی بھی ہے جس کے فریق دو سابق چیف جسٹس صاحبان ہیں۔ یہ معاملہ اب عدالت میں زیرسماعت ہے اس لیے اس پر زیادہ بات نہیں کی جا سکتی لیکن اس بیان حلفی کا قضیہ گزشتہ دور میں برپا جوڈیشل ایکٹو ازم کی قلعی ضرور کھول گیا ہے۔ ججز جب کہتے ہیں کہ بھلے آسمان ٹوٹ پڑے ہم انصاف کریں گے تو آنکھوں میں امید کے دیے جلتے ہیں کہ شاید ہماری عدلیہ اب 126 نمبر سے مزید نیچے جانے کی بجائے اولین نمبروں میں اپنا مقام بنائے گی لیکن جب فیصلوں میں منصف ایک بار پھر جسٹس منیر کی تاریخ دہراتے ہیں تو خوشی کافور ہو جاتی ہے۔

ہمارا بنیادی مسئلہ بھی یہی ہے کہ ہم جو دعوے کرتے ہیں وہ ہمارے عمل میں نظر نہیں آتے ہیں۔ کہنے اور کرنے میں تضاد ہی ہماری خرابی کی بنیاد ہے۔ طاقتور کے ظلم اور مظلوم کی بے بسی کے درمیان حقیقی انصاف کی امید مظلوم کو ڈٹے رہنے کا حوصلہ دیتی ہے لیکن منصفوں کے غیرمنصفانہ فیصلوں سے مظلوم معاشرہ میں بے چینی پھیلتی ہے اور جب مظلوم طبقہ کی آس ٹوٹتی ہے تو نگاہیں صرف عرش کی طرف ہی اٹھتی ہیں۔ پانامہ فیصلہ کے مضمرات اپنی جگہ مگر ’بھلے آسمان ٹوٹ پڑے لیکن انصاف کریں گے کے دعوے کرنے والوں نے نواز شریف کے مقدمہ کے بعد ایسی آنکھیں بند کی ہیں کہ پانامہ کے باقی چار سو پینتیس افراد تو ایک طرف اس کے بعد پیراڈائز پیپرز کے علاوہ پنڈورا پیپرز بھی طاقتور افراد کی کرپشن کی داستان سنا رہے ہیں لیکن منصف ایسی گہری نیند میں ہیں کہ جھنجھوڑنے پر بھی نہیں اٹھتے۔ پینڈورا پیپرز کے ساتھ براڈ شیٹ سکینڈل میں بھی طاقتور سابق عسکری افسران اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے نام ہیں لیکن مہینے گزرنے کے باوجود نہ کوئی آسمان ٹوٹ رہا ہے نہ ہی زمین پھٹ رہی ہے اور عدل بھی گہری نیند سو رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون سمجھا جانے والا میڈیا بھی اس وقت اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ غیر قانونی طور پر نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغواء اور تشدد کا نشانہ بننے والے صحافیوں کی بہت لمبی فہرست ہے۔ سینئر صحافی ابصار عالم صاحب، مطیع اللہ جان اور اسد طور کے معاملے میں حملہ آوروں کی واضح شناخت کے باوجود نمبر ایک سمجھے جانے والے ادارے ان حملہ آوروں کی کھوج لگانے میں ناکام ہیں۔ جن کی وجہ سے حملہ کا الزام انہی اداروں پر لگ رہا ہے۔ جسم میں دو گولیاں لے کر گھومنے والے حامد میر صاحب بھی میڈیا کی آزادی کے لئے آواز اٹھانے کی پاداش میں کئی ماہ سے اپنا مقبول شو نہیں کر پا رہے۔

ججز کے علاوہ آرمی چیف کا میڈیا میں آنے والا یہ بیان ’آئین کی پاسداری سب پر لازم ہے‘ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ کہتے ہیں کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں، اگر آپ آئین پر عمل کر لیں تو سمجھیں سارے پاکستان نے تسلیم کر لیا۔ آپ کا مارشل لائی حکومت کا تجربہ بھی ناکام رہا اور موجودہ ہائبرڈ فارمولہ بھی آپ کے لئے باعث ہزیمت ہی بنا ہے۔ آپ نے جس ’تبدیلی کے اوتار‘ کو بہت جتن سے ’ترقی کا نشان‘ بنا کر پیش کیا تھا وہ آج پورے ملک میں ’تباہی کی پہچان‘ بن چکا ہے۔ معیشت و سیاست پر آپ کے بیانات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ آپ سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے کہ اب ہم مزید بگاڑ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ بہتری کے لئے اداروں کے علاوہ سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کو بھی اپنا طرز عمل درست کرنا پڑے گا۔ بدقسمتی سے اگر کوئی ایک سیاستدان آئینی بالادستی کی بات کرتا ہے تو چار سیاستدان غیر جمہوری قوتوں کو اپنا کندھا پیش کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اب ہم مزید تجربات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس سے پہلے کہ کوئی اور سانحہ ہو جائے ہمیں صدق دل سے اپنی غلطیوں کا اعتراف کر لینا چاہیے۔ یہ ماننا چاہیے کہ ادارے سے عہد وفا کرتے ہیں لیکن آئین سے عہد وفا نہیں کرتے۔

ستر سال سے آئین کو جوتے کی نوک پر رکھنے والے اب صرف سات سال آئین کو سپریم سمجھ کر سر تسلیم خم کریں شاید ہم بھی ترقی یافتہ ممالک من شامل ہو جائیں۔ عسکری سربراہان نے ہمیشہ ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ لگا کر اختیارات اپنے پاس رکھے لیکن حالات نہیں بدلے اب چند سال سویلین وزیر اعظموں کو بھی من مرضی سے ملکی پالیسیاں بنانے دیں، ہو سکتا ہے صورتحال بہتر ہو جائے۔ عدلیہ اور عسکری گٹھ جوڑ کو مسائل کی جڑ سمجھا جاتا ہے لیکن اگر ججز اور جنرلز کے انہی الفاظ کو جوڑ کر عملدرآمد کر دیں تو یقین جانیں ہمارے سب مسائل حل ہو جائیں گے۔ یہی وقت ہے کہ عدلیہ اور عسکری اکابرین صدق دل سے کہیں کہ ’بھلے آسمان ٹوٹ پڑے ہم آئین کی پاسداری سے پیچھے نہیں ہٹیں گے‘ ۔ آپ یقین کریں پاکستان دن دگنی رات چگنی ترقی کرے گا۔ بقول اقبال

آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments