آج ہمیں شاہ ولی اللہ کو پڑھنے کی کیوں ضرورت ہے؟


ء 1707 ء میں اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے ساتھ ہی برصغیر میں مسلمانوں کے اجتماعی زوال کی بنیاد بن جاتی ہے۔ ایک طرف تو اورنگزیب عالمگیر کے بعد آنے والے بادشاہ عیش و عشرت کی طرف مائل ہو گئے جو ملکی عدم استحکام کا باعث بنا تو دوسری طرف انگلستان کی ایسٹ انڈیا کمپنی بھی برصغیر میں قدم جمانا شروع کر دیتی ہے۔ چنانچہ 1757 ء میں سراج الدولہ کو شکست ہوتی ہے اور بنگال جیسے سرحدی صوبے (جس کا ریونیو مغلیہ دور حکومت میں بہت زیاد تھا) پر انگریزوں کی حکومت قائم ہوتی ہے جس سے لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اسی زوال کی کڑی تقسیم ہند سے آ ملتی ہے جب انگیز تو یہاں سے چلا جاتا ہے لیکن اپنی نمائندہ جماعت یہاں چھوڑ جاتا ہے۔ اور آج یہ صورت حال کہ داخلی اختلافات، فکری انحطات، معاشی پسماندگی اور سیاسی عدم استحکام نے ملک کی صورت حال تباہ برباد کر دی ہے۔

اس تباہ و بربادی سے نپٹنے کے لئے عموماً فکری محفلوں میں یورپی نشاۃ ثانیہ کا موجب بننے والے فلاسفر کا حوالہ دیا جاتا کہ ان کے جن فلسفہ ہائے فکر کو انھوں نے بنیاد بنایا اس کے ذریعے ہم بھی ترقی حاصل کر سکتے۔ چائنہ کی ترقی میں سوشلزم کی فلاسفی اور یورپ کی ترقی میں سرمایہ داری کی فلاسفی کا کلیدی کردار رہا۔ چنانچہ اگر دونوں اطراف کے اہم فلسفیوں کو شامل کیا جائے تو وہ لسٹ کچھ یوں ہو گی۔

1۔ رؤسو کے نظریہ اجتماع یا عمرانی معاہدے ( 1778 ء) ،
2۔ ایڈم سمتھ کا نظریہ معیشت جو اس نے اپنی کتاب The Wealth of Nations میں پیش کیا ( 1790 ء) ،
3۔ ہیگل کا نظریہ جدلیت ( 1831 ء) ،
4۔ فیو باخ کا نظریہ مادیت ( 1972 ء)
5۔ ڈارون کا نظریہ ارتقا ( 1882 ء) ،

6۔ کارل مارکس کے نظریات جو اس نے اینگلز کے تعاون سے اپنی کتب The Communist Menifesto اور Das Capital میں مرتب کیے ( 1883 ء) ۔

یورپین اقوام کے فلسفیوں پر فیوباخ، روسو، ڈارون اور ہیگل کے اثرات نمایاں ہیں جن کے نظریات سے ہی سرمایہ داری جنم لیتی ہے۔

یہاں سوال پیدا ہوتا کہ کیا مسلمانوں کے پاس کوئی ایسا فلاسفر نہیں جس نے اسلام کے سماجی، معاشی یا سیاسی نظریات کو پیش کیا ہو۔ ہم خصوصاً برصغیر کے مسلمان اپنے نشاۃ ثانیہ کے لیے مغربی افکار سے ہی استفادہ کیوں کریں؟ کیا ہمارے پاس کوئی دیسی فلسفہ فکر موجود نہیں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ مغرب کے معاشرے میں آنکھ کھولنے والے، اس معاشرے کا تجزیہ کرنے والے ہمارے معاشروں کا مسائل حل پیش کر سکیں؟

انہیں سوالات پر غور و فکر کرنے اور اسی کے جواب تلاش کرنے میں ایک معاون کتاب ”خطبات ملتان“ پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ کتاب دراصل ان خطبات پر مشتمل ہے جو مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری صاحب نے بہاوالدین زکریا یونیورسٹی میں پیش کیے۔ ان کے خطبات کو بعد میں تحریری شکل دے کر کتاب میں مرتب کیا گیا۔ حضرت آزاد رائے پوری ولی اللہی علوم کے نہ صرف ماہر ہیں بلکہ شاہ ولی اللہ کے علوم کی ایک عرصے سے تدریس کر رہے اور اس پر دعوت و تحریک بھی کر رہے۔ ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کے عنوان سے ایک ادارہ لاہور میں قائم ہے، اس کے ناظم اعلی ہیں۔ ادارہ کا مقصد اسلام کے آج کے دور کے تقاضوں کو سمجھ کر نوجوانوں کی تربیت ہے۔ خاص طور پر اسلام کا تعارف ایک سماجی، سیاسی و معاشی نظام کے طور پر پیش کرنا۔

ان خطبات میں شاہ ولی اللہ کی شخصیت اور ان کے افکار و نظریات کو تعارف پیش کیا گیا ہے۔ اور آج کے دور میں ان کے افکار کس طرح معاشرے میں نشاۃ ثانیہ کا موجب ہو سکتے پر گفتگو شامل ہے۔

شاہ ولی اللہ اس خطے یعنی برصغیر کی شخصیت ہیں اور برصغیر کے مزاج، مذہبی و ثقافتی نوعیتوں سے آگاہ ہیں۔ بقول حضرت مفتی عبدالخالق آزاد صاحب:

”ان (شاہ ولی اللہ رح) کے مقابلے میں ہم کسی باہر کے مفکر کو اگر پیش بھی کریں گے تو اس کی فکر اپنی جگہ کتنی ہی اچھا ہو، وہ ہمارے ماحول سے متعلق نہیں ہو گا۔ شاہ صاحب یہیں پیدا ہوئے، سیاسی کشمکش اور فکری مسائل کو سمجھنے والے ایک دیسی (indigenous) مفکر ہیں۔ ہم نے باہر کے مفکر پڑھ لیے اب ہمیں یہاں کے مفکر کو سمجھنے کی ضرورت۔“

شاہ ولی اللہ اورنگزیب عالمگیر کی وفات سے 4 سال پہلے 1703 ء میں پیدا ہوئے۔ شاہ ولی اللہ اس دور میں پیدا ہوئے جب ہندوستان علمی، معاشی و سیاسی طور پر انتشار، بد حالی اور عدم استحکام کا شکار تھا۔ اسی زمانے میں نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کیا ( 1739 ء) ، مرہٹوں نے طاقت پکڑی اور داخلی انتشار کی وجہ سے قتل و غارت اور مرکزی حکومت کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ بنگال پر حملہ بھی اسی دور میں ہوا اور ہندوستان بیرونی طاقتوں کے تسلط میں چلا گیا۔

شاہ ولی اللہ کے نزدیک معاشرے کی اقتصادی بدحالی کے دو بڑے اسباب ہیں۔ اول یہ کہ حکمران ہیلوں بہانوں کے ذریعے قومی خزانے کو لوٹنا شروع کر دیں۔ حکمران عیاش پرست ہوتے ہیں اور قیصر و کسری سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اسی طرح معاشی بدحالی کا دوسرا سبب ظالمانہ ٹیکس ہیں۔ جب حکمران جماعتیں قومی خزانے کو لوٹنے کے درپے ہوں تو وہ غریبوں (کاشت کاروں، دست کاروں، تاجروں اور محنت کشوں ) پر ٹیکس لگا دیتے ہیں۔ شاہ صاحب کے نزدیک معاشیات کے بنیادی تین شعبے ہیں جو ملک کی معیشت کو مستحکم بناتے۔ یہ زراعت، تجارت اور صنعت ہیں۔ جب ان پیشوں سے وابستہ لوگ ٹیکس ادا نہ کر سکتے ہوں اور ان کو مجبور کیا جائے تو غریب غریب تر بنتا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں قومی ریونیو بھی کم ہوتا جاتا ہے۔

آپ نے معاشی بدحالی کا حل پیش کیا کہ کم سے کم ٹیکس لگانے اور بہ قدر ضرورت انتظامیہ مقرر کرنے سے معاشی بہتری آ سکتی۔

شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ انسانوں کے اندر 3 خصوصیات ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ اجتماعیت پیدا کر سکتے۔ اول کہ انسان تمام انسانوں کے مفاد کے لئے تعاون سے کام لے، دوم انسان میں ایجاد اور تقلید کی تخلیقی صلاحیت، اور حب جمال یعنی خوب سے خوب تر کی تلاش۔ یہ تینوں خصوصیات جانوروں میں نہیں پائی جاتی۔ انسان انہیں کی بدولت ترقی کرتا۔ آپ نے ”نظریہ ارتفاقات“ میں فلسفہ اجتماعیت کی وضاحت کرتے ہوئے چار مراحل بیان کیے۔ (ارتفاق کا مادہ ”رفق“ سے ہے، یعنی آسانیاں اور سہولتیں پیدا کرنا) ۔

1۔ ارتفاق اول
2۔ ارتفاق دوم
3۔ ارتفاق سوم
4۔ ارفاق چہارم

ارتفاق اول وہ پہلی سطح جس میں انسان زبان سیکھتا اور اپنی ضروریات جیسا کہ خوراک، لباس وغیرہ کے لئے دوسرے انسانوں سے رشتہ قائم کرتا۔ ارتفاق دوم میں لوگ کسی نہ کسی جماعت سے منسلک ہوتے ہیں اور اپنے شعبے میں مہارت حاصل کر کے انسانی معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے۔

ارتفاق سوم میں ایک ریاست کا وجود ہوتا ہے۔ ارتفاق دوم میں بننے والی تمام جماعتوں (جیسا کہ تاجروں، کاشت کاروں، صنعت کاروں وغیرہ) کے درمیان ربط قائم کرنے اور ان کے درمیان اختلافات کم کرنے کے لئے سیاسی نظام تشکیل دیا جات ہے۔ ریاست کا سربراہ عوام کی رائے سے وجود میں آتا اور تمام جماعتوں کی اجتماعی مفاد کے پیش نظر کام کرتا۔ کسی ایک جماعت کو نواز دینا اور دوسروں کو محروم کر دینا ظلم ہے۔ اسی طرح داخلی تحفظ کے لئے پولیس کا نظام، خارجی تحفظ کے لئے دفاع کا نظام، حکومتی نظم و نسق کے لئے انتظامیہ، تعلیم و تدریس کے لئے تربیتی ادارے وغیرہ تشکیل دیے جاتے۔ واضح ہو کہ 1735 ء جب ابھی یورپ کے ہاں جمہوریت کا تصور نہیں تھا، شاہ صاحب اس وقت یہ بات کہہ رہے۔

ارتفاق چہارم میں بین الاقوامی نظام تشکیل دیا جاتا۔ جو ملکوں کے اجتماعی فائدے اور عدل کا کام کرتا۔ کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے امن و امان کو تباہ نہ کرے، منڈیوں پر قبضہ نہ کرے اس کے لئے یہ بین الاقوامی ڈھانچہ تشکیل دیا جاتا۔ یہ نظام تمام ممالک کا اپنی منشا مرضی سے تسلیم شدہ ہوتا، اس میں جبر شامل نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں کہ 5 ویٹو پاور رکھنے والے ممالک نے اپنا ضابطہ قانون بنایا ہوا اور 192 ممالک پر مسلط ہے۔

شاہ ولی اللہ نے اپنی سوسائٹی کا تجزیہ کیا جس میں انتشار فکر، فرقہ واریت، گروہیت، طبقاتی نظام اور فرسودہ خیالات و تصورات کے سبب معاشرے کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ آپ نے اس معاشرے کے لئے ایک عمرانی معاہدہ (Social Contract) کے تقاضوں کو سمجھا۔ اور برصغیر پاک و ہند کے اس متنوع معاشرے کی اجتماعی تشکیل کے لئے اپنا فلسفہ و فکر مرتب کیا۔ شاہ ولی اللہ رح کے ہم عصر روسو نے بھی یورپ کو تجزیہ کر کے معاہدہ عمرانی 1762 ء پیش کیا جس کے زیر اثر انقلاب فرانس آیا۔

مگر شاہ صاحب نے اپنا نظریہ اس سے بھی پہلے 1734 ء میں ”حجتہ اللہ البالغہ“ لکھی جس میں اپنا نظریہ اخلاق اربعہ پیش کیے۔ ایڈم سمتھ کی کتاب دولت اقوام 1776 ء میں سامنے آئی۔ اسی طرح کارل مارکس کی تصانیف 1867 ء تک منظر عام پر آئی۔ یعنی کہ شاہ صاحب نے ایڈم سمتھ کی کتاب سے 40 سال پہلے اور کارل مارکس کے نظریہ معیشت کے 150 سال پہلے شاہ صاحب نے اپنی کتاب حجتہ اللہ البالغہ تحریر کی جس میں معاشرے کی تشکیل کے بنیادی اصول وضع کیے۔

آج اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو اس میں بھی وہ ہی مسائل سرایت پذیر ہو چکے ہیں جو شاہ ولی اللہ نے اس دور میں پائے تھے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے مقامی فکر، روایت، تہذیب سے بھی وابستگی کے تناظر میں ان مسائل کا حل تلاش کریں۔ ان افکار کو جانیں جو برطانیہ کے زیر تسلط مسخ کر دیا گئے تھا۔ مغربی مفکرین کے انفرادیت پر مبنی فلسفہ جو ہمارے یہاں رائج ہے اس نے روز اول سے ہی ہمیں نقصان پہنچایا ہے۔ غلامی کے باقیات نے ہمیں فکری طور پر مغلوب کر دیا ہے۔ ان زنجیریں کو توڑ کر ہی ملک و قوم کی حالت میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments