انتہا پسندی کے گڑھ اسکول یا مدارس


”وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ انتہا پسندی کی بڑی وجہ مدارس ہرگز نہیں بلکہ اسکول اور کالجز ہیں جس میں 80 اور 90 کی دہائی میں منصوبے کے تحت ایسے اساتذہ بھرتی کیے گئے جو انتہاپسندی کی تعلیم دے رہے تھے۔“

90 کی دہائی کا دوسرا عشرہ ملک میں دو فرقوں کے درمیان قتل و غارت کے عروج کا دور تھا۔ اسی دور میں ملک کے دو بڑے مسالک کے بڑے بڑے علماء ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے گئے۔ نہ مجالس محفوظ ہوتی تھیں نہ محافل۔ ہر روز کوئی نہ کوئی فرقہ ورانہ قتل کی خبر آتی۔ اتفاق سے جس ایریا میں ہمارا اسکول تھا وہاں شیعہ آبادی تناسب کے لحاظ سے کچھ زیادہ تھی۔

اسمبلی کے بعد محرم کے دس دن ایک شیعہ عالم جو ٹیچر بھی تھے وہ 10۔ 15 منٹ کا درس سا دیتے تھے (انہیں صرف یہی دس دن پورے سال میں ملتے تھے ) ۔ ایک دن وہ نہیں آئے تو ایک دوسرے ٹیچر اسٹیج پر آئے اور بقول شخصے کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ موصوف لگے یزید کے گن گانے۔ دوران درس یزید کو ”رضی اللہ تعالیٰ“ کہہ دیا۔ ایک تو وہ دور ذہن میں رکھیں، پھر محرم کے دس دن ذہن میں رکھیں۔ اچھا خاصا شور ہوا اور اگلے ایک دوسرے صاحب نے رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ڈیفائن کیا۔ بات بڑی مشکل سے ٹلی۔

ہمارے ایک اسلامیات کے ٹیچر تھے عبداللہ صاحب (نام تبدیل کر دیا ہے ) آپ فرماتے تھے کہ اسلامیات کی برکت ہے کہ میرا رزلٹ 100 ٪ آتا ہے۔ باقی دنیاوی مضامین پڑھانے والوں کو دیکھو جیسے دنیا میں بھاگ رہے ہیں ویسے ہی آخرت میں بھاگیں گے۔

نویں دسویں کے پورے دو سال انہوں نے صرف عشرہ مبشرہ والا ٹاپک پڑھایا اور اگلے دن یاد کر کے آنے کو کہا۔ وہ ہر بچے سے انہوں نے وہ نام خود سنے۔ جیسے کہ میں نے پہلے بتایا جس علاقے میں ہمارا اسکول تھا وہاں شیعہ آبادی کا تناسب کچھ زیادہ تھا۔ یوں سمجھیں کہ ہماری 50 کی کلاس میں 10۔ 15 ہوں گے۔ اگلے دن اچھی خاصی تعداد میں لڑکوں کو مار پڑی۔ زیادہ تر صحابہ کے نام تو مجھے آتے تھے کچھ کے یاد کرنے پڑے تو میں نے الٹی ترتیب سنائے کہ جو یاد کیے ہیں وہ پہلے سنا دوں کیونکہ چار خلفا کے نام تو ویسے بھی آتے تھے۔ عبداللہ صاحب بولے ”اچھا علی پہلے عمر بعد میں؟“ کچھ دن بعد دسمبر کے ٹسٹ تھے میرے 100 میں سے 18 نمبر آئے۔

ایک دن کلاس میں آئے اور بولے ”کتنے بچے سمجھتے ہیں کہ انسان بندروں سے بنا ہے؟“

کسی نے ہاتھ کھڑا نہ کیا۔ بولے شاباش، بیالوجی پڑھو ضرور لیکن اعتبار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یقین بس قرآن کا کرو۔

میں حیران ہوتا ہوں یہ حال تعداد کے لحاظ سے پنڈی کے شاید سب سے بڑے سکول کا تھا تو باقی جگہوں پر کیا حال ہوتا ہو گا؟ خاص طور پر پنجاب کے دور دراز کے علاقوں میں؟ یہ واقعات 1995۔ 1997 کے ٹائم کے ہیں، شاید بعد میں حالات بدل گئے ہوں۔

میں نے TLP کے جلسے جلوس دیکھے ہیں سارے مظاہرین مدرسوں کے پڑھے نہیں ہیں وہ عام لوگ ہیں جو ہمارے درمیان ہی رہتے ہیں۔ بعید نہیں کہ یہ بات درست ہو۔ بڑی آسانی سے ہم کہہ دیتے ہیں کہ انتہا پسند مدارس سے آتے ہیں۔ وزیر اطلاعات کے اس بیان کے بعد اسکولوں میں دین سے متعلق مضامین پڑھانے والوں کا بھی سروے ہونا چاہیے کیونکہ یہ معلوم کرنا ازحد ضروری ہے کہ معاشرے میں انتہا پسندی کیوں اتنی تیزی سے سرایت کر گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments