کیا پھر کسی دباؤ کا وقت ہوا چاہتا ہے؟


کل ہفتے کو لاہور میں عاصمہ جہانگیر فاؤنڈیشن کی جانب سے ان کی برسی کے حوالے سے سیمینار میں دو اہم تقاریر سامنے آئیں۔ ایک تقریر علی احمد کرد صاحب کی تھی جو عام میڈیا کے بجائے سوشل میڈیا پر بار بار وائرل ہوتی گئی اور دوسری چیف جسٹس اف پاکستان کی تقریر تھی جو عام میڈیا کی زینت بنی۔ دونوں تقاریر اگر ایک جانب ایک دوسرے کی ضد تھی تو دوسری جانب ایک دوسرے سے نتھی بھی ہو رہی تھی یا یوں کہیں کہ علی احمد کرد صاحب کے عمل تقریر سے جو چیف جسٹس اف پاکستان کی جانب سے رد عمل تقریر آیا وہ گو کہ دفاعی تھا اور دفاعی ہی رہا کیونکہ اس میں جو انھوں نے دباؤ کی جو بات کی اگر اسی پر فقط فوکس کیا جائے تو انھوں نے حالت حاضرہ کے حوالے سے بہت کچھ سامنے لائے یا بہت حد تک واضح کیا اور جو جذبہ ان کی تقریر میں نظر آیا وہ آنے والے وقتوں میں ان کی سیاسی تقریروں کے لئے بھی کار آمد ہو سکتا ہے۔

علی احمد کرد نے پہلے عاصمہ جہانگیر کے فاونڈیشن کو آڑے ہاتھوں لیا اور جو موضوع اس کانفرنس کے لئے دیا گیا تھا اس پر موجودہ عدلیہ سے جوڑنے پر اپنے روایتی انداز میں سوالات اٹھائے جس کے جواب میں چیف جسٹس نے اپنی باری پر عدلیہ کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ یہ بھی متنبہ کیا کہ عوام کا عدلیہ پر سے اعتماد اٹھانے کی کوشش نہ کی جائے۔ عدلیہ کسی سے املا نہیں لیتی، میں نے اپنے پورے ٹینیور میں کسی کا املا نہیں لیا اور نہ کسی کی اب تک جرات ہوئی کہ وہ ان کو املا دیں۔

لیکن اخر میں جو بات انھوں نے کی وہ موجودہ حالات کے ماضی، حال اور مستقبل کی پوری تاریخ تھی اور وہ یہ کہ ماضی میں بھی عدلیہ پر دباؤ آئے ہیں اور عدلیہ کے ججز  نے ان کا ڈٹ کر سامنا کیا ہے اور جنھوں نے اس دباؤ کو قبول نہیں کیا وہ چھوڑ کر گھر چلے گئے۔ یہ وہ بات ہے جو بہت ساری باتوں، خیالات اور شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے۔ اور وہ یہ کہ اگر چیف جسٹس یہ کہ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں سے کوئی دباؤ ہے یا اگر دباؤ نہیں ہے تو پھر وہ سب ٹھیک ہے کی بات کوئی نہیں کرتے کیونکہ وہ ایک ایسی ذمہ دار سیٹ پر براجمان ہیں کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ گرد و پیش سے بالکل ناواقف ہوں۔

یہ ایک طے شدہ فارمولہ ہے کہ ایف اینڈ بٹ یا اردو میں اگر مگر کی بات لوگ اس وقت کرتے ہیں جب وہ غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہوں۔ اب چیف جسٹس اف پاکستان کے دباؤ کی یہ اگر مگر والی بات شک کو جنم دیتا ہے اور ایڈمنسٹریشن اف جسٹس کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ شک کا فائدہ ملزم کو جاتا ہے۔ اب اگر شک کا فائدہ خدا نخواستہ ملزم کی حق میں چلا جائے تو ایسی صورت میں مدعی یا استغاثہ پھر کیا کرے گا؟ گھر جا کے بیٹھ جائے گا یا پھر مزید سٹینڈ لے گا؟

اپیل میں جائے گا یا پھر ٹائم بارڈ کا مرتکب ہو گا؟ سیاسی آدمی آزاد ہوتا ہے وہ سٹیج پر بہت کچھ بول لیتا ہے بہت ساری باتیں جذبات اور سیاق و سباق سے ہٹ کر بھی بول لیتا ہے لیکن جب کوئی بندہ کسی ذمہ دار سیٹ پر ہوں تو ان پر بولنے کی کئی قدغنیں ہوتی ہیں وہ جذبات کے بجائے غیر جذبات کا سہارا لیتے ہیں ان کی ہر بات سیاق و سباق سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں، ان کی ہر بات کا وہی مطلب لیا جاتا ہے جو وہ کہہ رہے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس پھر سیاستدانوں کی طرح یہ ایکسکیوز نہیں ہوتا ہے کہ میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا یا میرے بیان کو سیاق و سباق سے الگ لیا گیا۔

کل کی چیف جسٹس صاحب کی تقریر میں اگر ہم ان کی اگر والے لفظ اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے دباؤ والے لفظ کو سیاق و سباق کے ساتھ پڑھ کر لیں تو اس کے عواقب کیا ہوں گے اور اگر ہم ان کی اگر اور دباؤ والے الفاظ کو متن کے ساتھ جڑ کر نہ پڑھیں تو ان کے اثرات کیا ہوسکتے ہیں اور ان الفاظ کو اگر خدا نخواستہ کل کچھ ہونے کے بعد تولیں، پرکھیں یا تجزیہ کریں تو اس کا فائدہ کیا ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بولنے والے کا کام بولنا ہوتا ہے اور سمجھنے والے کی ذمہ داری سمجھنا ہوتا ہے۔

بولنے والے نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہے اب سمجھنے والوں کی ذمہ داری ہیں کہ وہ اس بولے ہوئے جملوں کو کس کونٹیکٹس میں لیتے ہیں اور کس کونٹیکٹس میں نہیں لیتے لیکن جہاں تک دباؤ کی بات ہے وہ اپنی جگہ اب بھی موجود ہے اور موجود رہے گا جب تک اس پر کوئی عدم دباؤ نہیں اتا جیسے کسی عمل پر جب تک کوئی رد عمل نہیں اتا کیونکہ علی احمد کرد صاحب کے تقریر کا وہ حصہ کہ اب یہاں کوئی انٹلیکچوئل طبقہ نہیں اور نہ کوئی میڈل کلاس ہے اور جہاں یہ دونوں نہ ہوں وہاں اقتدار پر بہت چھوٹے چھوٹے لوگ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں، اب انکھوں میں انکھیں ڈال کر بات ہوگی یہ بیس کروڑ کا ملک ہے اور ایک جرنیل، ایک جرنیل، ایک جرنیل اس پر بھاری ہوتا ہے۔ شاید ان جملوں کا دباؤ ہی اتنا تھا کہ ان جملوں پر کوئی ردعمل ہی نہیں آیا اور اپنے دباؤ تلے بغیر ردعمل کے دب گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments