ذکر داریل تانگیر کا



”داریل تانگیر گلگت بلتستان کی حسین ترین وادیاں ہیں مگر ۔“
داریل تانگیر جیسی شاداب وادیاں کہیں اور نہیں مگر ۔
داریل تانگیر کے باسیوں جیسا مہمان نواز پورے علاقے میں نہیں مگر ۔

اسی طرح کے جملے بارہا سن کر تجسس اگرچہ آخری حدوں کو چھو رہا تھا مگر اس ایک لفظ ”مگر“ کے باعث خوف کبھی کبھی تجسس پر غالب آ جاتا اور ہم داریل تانگیر کی سیر کسی مناسب وقت آنے پر ٹال دیتے۔ ایک روز دفتری اوقات کے بعد اظہر نے چائے پر بلایا۔ میں اور عمر سیدھا اس کے دیوان خانے جا پہنچے۔ عمیر اور عظمت پہلے سے وہاں موجود تھے۔ ڈھلتی سردیوں کا موسم تھا۔ چائے کے سرور میں نئی جگہیں گھومنے کا تذکرہ نکل پڑا۔ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں نے ایک بار پھر سب کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ اس موسم گرما میں داریل تانگیر کی یاترا کو چلتے ہیں۔

”کیوں بھئی تمہیں اپنی زندگی عزیز نہیں؟ میں مقامی ہو کر ادھر جانے سے گھبراتا ہوں اور تم۔“ میرے ساتھ بیٹھے اظہر نے ٹہوکا دیا۔

عمیر نے موبائل سے نظریں ہٹا کر میری طرف دیکھا۔ اپنے ویپنگ (Vaping) سے طویل کش لیا اور دھویں کے بادل فضا میں چھوڑتے ہوئے اپنے مخصوص لہجے میں بولا! ”او بھائی تم رہنے دو ۔ ادھر اکیلے ہی جاؤ گے تم“ ۔

عمر پیچھے رہنے والوں میں کہاں تھا۔ فوراً لقمہ دیا ”ہمیں اغوا ہونے کا شوق نہیں۔ تمہیں ہے تو ضرور جاؤ۔“

ان تابڑ توڑ حملوں کے باعث میں اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ خاموشی سے سنتا رہا اور اس انتظار میں تھا کہ حسب عادت عظمت بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔ تاہم توقع کے برعکس الفاظ سن کر مجھے کچھ لمحے یقین نہ آیا۔ ”پا جی۔ چھڈو انا نوں۔ میں نے سب معلومات لے لی ہے۔ یہ لوگ بھلے نہ جائیں مگر ہم دونوں جون یا جولائی میں چلیں گے۔“

”یار ادھر کے لوگ بہت خطرناک ہیں۔ غالباً بیس برس پہلے میں داریل گیا تھا“ ۔ اظہر نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

کیا؟ سب نے یک زبان ہو کر حیرانی سے پوچھا۔ پہلے تو کبھی اس کا ذکر نہیں کیا۔

اظہر ہنستے ہوئے ہمیں اپنی سرگزشت سنانے لگا ”میرا ایک دوست جس کا تعلق داریل سے ہے، اس کا ایک عزیز فوت ہو گیا تھا۔ تعزیت کی خاطر اس کے ہمراہ جانا پڑا۔ ارادہ تھا کہ اسی روز شام ڈھلنے سے قبل لوٹ آئیں گے۔ لیکن۔ آپ وہاں جاتے تو اپنی مرضی سے ہیں مگر واپس ان کی مرض سے آتے ہیں۔ لہذا کچھ ایسا ہی ہوا اور میں بہت مشکل سے دو دن کے بعد واپس گلگت پہنچا۔“

کیا مطلب؟ اغواء کر لیا تھا انہوں نے؟ عظمت نے ازراہ تفنن پوچھا۔

اظہر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا۔ ”ہم گلگت سے صبح دم روانہ ہوئے۔ ڈھڑکتے دل اور انجانے خوف کے ساتھ وادی داریل جا پہنچے۔ دوست اگرچہ تسلی دے رہا تھا کہ گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ مگر وہاں کے باسیوں کے متعلق جو سن رکھا تھا اس کے باعث اگر بھنورا بھی پاس سے گزرتا تو میں اپنی جگہ پر پھدک پڑتا۔ دوست قہقہہ لگاتا اور میں شرمندہ سا ہو جاتا۔ ہم آبادی میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے جو قابل ذکر شے نظر آئی وہ لہلہاتے کھیت اور جھومتے درخت تھے۔

مناظر ایسے دلفریب کہ کچھ لمحوں کے لئے میں بھول گیا کہ یہ جگہ خطرناک بھی ہے۔ پھر میری نظر سامنے سے آنے والے چند لوگوں پر پڑی تو میرے اوسان خطا ہو گئے۔ سب کے شانوں پر بندوقیں لٹک رہی تھیں۔ ان کی عقابی نگاہوں نے جیسے میرے خوف کو بھانپ لیا تھا۔ تقریباً سبھی باریش تھے اور جارحانہ انداز میں ہماری طرف بڑھ رہے تھے۔ میرا دل تو شاید بجائے دھڑکنے کے پھڑک رہا تھا۔ سانسوں کو بھی کہیں پہنچنے کی جلدی تھی کہ بہت تیزی سے چل رہیں تھیں۔

میرے دوست نے انھیں دیکھ کر ہنستے ہوئے ہاتھ گھما کر اشارہ کیا۔ انھوں نے اسی انداز میں ہاتھ ہلایا اور دور سے ہی بلند آواز میں سلام کیا۔ اس دوستانہ ماحول کو دیکھ کر میرے اوسان بحال ہونا شروع ہوئے۔ انھوں نے نزدیک پہنچ کر ہمیں گلے لگایا اور باری باری اس زور سے بھینچا کہ سانس تو بند ہوتی مگر تھکاوٹ اترتی محسوس ہوئی۔

اظہر نے ہنستے ہوئے ایک لمحہ رک کر چائے کا گھونٹ بھرا۔ ناک سکیڑتے ہوئے کپ نیچے رکھا اور ملازم کو آواز دی۔ اس تجسس بھری داستان میں ہماری چائے بھی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ ملازم کو گرم چائے لانے کا بولا اور دوبارہ اپنا ماجرا شروع کیا۔

”جیسے جیسے ہم مطلوبہ گھر کی طرف بڑھ رہے تھے، رستے میں ملنے والا ہر شخص ہمارے قافلے میں شامل ہوتا جا رہا تھا۔ ہر فرد پرتپاک طریقے سے ملتا اور حال احوال دریافت کرتا۔ باوجودیکہ تقریباً سبھی اہل بندوق تھے مگر ماحول دوستانہ اور پرتکلف بن چکا تھا، جس کے باعث مجھے بھی اطمینان قلب نصیب ہوا۔ گھر تک پہنچے تو ایک کارواں ہمارے ہمراہ تھا۔

ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی خبر میزبانوں تک پہنچ چکی تھی۔ گھر کے سبھی مرد، پیر و جواں، دروازے پر استقبال کے لئے موجود تھے۔ میں نے موقع پا کر دوست کے کانوں میں سرگوشی کی کہ ہم تعزیت کرنے آئے ہیں کہ دعوت پر ؟

”یہ سب تمہاری وجہ سے ہے“ دوست نے جواب دیا۔ میں نے حیران ہو کر اس کی طرف دیکھا تو وہ ہنس کر بولا ”میں نے انھیں بتایا تھا کہ تم مہمان ہو، اس لئے سبھی آؤ بھگت کے لئے رسماً ہمارے ساتھ آرہے ہیں۔

میرے لئے یہ سب کچھ نیا تھا۔ ہر فرد گرم جوشی سے ملتا، خیریت دریافت کرتا کہ اسی اثنا میں ہم بیٹھک میں داخل ہو چکے تھے۔ کمرے کا اندرون روایتی تھا۔ فرش پر قالین بچھا تھا اور چاروں اطراف میں دیوار کے ساتھ ساتھ گدے لگائے گئے تھے جن پر جا بجا گاؤ تکیے بھی رکھے ہوئے تھے۔ میں نے بیٹھ کر ٹیک لگائی ہی تھی کہ چار لوگوں نے مجھے دبوچ لیا۔ دو افراد نے جو عمر رسیدہ تھے، میری ٹانگیں پکڑیں اور باقی دو نوجوانوں نے بازو۔

میں نے گھبرا کر ملتجیانہ نگاہوں سے دوست کی طرف دیکھا۔ وہ ہونٹ دانتوں تلے دبائے ہنس رہا تھا۔ ایک بزرگ نے چھوٹی عمر کے لڑکے کو آواز لگائی اور نجانے کیا کہا۔ چند لمحوں بعد وہ دوبارہ بیٹھک میں نمودار ہوا تو اس کے ہاتھ میں سرسوں کے تیل کی شیشی تھی۔ ایک بزرگ نے تیل ہتھیلی میں انڈیلا اور میرے پاؤں کی مالش شروع کردی۔ میں نے منع تو بارہا کیا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ میں بہت کسمسایا اور ہر چند لمحوں بعد انھیں باور کروانے کی کوشش کرتا کہ مجھے تھکاوٹ بالکل نہیں یا یہ کہ میری تھکاوٹ اتر چکی ہے۔

میں اپنی عمر سے بڑے لوگوں کو اس طرح خدمت کرتے دیکھ کر انتہائی حیا محسوس کر رہا تھا۔ مگر مجال ہے جو انھوں نے میری ایک بھی سنی ہو۔ محلے کے سبھی لوگ باری باری ملنے آتے رہے اور مجھے شہنشاہ اکبر سمجھ کر خدمت سر انجام دیتے رہے۔ بازؤں اور ٹانگوں کو نجات ملی تو شکم کی شامت آ گئی۔ ادھر سے خشک میوہ جات آرہے ہیں تو ادھر سے بھنی ہوئی ٹراؤٹ مچھلی۔ ایک تھالی میں مرغ مسلم لئے چلا آتا ہے تو دوسرا بکرے کے گوشت کی پلاؤ۔

کبھی گلاس میں لسی انڈیلی جا رہی ہے تو کبھی کپ میں قہوہ بھرا جا رہا ہے۔ غرض مجھے اس قدر عزت و پیار دیا جا رہا تھا جیسے میں آسماں سے اتری کوئی معزز ہستی ہوں۔ یہ تعزیت تو ہرگز نہیں مگر پر تکلف دعوت زیادہ دکھائی دے رہی تھی۔ چند پہر گزرے تو میں نے دوست کو چلنے کا اشارہ کیا۔ ہم نے رخصت چاہی تو نیا تماشا شروع ہو گیا۔ ہمیں مہمان مہمان کہہ کر ہر پیر و جواں نے روکنے کی بھرپور کاوش اور منتیں کیں۔ کوئی کہتا کہ ابھی ابھی تو آئے ہو۔

دوسرا کہتا کہ چند روز ٹھہر جاؤ وغیرہ وغیرہ۔ میں کسی طور راضی نہ ہوا تو نجانے کس لمحے ایک خاتون ٹوپی بند برقعے میں بیٹھک کے اندرونی دروازے پر نمودار ہوئیں۔ کچھ ساعت کے لئے سب پر خاموشی طاری ہو گئی۔ کسی نے سرگوشی کی کہ یہ بزرگ خاتون گھر میں تو کیا محلے میں سب سے معمر ہیں۔ پڑدادی کا درجہ رکھتی ہیں اور انتہائی معزز ہیں۔ ان کا کہا کوئی نہیں ٹالتا۔ میں نے تعظیماً سلام کیا۔ انھوں نے جواب دیتے ہی فوراً کہا :

بیٹا! دو دن ادھر ہی رک جاؤ۔ ہمیں مہمان نوازی کا موقع دو ۔ پہلی بار آئے ہو اور ابھی تو تھکاوٹ بھی نہیں اتری ہوگی۔

میں نے پس و پیش سے کام لیا اور بہانہ تراشنے کی سعی کی۔ اچانک کمرے کا ماحول تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ ہر سو چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ نرم و دوستانہ چہروں پر سختی عود کر آنے لگی۔ دوست میری طرف پلٹا اور دانت بھینچ کر کہنے لگا کہ اب انکار مت کرو ورنہ توہین کے زمرے میں اس علاقے میں تمہارا مقبرہ بن سکتا ہے۔ یہ سننا تھا کہ جیسے روح پرواز کر گئی ہو، حلق خشک ہو گیا اور ٹانگوں میں ہزاروں میل مسافت طے کرنے کے بعد کی تھکاوٹ لوٹ آئی۔

حالات سازگار ہوئے تو دوست نے بتایا کہ اول اول گھر کے افراد اور دیگر بزرگ مہمان کو ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ناکامی کی صورت میں آخری کاوش گھر کی سب سے عمر رسیدہ خاتون کے ذریعے کی جاتی ہے۔ یہ عزت دینے کا سب سے اونچا درجہ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اگر مہمان خاتون خانہ کو بھی انکار کر دے تو یہ نہ صرف پورے قصبے کی توہین سمجھی جاتی ہے الٹا مہمان سب کی دشمنی مول لے لیتا ہے۔

مرتا کیا نہ کرتا۔ میری ناؤ مہمان نوازی کے بھنور میں دو دن ہچکولے کھاتی رہی۔ رات گئے تک لوگ میرے دیدار کو آتے رہتے، خوش دلی سے خیریت دریافت کرتے، حالانکہ دو چار گھنٹے قبل وہ میری خدمت میں سلام عرض کر چکے ہوتے تھے۔ اونگھتے اونگھتے ”اونہہ“ کہہ کر جھٹکے سے میری آنکھ کھلتی تو وہ سمجھتے کہ میں ان کی بات سمجھ نہیں پایا اور وہ دوبارہ بلند آواز سے اپنی بات سنانا شروع کر دیتے۔ بازو اور ٹانگیں اس قدر دبائی گئیں کہ ہڈی ٹوٹنے اور عضو پچکنے کا خطرہ لاحق ہو گیا۔

کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ بالآخر اہل علاقہ کو مجھ پر ترس آ گیا اور دو دن کے بعد ہمیں رخصت کی اجازت مل گئی۔ الوداع اس طور سے کیا گیا کہ گویا دلہن کو رخصت کیا جا رہا ہو۔ لاکھوں دعائیں دی گئیں، ہزاروں نیک خواہشات اور صد ہا بار دوبارہ آنے کی تاکید کی گئی۔ ایک جلوس کے ساتھ ہم داریل سے روانہ ہوئے جو گاؤں کی حد تک ہمیں رخصت کرنے آیا تھا۔

اظہر نے ایک لمبا سانس لیا اور کہا! ”تو جناب یہ تھا میری زندگی کا داریل جانے کا پہلا تجربہ۔“

اظہر کی آپ بیتی ختم ہوئی تو ہماری ڈھارس بندھی اور ہم داریل جانے کے امکانات، نا ممکنات اور دیگر پہلوؤں پر غور کرنے لگے۔ انھی خوش گپیوں میں بات آئیں بائیں ہو گئی۔ تاہم میں اور عظمت وقتاً فوقتاً داریل جانے کی منصوبہ بندی کرتے رہتے۔

قسط نمبر 2
ہیلو میرے دوست! کیا آپ کے بچے نافرمان ہیں؟ عمیر نے اپنے مخصوص لہجے میں مجھ سے پوچھا۔
میں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا ”کیا مطلب؟“

دوست اگر آپ کے بچے آپ کا کہا نہیں مانتے یا تنگ کرتے ہیں تو ”بابا غندی“ کی کرامت سے وہ فرمانبردار بن سکتے ہیں۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ ”اس بار ہم چپرسن (Chiporsun) ، بابا غندی کے مزار پر جا رہے ہیں۔“ عمیر نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا ”لہذا کل جمعہ کی نماز کے بعد ہماری روانگی ہے۔

ہر جمعرات کو ہم آوارہ گردوں کا گروہ نئی جگہیں گھومنے کی منصوبہ بندی کرتا تھا اور فیصلہ ہونے کے بعد جمعہ کے روز مابعد دفتری اوقات منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جاتا۔

حسب معمول ہم تیاری کے ساتھ جمعہ کی صبح دفتر پہنچے۔ معلوم ہوا کہ عظمت گھریلو ذمہ داریوں کے باعث جانے سے قاصر ہے اور اظہر کے کراچی سے مہمان آئے ہیں، لہذا وہ بھی نہیں جا سکتا۔ دوسری خبر جو بالکل اچانک ملی وہ یہ تھی کہ پلان بدل گیا ہے اور ہم تینوں۔ عمر، عمیر اور میں۔ بابا غندی نہیں بلکہ داریل تانگیر جا رہے ہیں۔ یوں 25 ستمبر کی اس شام کو ہم گاڑی میں بیٹھے اور چلاس کی طرف روانہ ہوئے۔

میزبان کے ہاں پہنچے تو آٹھ بج چکے تھے۔ ان کا گھر ایک تاریخی عمارت ہے۔ تاج برطانیہ کے عہد کی ایک خوبصورت رہائش گاہ جو مکمل طور پر لکڑی سے تعمیر کی گئی ہے۔ اس گھر کو یونیسکو (UNESCO) کی عالمی ثقافتی ورثہ کی لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ اسی گھر میں بیٹھ کر میجر ولیم براؤن نے مشہور زمانہ کتاب ”بغاوت گلگت“ لکھی۔ یہ وہی میجر ہیں جنھوں نے بعد ازاں گلگت بلتستان کی آزادی میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ان کی خدمات کی بدولت حکومت پاکستان نے انھیں ستارہ امتیاز بھی عنایت کیا۔

ہمارے پہنچنے سے قبل ہی بلند و بالا درختوں کے سائے میں وسیع اور سرسبز لان میں کرسیاں میز لگا دیے گئے تھے۔ سلام و دعا کے بعد گفتگو کا سلسلہ چل پڑا۔ موسم خوشگوار تھا۔ میزبان ہمیں چلاس اور دیگر علاقوں کے بارے دلچسپ معلومات و تجربات بتاتے رہے۔ پرتکلف ڈنر کے بعد بارہ بجے تک ہنسی مذاق چلتا رہا۔ زبردستی اجازت لے کر ہم نے APA ہاؤس کی طرف رخ کیا تاکہ صبح وقت مقررہ پر داریل کی جانب روانہ ہو سکیں۔

کہا جاتا ہے کہ اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ (APA) کا یہ گھر 1836 ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ تاہم اس کی مرمت اور تزین و آرائش کچھ برس پہلے ہوئی۔ اس گھر کو پتھروں اور دیار کی لکڑی سے تعمیر کیا گیا ہے۔ گھر کا نقشہ سادہ مگر خوبصورت ہے۔ برآمدے میں مکمل طور پر دیار کی لکڑی لگائی گئی ہے جبکہ کمرے پتھروں اور لکڑی سے بنائے گئے ہیں۔ عہد رفتہ کی ایک اور مسحور کن نشانی۔ سوتے ہوئے احساس ہوا جیسے ہم دو صدیاں قبل ماضی میں پہنچ چکے ہیں۔ صبح جاگیں گے تو ہر سو ہندوستان اور برطانیہ کے باہم برسرپیکار کے قصے سننے کو ملیں گے۔

سویرے آنکھ کھلی تو روشنی ہر سو پھیل چکی تھی۔ باقی لوگ لان میں کرسیوں پر براجمان دھوپ سینک رہے تھے۔ بابوسر کی چوٹیوں پر خزاں اتر رہی تھی۔ عمیر DSLR کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے سبزی مائل پیلے درختوں کی تصویریں اتار رہا تھا۔ ناشتہ کرنے کے بعد منزل کی طرف روانہ ہوئے تو بارہ بج چکے تھے۔

داریل کی وادی چلاس شہر سے تقریباً اسی ( 80 ) کلومیٹر دور کوہستان کی جانب دریائے سندھ کے دائیں اور واقع ہے۔ سفر دو گھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے۔ شاہراہ قراقرم کو چھوڑ کر جونہی داریل جانے والی ذیلی سڑک پر مڑیں تو بائیں طرف چھوٹی بڑی سیاہ مائل بھوری چٹانیں بکھری ہوئی ہیں۔ اگر کوئی مقامی شخص راہنمائی کے لئے آپ کے ہمراہ نہ ہو تو شاید آپ انھیں عام پتھر سمجھ کر نظرانداز کر دیں اور آگے بڑھ جائیں۔ یہ سینکڑوں برس قبل مسیح میں یہاں بسنے والے بدھ مت کے پیروکاروں کی یادگار ہیں۔

ان پر ثبت عجیب نشانات، مختلف مخلوقات و شبیہات اور بدھا کی تصویریں انسان کو ایک جادوئی دنیا کے تصور میں لے جاتی ہیں۔ یہ چٹانیں صدیوں سے، بپھرے سندھ دریا کا شور سن رہی ہیں، چلچلاتی دھوپ اور کڑک سردی کو سہتی ہوئی آج تلک اپنی جگہ پر قائم عہد رفتہ کا پیامبر بنی ہوئی ہیں۔ مگر افسوس کہ ارباب اختیار کو ان کی ذرا پروا نہیں۔ ان کے گرد کوئی حفاظتی حصار ہے نہ سیاحوں کی راہنمائی کے لئے بورڈ موجود ہے۔ بقیہ کسر ان بے شعور لوگوں نے نکال دی ہے جنھوں نے ان پتھروں پر اپنے نام لکھ کر یہ اثرات مٹانے کی کوشش کی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بدھ مت اس علاقے میں 150 قبل مسیح میں ظاہر ہوئی۔ پورے گلگت بلتستان میں بدھ مت کے اثرات آج بھی نمایاں ہیں اور کئی مقامات پر سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ شاید ایک وجہ یہی ہے کہ اس علاقے کے لوگ بدھ متیوں کی امن پسندانہ وراثت کے جانشین ہیں اور صدیوں پہ محیط اس روایت کے باعث یہاں کے باسی مجموعی طور پر سلامتی پسند ہیں۔

طاقتور سندھ دریا کو عبور کر کے جیسے ہی داریل کی طرف مڑیں تو سبز پانی اور دودھیا لہروں والا نالہ (Rivulet) آپ کا استقبال کرتے ہوئے گدلے و مٹیالے دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ کثافتوں میں فرق ہونے کے باعث، سبز پانی تھوڑی دور تک گدلے دریا میں ایک لہر بناتا ہے جو قابل دید منظر ہے۔ اس حسین ملاپ کو شاہراہ قراقرم پر کھڑے ہو کر دیکھا جا سکتا ہے۔ داریل کی آخری آبادی تک یہ سبز پانی بل کھاتا ہوا ساتھ ساتھ چلتا ہے۔

تمام وادیاں کہساروں کے دامن میں واقع ہیں۔ اس لئے خزاں اور بہار کے نظارے بھی کم و بیش مماثل ہوتے ہیں۔ دریا، ندی یا چشمے بھی اپنے شفاف نیلے اور سبز پانی کے ساتھ سانپ کی مانند بل کھاتے ہوئے بہہ رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک وادی دوسری کسی وادی سے ماسوائے کہساروں کی خاص شان و شوکت کے مختلف نہیں ہوتی۔ تاہم داریل اور تانگیر اس لئے بھی تھوڑی مختلف ہیں کہ یہاں ہریالی اور لہلہاتے کھیت بنسبت زیادہ ہیں۔ خشک اور سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے جب ایک دم سرسبز وادی میں داخل ہوں تو آنکھوں کو طراوت اور دل کو سکون بخشنے والے مناظر کے باعث آپ فطری حسن میں کھو جاتے ہیں۔

داریل تانگیر کی خوبصورتی بارے جو سنا تھا وہ سچ سے بڑھ کر پایا۔ زمرد دریا کے اطراف میں مکئی کے سنہرے لہلہاتے کھیت تاحد نظر پھیلے ہوئے تھے۔ شاداب اور بلند و بالا درخت اس فطری حسن میں گہنوں کی صورت دلکشی کو مزید چار چاند لگا رہے تھے۔ پرندوں کے نغمے جیسے بانسری کی طمانیت بخش موسیقی ہوں۔ منظر حقیقی طور پر ایسا تھا کہ جنت کا گماں ہو رہا تھا۔ فصلوں کے بیچ لکڑی اور پتھروں سے بنے گھر افسانوی محل سراؤں کی تصویر کشی کر رہے تھے۔

دلفریب مناظر کو آنکھوں میں سموتے اور یادوں کا ابدی حصہ بناتے ہوئے ریسٹ ہاؤس پہنچے تو طاہر صاحب نے ہمارا خیرمقدم کیا، جنہیں پیشگی اطلاع کر دی گئی تھی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان دونوں وادیوں میں مقامی و غیر مقامی سیاحوں کی آمد نہ ہونے کے برابر ہے، اس لئے ٹھہرنے کے لئے سرکاری ریسٹ ہاؤس کے علاوہ کوئی دوسری راہ نہیں۔ عصر کا وقت ہو چکا تھا۔ تازہ دم ہوئے تو صلاح یہی ٹھہری کہ اندھیرا ہونے سے پیشتر وادی دیکھنے کے لئے تھوڑا آگے تک جایا جائے۔

ویسے بھی حفاظت کو مد نظر رکھتے ہوئے دور تک جانا قطعی درست نہ تھا۔ فلک بوس پہاڑوں کے سبب ان علاقوں میں عصر کے بعد مغرب کے سمے کا گمان ہوتا ہے۔ لہذا طاہر صاحب ہمیں وادی کے اندر پہاڑ کے اوپر ایک ایسے مقام پر لے گئے جو نظارہ گاہ کے اعتبار سے دامن کوہ یا مونال تھا۔ اللہ اللہ۔ کیا دل لبھانے والا منظر تھا۔ وادی میں دور تلک پھیلے زریں کھیت اور ان کے اطراف میں بلند سرسبز درخت جیسے کھیتوں کے پاسبان ہوں۔ چہچہاتے پرندے ایک پیڑ سے دوسرے پیڑ تک گویا پیغام رسانی کر رہے تھے۔

کچھ من چلے شفاف فضا میں اڑانیں بھر رہے تھے۔ مخروطی گھروں کی چمنیوں سے اداس دھواں کاہلی سے نکلنا شروع ہو گیا تھا۔ دائیں طرف پہاڑوں کی چوٹیوں پر سنہری دھوپ ڈھل رہی تھی۔ نیلے آسماں پر تازہ دھنکی ہوئی روئی کے گالوں جیسے بادل جابجا بکھرے ہوئے تھے۔ من میں آرزو پیدا ہوئی کہ کاش مجھے بھی پر لگ جائیں اور میں پنچھی کی مانند اس معطر اور مصفا فضا میں اڑانیں بھروں، شاداب وادیوں میں گھوموں۔

ہم محو منظر تھے کہ چند مقامی افراد سیب، ناشپاتی اور اخروٹ لئے وارد ہوئے۔ جو انسانی محبت کی مٹھاس اور قدرتی رس سے معمور تھے۔ اس مقام سے واپسی پر طاہر صاحب کی پیروی کرتے ہوئے ایک نئے رستے پر ہو لئے۔ یہاں کے گھروں کی ایک ممتاز خاصیت جو کہ شاید پاکستان کے کسی اور علاقے میں نہیں پائی جاتی وہ یہ ہے کہ ہر گھر میں ایک کونے پر مینار کی صورت حفاظتی مورچہ (Guard Tower) ضرور تعمیر کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بوجہ عداوت یہ مورچے بنانا وقت کا تقاضا سمجھا جاتا تھا۔ اب حالات پہلے کی نسبت پرامن ہو چکے ہیں (اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ دو دن کی سیر میں ہمیں ایک بھی اسلحہ بردار شخص نظر نہیں آیا) ۔ تاہم یہ مورچے بنانا اب فیشن اور رواج بن چکا ہے۔

گاڑی رکی تو طاہر صاحب نے بتایا کہ گاؤں کے ایک معزز شخص کا بھائی وفات پا چکا ہے اور وہ مصروفیت کے باعث تعزیت نہ کر سکے۔ اس لئے انھوں نے بہتر یہی جانا کہ دعا کرتے چلیں۔ یہ سننا تھا کہ عمر، عمیر اور میں نے تعجب سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور شرارتاً ہنسنے لگے کہ کہیں اظہر والی داستان و تاریخ دہرائی تو نہیں جانے لگی۔ عمر آہستہ سے بولا ”بھائیوں! پھر کتنے دن رکنے کا ارادہ ہے؟“ عمیر نے فوراً ً جواب دیا ”بیٹا۔ تیرا وزن ہم سب سے زیادہ ہے اس لئے تجھے تھکاوٹ بھی زیادہ ہوگی اور جس کا مطلب ہے سرسوں کے تیل سے مالش۔“

درختوں کے سائے میں تروتازہ گھاس پر قالین بچھا ہوا تھا جس پر چوکور انداز میں گدے ڈال دیے گئے تھے اور گاؤ تکیے بھی رکھے تھے۔ سلام و تعارف کے بعد ہم بیٹھے ہی تھے کہ اخروٹ سے بھری پلیٹیں ہمارے سامنے رکھ دی گئیں۔ پھر بھنے ہوئے بھٹے ہر شخص کو پیش کیے گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے چاروں طرف ایک جمگھٹا سا لگ گیا۔ بچے بڑے سبھی گھاس پر بیٹھ کر ہمیں ایسے تکنے لگے جیسے کوئی خلائی مخلوق ہوں۔ چائے اور دیگر لوازمات حاضر ہوئے تو ہمیں کھٹکا لگا کہ کہیں اظہر والا قصہ دوبارہ ہونے لگا ہے۔ لہذا طاہر صاحب کو رخصت کی اجازت لینے کا کہا تو کچھ وقت میزبان کو قائل کرنے میں صرف ہو گیا۔ وہ مصر تھے کہ ہم رات انہیں کے ہاں گزاریں۔ گاڑیوں تک واپس پہنچے تو آدھا گاؤں ہمیں الوداع کرنے کے لئے امڈ آیا تھا۔ آنکھوں میں بے لوث محبت و عزت لئے ہر فرد ہاتھ ہلا کر الوداع کر رہا تھا۔

فطرت کے قریب، پرخلوص اور مہمان نواز لوگوں کی وادی میں ہم نے رات گزاری۔ صبح ناشتے کے بعد واپسی پر بدھ مت کی قدیم درسگاہ دیکھنے کے لئے روانہ ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بدھ مت کی سب سے قدیم اور بڑی درسگاہ ہوا کرتی تھی۔ مگر اب یہ محض خاک کے تودوں اور مخدوش دیواروں کے سوا کچھ نہیں۔ بے توجہی و لاپروائی کے باعث باقی ماندہ اثرات بھی زائل ہو رہے ہیں۔

داریل سے نکلے تو وادی تانگیر کی طرف رخ کیا جو کہ چلاس سے چھیاسی ( 86 ) کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ دونوں وادیوں میں باہم فاصلہ زیادہ نہیں۔ یہ ایک دوسرے کے متوازی ہیں مگر جغرافیائی قدغن کی بدولت مسافت ایک گھنٹہ بن جاتی ہے۔ داریل سے واپس شاہراہ قراقرم پر آنے کے بعد ، کوہستان کی جانب چھ کلومیٹر کے فاصلے پر بعینہ دریا سندھ کو عبور کر کے دائیں طرف ذیلی سڑک تانگیر کو جاتی ہے۔ دونوں وادیوں کو بہنیں یا ہم جولی کہا جائے تو مضائقہ نہیں۔

تانگیر بھی داریل کا پرتو ہے۔ یہاں کے بازار میں ایک دکان کے باہر میں نے بہت دلچسپ جملہ پڑھا۔ یہاں پر ہر قسم کا سامان رعایت اور انصاف کے ساتھ موجود ہے کے علاوہ دانشور نے لکھا تھا ”جو شخص غیر ضروری سامان خریدتا ہے وہ ایک دن اپنے گھر کا ضروری سامان بیچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔“ یقیناً اتنا بے لوث دکاندار آپ نے کہیں نہیں دیکھا ہو گا۔

ہم دوستوں کا گروہ بہت وادیاں گھوما اور جھیلوں کی سیر کی۔ مگر میں نے ان کے بارے میں کبھی نہیں لکھا۔ جبکہ مصروفیات کے باوجود داریل تانگیر کے متعلق ایک سیاحتی روداد لکھ ڈالی۔ محض ایک وجہ سے کہ یہ وادیاں دنیا کی نظروں سے ابھی تک اوجھل ہیں۔ ان وادیوں میں بھی بہت سی جھیلیں ہیں۔ یہاں کی ٹراؤٹ مچھلی کا ذائقہ الگ ہے۔ یہاں کا راجمہ اور اخروٹ بہت مشہور ہے۔ یہاں کے باسی سارا سال مکئی کا آٹا استعمال کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی مہمان نوازی کے گن پورا گلگت بلتستان گاتا ہے۔

اگرچہ یہ قدامت پسند (conservative) لوگ ہیں مگر محبت سے رام ہو جاتے ہیں۔ ان علاقوں کی پس ماندگی کا سبب ارباب اختیار کا تغافل ہے۔ وہ ان علاقوں میں سیاحت کو فروغ دینے میں سراسر ناکام رہے ہیں۔ اگر یہاں بھی سہولیات میسر ہوں تو یقین جانیں کہ بہت سے مشہور علاقوں میں جانے کے بجائے سیاح ادھر کا رخ کریں گے۔ ان وادیوں کی سیر کو قلمبند کرنے کا مقصد دنیا کی توجہ ان کی طرف دلانا ہے۔ امید ہے کہ اپنے حصے کا کچھ کام میں نے کر دیا ہے۔ باقی آپ سب مل کر کریں گے تو ایک نئی جنت کو ڈھونڈ نکالیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments