عورت کی خرید و فروخت۔ زبانی نکاح۔ کی ورڈز


تین چار دنوں سے مالٹے کھانے کو بہت دل کر رہا تھا۔ جب بھی بہاول پور میں ٹھنڈ بڑھتی اور دھند چھا جاتی ہے، میرے اندر مالٹے اور سٹرس فروٹس کھانے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کوئی مجھے مالٹے چھیل کر دے۔ بڑی بہن مالٹے چھیل کر قاشیں الگ کر کے پلیٹ میں رکھ دیتی ہیں۔ میں ہر قاش کانٹے میں پرو کے نمک اور کالی مرچ لگا کے کھاتا ہوں۔ چند دن پہلے فروٹ والی ٹوکری مالٹوں سے بھر کے رکھ دی۔ ایک بھی نہ کھا پایا۔

بتایا نا کوئی مالٹے چھیل کر دے تو کھاؤں۔ پھر ماسی، صفائی اور کپڑے دھونے کے لیے آئی۔ میں نے کہا، سارے لے جاؤ۔ ملا کو ملنے گیا تو وہ بولا، ”اکبر بھائی! آپ کو واک سے روکنے کے لیے سارا شہر کینٹنرز لگا کے بند کیا جا چکا ہے“ ۔ دور بہت دور ایک گاؤں میں ایک بی بی بولی، ”گاؤں والو! بڑے چودھریوں نے تمہارے چھوٹے سے گاؤں کے وسائل ایک بڑے گاؤں میں خرچ کر کے تمہارے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔ چودھریوں نے بھی کہلوا بھیجا،“ بی بی! جب تیرا ابا اور چاچا گاؤں کے سر پنچ تھے اور انھوں نے اس چھوٹے گاؤں کے وسائل بڑے گاؤں کی بال بتیوں میں نئے قمقمے لگانے کے لیے خرچ کیے تو اس وقت تو کہاں تھی؟ ”۔ بی بی کے ساتھ آیا ایک باریش شخص بھی چودھریوں کے خلاف بولا۔ ایک خرگوش نے گاجر کو دانتوں سے کاٹا اور کہا،“ یہ باریش شخص جس گاؤں سے ووٹ لیتا ہے، وہاں اچھے لوگ بھی رہتے ہیں لیکن گاؤں کی ایک نکڑ پہ رہنے والے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی سگی بہنوں اور بیٹیوں کو رقم کے عوض فروخت کر دیتے ہیں۔

فروخت شدہ عورت جب بیوہ ہو جائے تو بھی اسے واپس میکے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ سسرال والوں کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ چاہیں تو اسے آگے کسی اور کے ہاتھ بیچ دیں۔ ”اپنی بات کو بڑھاتے ہوئے خرگوش بولا،“ نہ تو کبھی اس باریش شخص نے اور نہ کبھی اس کے ساتھیوں نے عورت پہ ہونے والے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ یہ چاہتے تو گاؤں کے نکڑ پہ ہونے والا یہ ظالمانہ رواج ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا لیکن اس کے اپنے ساتھی عورت کی اس خرید و فروخت میں ملوث ہوتے ہیں، وہ کیا آواز اٹھائیں گے؟

”۔ پاس سے گزرتا رنگین پروں والا اصیل مرغا بولا،“ آواز تو اس ظلم کے خلاف انھوں نے بھی کبھی نہیں اٹھائی جو کہتے ہیں ٹخنوں کو ننگا اور سر کو گنجا رکھنے اور کمر پہ لوٹا لٹکانے سے جنت ملتی ہے۔ ”۔ مرغے نے بات بڑھاتے ہوئے کہا،“ جب دو بڑے چودھریوں کے درمیان پانی کے کھال کے تنازعہ پہ لڑائی ہوئی تھی تو وہ جنہوں نے کتنی ماؤں کے بیٹے چودھریوں کی اس پراکسی وار میں اس لیے مروا دیے تاکہ اپنی پرانی کھمچر سائیکل کو پی پی پاں پاں گاڑی میں تبدیل کر سکیں تو انھوں نے بھی اس ظلم کے خلاف اپنے لب سیے رکھے۔

”۔ درخت پہ بیٹھے سفید کبوتر نے قہقہہ لگایا اور بولا،“ ان ماؤں کو تسلی دینے کے بعد کہ اپنے بیٹوں کے ذبح ہونے سے اب تم جنت کی حقدار ہو چکی ہو، انھوں نے اپنے پیروکاروں کو بھی یقین دلایا کہ چودھریوں کی اس پراکسی وار میں تم زندہ بچ گئے تو حسین عورتیں تمہاری لونڈیاں ہوں گی۔ چاہو تو اپنے پاس رکھو اور چاہو تو آگے بیچ دو اور اگر مر گئے تو جنت میں حوریں ملیں گی۔ ہاں، لڑائی کے دنیاوی فوائد صرف چودھری سمیٹیں گے۔ ہمارے پیارے پیرو کارو! دنیا سے بھلا تمہیں کیا لینا دینا؟ دنیا تو ہے ہی دھوکے کی جگہ۔ ”۔ ٹاہلی کے درخت پہ بیٹھے نیل کنٹھ نے کہا،“ ہر گاؤں کے عوام ڈگڈگی پہ ناچنے والے بندر ہوتے ہیں۔ ڈگڈگی وہی رہتی ہے بس بجانے والا تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ ”

اسی شام اکبر شیخ اکبر نے مالٹا کھایا اور شعر گنگنایا۔
انتظار وصل یار اور تڑپ تڑپ کے جینا اکبر میاں
شدت درد اور رات طویل، جانے صبح ہو نہ ہو

جیسے ہی ٹھٹھرتی شام دھند کے ساتھ بڑھتے اندھیرے میں تبدیل ہوئی اور پرندوں نے درختوں کی شاخوں میں بولنا بند کر دیا گویا مراقبہ میں جا کے خدا کو محسوس کرنا چاہتے ہوں تو اکبر شیخ اکبر نے ٹمٹماتے زرد بلب کی مدھم روشنی میں بھاپ اگلتی چائے کے سپ لیتے ہوئے ایک نظم پڑھی۔

دور بہت دور کسی ندیا کے کنارے
جب تم گنگناؤ گے
اکبر میاں کو یاد آؤ گے
بچھڑے تھے ہم کونجوں کی طرح
بہتے پانی کو بتاؤ گے
جدا ہوتے کیا تم نے سوچا تھا
اپنے دکھ پھر کس کو سناؤ گے
تنہائی کی سرد رات میں
میری یادوں میں کھو جاؤ گے
اپنے آپ کو ہی رلاؤ گے
دور بہت دور کسی ندیا کے کنارے

ملا کی دکان کے پاس شادی ہال میں ڈھول بجایا جا رہا تھا۔ خیال ہے کہ شرعی نکاح کی آڑ میں زبانی نکاح بھی عورت کا بہت بڑا استحصال ہے۔ شوہر کا دل بھر جائے تو لات مار کے نکال دے۔ وہ عورت عدالت میں اپنی شادی کو ثابت کیسے کرے؟ کیا حکومت قانون سازی کر کے زبانی نکاح پہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پابندی نہیں لگا سکتی نہ صرف مقامی باشندوں پہ بلکہ شمال کے ملک سے آنے والے مہاجرین پہ بھی۔ قانون سازی کر کے ہر تحصیل، تعلقہ ہیڈ کوارٹرز میں شادی کورٹس بنائی جائیں جہاں جج کے سامنے کیمرہ ریکارڈنگ میں دلہا دلہن کا نکاح ہو۔

عدالت میں بیٹھا نادرا کا عملہ اسی وقت اپنے کمپیوٹر میں نکاح کا اندراج کرے۔ پھر بعد میں جب چاہیں دلہن کی رخصتی کریں۔ قانون ہو کہ کوئی بھی شخص اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو پہلے ”طلاق عدالت“ میں درخواست دائر کرے۔ قانون ہو کہ بیوی کو زبانی طلاق دینے یا اگر تحریری بھی دے لیکن ”طلاق عدالت“ کو بیچ میں لائے بغیر تو اس جرم میں مرد کو جیل بھیج دیا جائے۔ قانون ہو کہ اگر عورت طلاق نہیں لینا چاہتی لیکن مرد اپنی مرضی سے دینا چاہتا ہے تو پھر مرد کی جائیداد کا نصف یا چوتھائی یا قانون میں طے شدہ کچھ حصہ عورت کے نام پہ منتقل ہو جائے گا او ر طلاق عدالت کے اندر ہی مستقلاً بیٹھے ہوئے محکمہ مال والے ون ونڈو آپریشن کے تحت جج کے فیصلے کو ہی عورت کے نام جائیداد منتقلی میں تبدیل کر دیں۔

مرد اگر جائیداد نہ رکھتا ہو تو کچھ نقد رقم بطور جرمانہ عورت کو ادا کرے۔ ہاں، اگر عورت اپنی مرضی سے خلع لیتی ہے جبکہ مرد اسے بسائے رکھنا چاہتا ہے تو قانون کے تحت اس کے حق مہر سے کچھ حصہ مرد کو واپس کر دیا جائے۔ اگر حکومت اکبر شیخ اکبر کی ان تجاویز کو قانون کی شکل دیتی ہے تو نکاح نامہ میں شرائط کے خانے رکھنے کی ضرورت نہ ہو گی۔ حق مہر کی رقم کتنی ہو؟ یہ بھی حکومت قانون سازی کر کے خود ہی طے کر دے۔

انٹرنیٹ پہ بطور فری لانسرز کام کرنے والے دوستوں کو پراجیکٹس نہ ملنے کا مسئلہ درپیش ہو تو ان کے لیے مشورہ ہے کہ آفر، پروپوزل، بلاگ، ٹائٹل، ڈسکرپشن اور ٹیگز وغیرہ بناتے وقت وہ ”کی ورڈز“ استعمال کریں جو سرچ انجن میں دنیا بھر سے بطور سوال استعمال ہو رہے ہوں۔ یہ الفاظ آپ کو گوگل ٹرینڈز سے بھی مل سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے آپ سرچ انجن میں بڑی جلدی رینک ہو جائیں گے اور آپ کی طرف انٹرنیٹ ٹریفک اور پراجیکٹس بھی جلدی آئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments