وحید مراد: سانولی رنگت اور بڑی بڑی آنکھوں والا ہیرو، جس کی مقبولیت سے ہیروئنز کے شوہر بھی خائف تھے

طاہر سرور میر، طارق مسعود - صحافی، لاہور


دلوں میں اتر جانے والوں کو موت نہیں آیا کرتی، موت اُن کی روح کو لے اڑے یا جسموں کو فنا کر ڈالے وہ زندہ رہتے ہیں کیونکہ دلوں کے رشتے اٹوٹ ہوتے ہیں۔

اس کی زندہ مثال وہ اداکار ہیں جنھوں نے اپنے جداگانہ انداز، دل موہ لینے والی اداؤں، بڑی بڑی مخمور آنکھوں، منفرد ہیئر سٹائل، جاذب نظر متوازن سراپے اور شوخ اداکاری کے بل پر لاتعداد دلوں میں کچھ یوں گھر کر لیا کہ آج اُن کی موت کو چار عشرے ہونے کے قریب ہیں لیکن ہر آنے والا دن وحید مراد کی شہرتوں کو دوام بخش رہا ہے۔

وحید مراد معروف فلم ڈسٹری بیوٹر نثار مراد کی اکلوتی اولاد تھے۔ نثار مراد کے ہاں کسی شے کی کمی نہ تھی اور اُن کا شمار متمول لوگوں میں ہوتا تھا۔ نثار مراد اور ان کی اہلیہ شیریں مراد نے اپنی اکلوتی اولاد کے لیے اپنی محبتوں کے در وا کر دیے۔ دنیا کی ہر نعمت اس بچے کے اشارہ ابرو کی منتظر رہتی۔

انھی محبتوں کے سائے میں پل کر جوان ہونے والا ویدو ( وحید مراد ) بھی والدین کی ہر خواہش پر پورا اترتا رہا۔ گریجویشن کے بعد وحید مراد نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے انگلش لٹریچر بھی کر لیا۔

اوائل جوانی اور دوران تعلیم وحید مراد کی گہری نگاہ اپنے والد کے کاروبار پر رہی اور انھوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ وہ حصول تعلیم کے بعد والد کے شعبے میں اپنے ٹیلنٹ کو آزمائیں گے۔

والدین نے بھی بیٹے کی خواہشات کو مقدم سمجھا اور انھیں اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا حق دیا۔

زیبا نے ویدو کو کیا مشورہ دیا تھا

وحید مراد نے حصول تعلیم کے بعد اپنا فلمی سفر اپنے والد نثار مراد کے فلمساز و تقسیم کار ادارے ’مراد فلم کارپوریشن‘ کے بینر تلے ذاتی فلم ’جب سے دیکھا ہے تمہیں‘ سے کیا اور اس کے بعد ’انسان بدلتا ہے‘ بھی پروڈیوس کر ڈالی۔

ان فلموں کی تکمیل کے دوران فلمسٹار درپن نے انھیں خاصا تنگ کیا کیونکہ وحید مراد کا تعلق کراچی سے تھا اور دونوں فلمیں بھی وہیں بنی تھیں اور دونوں میں ہیرو کا کردار درپن ادا کر رہے تھے جو لاہور سے مقررہ وقت پر کراچی نہ پہنچتے اور وحید مراد کو خاصا نقصان اٹھانا پڑتا۔

درپن کی طرف سے دی جانے والی پریشانی میں بھی کچھ راز پنہاں تھی۔ درپن کے انتظار نے فلمساز وحید مراد کو پریشان کر دیا تو ایسے میں ان کی فلم کی ہیروئین زیبا بیگم نے اُن کو ایک ایسا مشورہ دیا جس نے وحید مراد کی زندگی کی کایا ہی پلٹ ڈالی۔

زیبا بیگم نے وحید مراد سے کہا کہ ’ویدو تم خود کیوں ہیرو نہیں بن جاتے ،تم میں کس بات کی کمی ہے۔‘ وحید مراد نے برجستہ جواب دیا کہ ’نہیں میری رنگت گہری سانولی ہے، میں یہ رسک نہیں لے سکتا۔‘

لیکن درحقیقت زیبا بیگم کی کہی ہوئی بات وحید مراد کے دل کو بھا گئی اور انھوں نے مشورے پر عمل کرنے سے پہلے خود کو فلم کے پردے پر آزمانا چاہا اور ایس ایم یوسف کی فلم ’اولاد‘ میں کام کرنا قبول کر لیا۔

یوں کیمرے کے پیچھے کھڑا وحید مراد جب کیمرے کے سامنے آیا تو کیمرے نے کمال گرمجوشی سے اسے خوش آمدید کہا۔

کیمرے کی قبولیت کے بعد وہ دیکھنے والوں کی نگاہوں کو کچھ یوں بھائے کہ دیکھتے ہیں دیکھتے ہر نگاہ کا مرکز اور دل کی دھڑکن بن بیٹھے اور زیبا بیگم کا ویدو کو دیا ہوا مشورہ کارگر ثابت ہوا اور وہ فلمساز سے فلم ہیرو بن گئے۔

دلیپ کمار اور وحید مراد میں کیا قدر مشترک تھی؟

وحید مراد اپنے والدین کے ہی اکلوتے نہیں بلکہ فلمی دنیا میں بھی یکتا اور منفرد اداکار تھے۔

اُن کی چال ڈھال، نشست و برخواست اور انداز و گفتار کسی دوسرے فنکار سے میل نہ کھاتے تھے۔ انھوں نے اداکاری کے نئے اسلوب متعارف کروائے، اپنے کرداروں میں حقیقت سے قریب ترین ایکسپریشن اور ڈائیلاگ ڈلیوری کو اپنایا، گانے کی پکچرائزیشن میں ان کا انداز اس قدر جاذب نظر تھا کہ ساتھی اداکاروں کے علاوہ ہمسایہ ملک کے اداکار بھی مرعوب ہوئے بنا نہ رہ سکے۔

ان کا سراپا گانے کی دھن سے کمال انصاف کرتا، ان کے جسم کا ہر ہر عضو اور خصوصاً پاؤں موسیقی کے سموں کے ساتھ کھیلتے ہوئے محسوس ہوتے۔ اُن کا منفرد ہیئر سٹائل اُن کے چہرے کو مزید دلکش بنا دیتا اور برصغیر میں دلیپ کمار کے بعد وحید مراد کے ہیئر سٹائل کو سب سے زیادہ اپنایا اور پسند کیا گیا۔

’ہیرا اور پتھر‘ نے سٹار، اور ’ارمان‘ نے سپر سٹار بنا دیا

فلم ’اولاد‘ کی کامیابی کے بعد وحید مراد ایک بار پھر ذاتی پروڈکشن کی جانب لوٹ آئے اور فلم ’ہیرا اور پتھر‘ کا آغاز کیا جس نے انھیں مکمل ہیرو بنا دیا اور رہی سہی کسر فلم ’ارمان‘ نے پوری کر دی اور وہ پاکستان فلم انڈسٹری کے سپر سٹار بن گئے۔

ان دونوں فلموں میں وحید مراد کی ہیروئین وہی زیبا بیگم تھیں جنھوں نے وحید مراد کو پروڈیوسر سے ہیرو بننے کا قیمتی مشورہ دیا تھا۔

کراچی چھوڑنا مشکل تھا لیکن لاہورمیں تابناک مستقبل منتظر تھا

وحید مراد ذاتی سرمائے سے بننے والی فلموں ’ہیرا اور پتھر‘ اور ’ارمان‘ کی گولڈن اور پلاٹینم جوبلی کے ذریعے سپر سٹار بنے تو لاہور کی فلم نگری نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔

کراچی کو چھوڑنا ان کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف تھا لیکن بہترین مستقبل کے لیے انھوں نے یہ کڑوا گھونٹ بھی پی لیا اور لاہور شفٹ ہو گئے۔

لاہور کے فلمسازوں نے وحید مراد پر فلموں کی بارش کر دی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سنتوش کمار اور درپن کا چل چلاؤ تھا اور فلم انڈسٹری میں اچھے ٹیلنٹڈ ہیرو کی کمی محسوس کی جا رہی تھی۔ اردو ورژن کی فلموں کے لیے محمد علی اور کمال کے علاوہ کوئی قابل اداکار موجود نہ تھا اور وحید مراد کی آمد کے بعد فلمی صنعت کو ایسا ہیرو مل گیا جو پوری فلم کا بوجھ اٹھا سکتا تھا۔

وحید مراد کی فلمی دنیا میں آمد کے کچھ عرصہ بعد مشرقی پاکستان کی فلم ’چکوری‘ کے ذریعے ندیم متعارف ہوئے اور یوں پاکستانی فلم سکرین پر سپر سٹار کی تکون بن گئی جو محمد علی، وحید مراد اور ندیم جیسے پسندیدہ اداکاروں پر مشتمل تھی۔

محمد علی، وحید مراد اور ندیم کی اس تکون نے پاکستان فلم انڈسٹری پر راج کیا لیکن اس تکون میں بھی وحید مراد کی انفرادیت نے اپنا رنگ جمائے رکھا۔ ان کی اداکاری کے منفرد اسلوب کا ایک زمانہ معترف رہا۔

پڑھے لکھے وحید مراد نے فلم ایکٹنگ کے ساتھ ساتھ فلم پروڈکشن بھی جاری رکھی اور اپنے ذاتی پروڈکشنزکا ادارہ ’فلم آرٹس‘ بنانے کے علاوہ ایک ٹیم بھی بنا ڈالی جس میں فلم ڈائریکٹر پرویز ملک، موسیقار سہیل رعنا اور مصنف و شاعر مسرور انور شامل تھے۔

اس ٹیم نے ’ارمان‘ کے بعد ’احسان‘ اور چند اور فلمیں بھی بنائیں لیکن بعد میں وحید مراد کے لاہور شفٹ ہونے پر یہ ٹیم ذاتی اناؤں کی بھینٹ چڑھ کر بکھر گئی۔ ان کی فلم ’ارمان‘ ان کے ذاتی فلم پروڈکشنز کے ادارے ’فلم آرٹس‘ کے بینر تلے ہی بنائی گئی تھی۔

لڑکیاں وحید مراد کی دیوانی اور وہ سلمٰی میکر کے نام کی مالا جپتے تھے

ایک زمانہ تھا کہ جب ملک کا ہر لڑکا اپنے بال ماتھے پر بکھیرے وحید مراد جیسا بننے کا خواہاں تھا اور ہر لڑکی کو وحید مراد کے سراپے میں اپنے خوابوں کا مرد دکھائی دیتا تھا۔ کالج گرلز نے وحید مراد کی تصویریں کتابوں میں رکھ لیں لیکن ان کے دل کے تار کراچی کے صنعت کار ابراہیم میکر کی بیٹی سلمٰی میکر کو دیکھ کر بج اٹھتے تھے۔

یوں ایک روز وحید مراد سلمٰی میکر کو اپنے دل کا مدعا بیان کرنے اس ڈانسنگ کلاس میں جا پہنچے جہاں وہ ڈانس کی ریہرسل کیا کرتی تھیں۔ سلمٰی مراد کہتی ہیں کہ ریہرسل کے دوران ایک سانولا سلونا نوجوان وہاں آیا اور انھیں اشارے سے بلایا، میں اس کے پاس گئی تو اس نے برجستہ سوال کیا کہ ’مجھ سے شادی کرو گی؟‘

’میں اس اچانک سوال پر ہکا بکا رہ گئی اور حیرانی سے ان کا منھ دیکھتی رہ گئی لیکن وہ مجھے الجھن میں ڈال کر وہاں سے جا چکا تھا۔ کچھ ہی روز میں وحید مراد کے والدین کی جانب سے باقاعدہ پیغام آیا اور میں نے بھی اس نوجوان کی اس روز کی والہانہ جرات کو دیکھتے ہوئے اقرار کر دیا اور یوں ہم جیون کی ڈور میں بندھ گئے۔‘

جب اداکار سٹار بن جائے تو اگلی راہیں خود بخود کھلتی چلی جاتی ہیں اور کئی اداکارائیں اس نام کے ساتھ اپنا نام جوڑ کر کامیابیاں سمیٹنا چاہتی تھیں۔ ایسے میں سکینڈلز جنم لیتے ہیں اور ایسا ہی ہوا۔ وحید مراد جس بھی اداکارہ کے ساتھ کاسٹ ہوتے، لوگ ان کے والہانہ پن اور بولڈ انداز سے از خود فسانے بنا لیتے جس میں حقیقت کم اور مبالغہ زیادہ ہوتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کے’چاکلیٹی ہیرو‘ کو گوگل کا خراجِ تحسین

دلیپ کمار: ارے بھائی، کیا کبھی یہ راستہ ختم نہیں ہوگا؟’

’صدقے تھیواں، ہم آدمی ہیں ذرا وکھری ٹائپ کے‘

ہیروئینز کی کامیابی میں وحید مراد کا عمل دخل

اس زمانے کی نامور اداکارہ زیبا، وحید مراد کی پہلی باقاعدہ ہیروئین تھیں اور ان کی کامیابی میں وحید مراد کا عمل دخل نمایاں تھا کیونکہ انھوں نے ترقی کے یہ زینے وحید مراد کی فلموں ’ہیرا اور پتھر‘ اور ’ارمان‘ کی بے مثال کامیابیوں کے ذریعے چڑھے تھے۔

فلمسٹار روزینہ کو بھی وحید مراد نے اس وقت کاسٹ کیا جب وہ محض اداکارہ تھیں،

وحید مراد مشرقی پاکستان کی فلم ’بھیا‘ میں کاسٹ ہوئے تو وہاں ان کی ملاقات ایک ہندو لڑکی جھرنا سے ہوئی۔ جھرنا نے بھی ان سے مغربی پاکستان کی کامیاب فلم انڈسٹری میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو وحید مراد نے کہا کہ ’میں جب تمہیں کراچی بلاؤں تو تم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلی آنا۔

فلم ’بھیا‘ مکمل ہو گئی اور وحید مراد واپس آ گئے لیکن وہ لڑکی جھرنا جو بنگالی فلموں کی شبنم بن چکی تھیں، ان کے رابطے میں رہی اور ایک دن وحید مراد نے انھیں مغربی پاکستان آنے کا کہا اور اپنی فلم ’سمندر‘ میں اپنے مقابل ہیروئین کاسٹ کر لیا۔

اداکارہ عالیہ نے بھی ان کے مقابل خاصا کام کیا اور وحید مراد نے اپنی پہلی ذاتی پنجابی فلم ’مستانہ ماہی‘ میں ان کو اپنے مقابل ہیروئین کاسٹ کیا۔

عالیہ کہتی ہیں کہ وحید مراد ان کو بچوں کی طرح ٹریٹ کرتے تھے اور ایک روز سیٹ پر آ کر انھوں نے کہا کہ ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے اور انھوں نے اس کا نام عالیہ رکھا ہے اور اب میری عالیہ نام کی دو بیٹیاں ہیں۔

اداکارہ نشو اپنے ہیرو وحید مراد کے بارے میں کہتی ہیں کہ وحید مراد کے ساتھ کام کرنا ان کی خوش قستی تھی۔

’وہ ایک انتہائی پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے انسان اور فنکار تھے۔ وہ شوٹنگ کے دوران سب کے ساتھ خوشگوار موڈ رکھتے اور کسی کو بور نہ ہونے دیتے۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئے دن مجھے ہمیشہ یاد رہیں گے۔‘

اپنے وقت کی ناموراداکارہ دیبا بیگم نے وحید مراد کے ساتھ 22 کے قریب فلموں میں کام کیا اور ذاتی پروڈکشن ’میرے جیون ساتھی‘ میں بھی وحید مراد کوہی کاسٹ کیا تھا لیکن افسوس کہ یہ فلم ڈبوں میں بند ہو کر رہ گئی۔

ہیروئینز کے شوہر وحید مراد سے خائف

وحید مراد کی شہرتیں بہت سے لوگوں سے برداشت نہ ہوتی تھیں اور وہ نصف النہار سورج کو گہنانے میں لگے رہتے۔ مقابل اداکار ان کی شہرتوں اور پسندیدگی سے خائف تھے تو فلمی ہیروئنز کے خاوند حضرات کے اپنے مسائل تھے۔

وحید مراد اور زیبا کی جوڑی وقت کی مقبول ترین اورپسندیدہ ترین جوڑی تھی لیکن محمد علی سے شادی کے بعد انھوں نے وحید مراد کے مقابل کام کرنے سے انکار کر دیا تھا یوں یہ مقبول ترین جوڑی ٹوٹ گئی۔

جھرنا کو وہ خود مشرقی سے مغربی پاکستان لے کر آئے اور ذاتی فلم میں کاسٹ بھی کیا اور کئی سپر ہٹ فلمیں اس جوڑی کے کریڈٹ میں تھیں، جن میں ’عندلیب‘، ’بندگی‘ ، ’نصیب اپنا اپنا‘ جیسی فلمیں شامل تھیں لیکن پھر اچانک شبنم کے شوہر موسیقار روبن گھوش کو وحید مراد کی ’بولڈنس‘ پر اعتراض ہوا اور انھوں نے اپنی بیوی کو وحید مراد کے ساتھ کام کرنے سے روک دیا۔

شبنم نے بھی اپنی ازدواجی زندگی کو بچانے کی خاطر چپ سادھ لی لیکن روبن گھوش کی وفات کے بعد شبنم نے بتایا کہ وحید مراد کی زبان سے روبن کے سامنے کوئی ایسی بات نکل گئی تھی جس کو روبن نے محسوس کرتے ہوئے مجھے ان کے مقابل کام کرنے سے روک دیا ورنہ وحید مراد ایک انتہائی نفیس انسان تھے اور وہ ان کو یاد کرتی ہیں۔

نشو نے جب اپنی نوجوانی کی محبت انعام درانی سے شادی کی تو انھیں بھی وحید مراد کے انداز، بولڈنس اور مردانہ کشش کھٹکنے لگی اور انھوں نے بھی نشو کو وحید کے مقابل کام کرنے سے روک دیا۔

وقت کی معروف اداکاراؤں نے جب وحید مراد کے مقابل کام کرنے سے انکار کر دیا اور وہ جو فلم سکرین پر ’چاکلیٹی ہیرو‘ کو نیچا دکھانے میں ناکام رہے تھے، ان کے مقاصد یوں پورے ہوئے لیکن اس وقت بھی ایسی اداکارئیں موجود تھیں جنھوں نے وحید مراد کا ساتھ دیا۔ ان میں دیبا، رانی، عالیہ، آسیہ اور شمیم آرا نمایاں رہیں۔

لڑکی نے گلے سے طلائی ہار اتار کر وحید مراد کے ہاتھ پر رکھ دیا

وحید مراد کی مقبولیت اور پسندیدگی کا ایک قابل دید مظاہرہ پوری فلم انڈسٹری نے اس وقت دیکھا جب پورا لالی وڈ ملک میں آنے والے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے چندہ جمع کرنے کی خاطر سڑکوں پر تھا۔

وحید مراد جب فلم مارکیٹ لکشمی چوک پہنچے تو مداحوں کے ایک بڑے ہجوم نے ان کو گھیر لیا۔ ایسے میں ایک دوشیزہ آگے بڑھی اور اپنی نگاہیں وحید مراد کے چہرے پر گاڑ دیں۔ سب لوگ اس منظر کو دیکھ رہے تھے کہ وہ لڑکی آگے بڑھی اور اپنے گلے سے سونے کا ہار اتار کر وحید مراد کے ہاتھ پر رکھ دیا۔

یہ منطر جہاں چاہنے والوں کی نگاہوں کو خیرہ کر گیا وہیں حاسدوں کے دلوں کو راکھ کرنے کا باعث بھی بنا۔

یہ بھی پڑھیے

اللہ وسائی کو محض 18 برس کی عمر میں ’ملکہ ترنم‘ کا خطاب کس نے دیا؟

عمر شریف: وہ فنکار جس کا جادو 14 برس کی عمر میں چل گیا تھا

لسوڑی شاہ کا نصرت، نصرت فتح علی خان کیسے بنا

زوال کے احساس نے وحید مراد کو توڑ ڈالا

اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ہر عروج کی انتہا بالآخر زوال ہے لیکن نازونعم میں پلنے والے جہاندیدہ وحید مراد اس حقیقت کو نہ سمجھ پائے اور آخر کار جب انھوں نے زوال کو سامنے پایا تو وہ اندر سے ٹوٹ گئے۔

یکے بعد دیگرے ہونے والے دو حادثات میں وحید مراد اپنے چہرے کی دلکشی کھو بیٹھے۔ ایسے میں جب انھیں ڈھارس کی سخت ضرورت تھی تو فلم انڈسٹری نے انھیں نظرانداز کر دیا بلکہ وہ اپنے مختصر سے خاندان کو بھی ناراض کر بیٹھے۔

وحید مراد کی اہلیہ بھی انھیں اس حال میں چھوڑ کر امریکہ چلی گئیں اور جب کوئی ڈھارس بندھانے اور امید دلانے والا نہ رہا تو وہ ٹوٹ کر بکھر گئے۔

وحید مراد کا یہ خیال غلط ثابت ہوا کہ لوگ انھیں بھول جائیں گے

وحید مراد نے اپنی وفات سے دو ہفتے قبل اپنے دیرینہ دوست انور مقصود کے پروگرام ’سلور جوبلی‘ میں اس بات کا برملا ااظہار کیا تھا کہ ’اگر میں نہ رہوں، مجھے کچھ ہو جائے یا میں دنیا سے اٹھ جاؤں تو مجھ پر فلمبند یہ گانا میری موت کے بعد کی زندگی کا عکاس ہو گا:

بھولی ہوئی ہوں داستاں گزرا ہوا خیال ہوں

جس کو نہ تم سمجھ سکے میں ایسا اک سوال ہوں

لیکن وحید مراد کا یہ خیال غلط ثابت ہوا کیونکہ انھوں نے اپنی زندگی میں جس قدر شہرتیں سمیٹیں، وہ اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ وہ موت کے 38 برس بعد بھی زندہ و جاوید ہیں۔

وحید مراد کو جہان فانی سے رخصت ہوئے 38 برس بیت چکے ہیں لیکن موجودہ نسلیں اُن کو فلم یا ٹی وی سکرین پر دیکھ کر آج بھی دل ہار بیٹھتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments