”یہ جو 22 کروڑ ہیں“


یہ بات تو قیام پاکستان کے چند ہی برس بعد طے کردی گئی تھی کہ اسلام کے نام پر قائم ہوئے وطن عزیز میں مغرب کا متعارف کروایا نظام جسے جمہوری کہا جاتا ہے چلایا نہیں جاسکتا۔ دستور ساز اسمبلی سے باہر موجود علمائے کرام نے باہم مل کر ”قرارداد مقاصد“ کا مسودہ تیار کیا۔ اس کی روشنی میں اسلامی فلاحی نظام کی تلاش شروع ہوئی۔ یہ تلاش ابھی جاری تھی کہ افسر شاہی سے اٹھے ملک غلام محمد نے گورنر جنرل کی حیثیت میں دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔

مولوی تمیز الدین مرحوم مذکورہ اسمبلی کے سپیکر کی حیثیت میں اپنے ادارے کی بحالی کے لئے فریاد لے کر عدالتوں میں گئے تو ان دنوں کے چیف جسٹس عالی جناب منیر صاحب نے ”نظریہ ضرورت“ کے تحت گورنر جنرل کے اقدام کو واجب ٹھہرادیا۔ اس فیصلے کی بدولت بالآخر افسر شاہی سے کہیں زیادہ منظم اور طاقت ور ادارے سے ایک نہیں چار دیدہ ور قوم کو سیدھی راہ پر ڈالنے کے لئے نمودار ہوتے رہے۔ انہیں ہماری عدالتوں نے ہمیشہ ”نظریہ ضرورت“ کے تحت اپنی منشا کے مطابق سیاسی بندوبست چلانے کا جواز فراہم کیا۔

دریں اثناء سیاست دانوں پر مشتمل جو بھی جمہوری حکومتیں وجود میں آتی رہیں وہ ”نظریہ ضرورت“ کو استحکام بخشنے والی قوتوں کو لگام ڈالنے میں قطعاً ناکام رہیں۔ میرا نہیں خیال کہ وقتاً فوقتاً سنسنی خیز انداز میں رونما ہونے والی آڈیوز یا وڈیوز ہماری سرشت میں راسخ ہوئی فدویانہ سوچ کو انقلابی انداز میں تبدیل کر پائیں گی۔ وقتی ابال ہے۔ چند دنوں میں ہوا میں تحلیل ہو جائے گا اور ہم آنے والی تھاں پر واپس لوٹ جائیں گے۔

میری کہی اس بات کو مالیخولیا کے مارے شکست خوردہ انسان کی سوچ ٹھہراکر رد کیا جاسکتا ہے۔ میں یہ الزام بھی اپنے سرلینے کو ہرگز تیار ہوں۔ حقائق تو کئی برسوں سے ہمارے سامنے تھے۔ اپریل 2016 میں پانامہ دستاویزات منظر عام پر آنے کے بعد ابھری ہلچل واضح انداز میں نشان دہی کر رہی تھی کہ حالات کیا رخ اختیار کر رہے ہیں۔ ان کی پیش بندی کے بجائے ہمارے سیاستدانوں اور خاص طور پر میڈیا پر چھائے ذہن سازوں نے جارحانہ جوش وجذبے سے انصاف کی دہائی مچانے کو ترجیح دی۔ سٹار اینکر خواتین وحضرات کی خاطر خواہ تعداد جو رپورٹنگ کے فریضہ کو اپنے رتبے سے کم تر شمار کرتی ہے علی الصبح اٹھتے ہی سپریم کورٹ چلے جاتے۔ بنچ سے آئے تضحیک آمیز ریمارکس ٹکروں کی بارش سے لوگوں کے روبرو اجاگر کیے جاتے۔ شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک ٹی وی سکرینوں پر متوازی عدالتیں بھی لگی رہیں اور سیاسی منظر نامے پر ”جب آئے گا عمران۔“ والا نغمہ گونجنا شروع ہو گیا۔ اگست 2018 میں بالآخر مذکورہ خواب کی تعبیر بھی فراہم کردی گئی۔

چند ہی روز قبل وزیر اعظم عمران خان صاحب نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے ایک ہی دن میں 33 قوانین منظور کرواتے ہوئے اقتدار پر اپنی کامل گرفت بھی ثابت کردی ہے۔ مذکورہ اجلاس کے دو ہی روز بعد ایوان بالا سے بھی اپنی مرضی کے قوانین منظور کروالئے۔ ایسے عالم میں محض آڈیو /ویڈیو لیکس معروضی حالات کو بدل نہیں سکتے۔ سیاسی تبدیلی فقط سیاسی جدوجہد کے ذریعے ہی بروئے کار لائی جا سکتی ہے۔

بھارت کا نریندر مودی جمہوری نظام کے نام پر ہی اپنے ملک کا جابر سلطان بنابیٹھا ہے۔ اس کے ناقد صحافی بھی سوشل میڈیا پر پناہ لئے ہوئے ہیں۔ سیاسی مخالفین کو اس کی راہ روکنے کی کوئی ترکیب نظر نہیں آ رہی۔ پنجاب اور ہریانہ کے کسان مگر اپنے مطالبات منوانے کے لئے یکسو ہو گئے۔ دہلی کو جاتے کئی راستوں پر کئی مہینوں تک دھرنا دیے بیٹھے رہے۔ مودی کو بالآخر ان کے سامنے جھکنا پڑا ہے۔

ہماری ریاست وحکومت بھی چند دن قبل ایک تنظیم کے روبرو جھکی ہے۔ وہ تنظیم اپنی سرشت میں لیکن سیاسی نہیں مذہبی ہے۔ ”قرار داد مقاصد“ اور نظریہ ضرورت ”ہی اس کی قوت کا اصل سرچشمہ ہیں۔ اس تنظیم سے وابستہ لوگ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے جتن نہیں کرتے۔ وطن دشمن قوتوں کی حمایت والے سرکاری الزام کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ سوشل میڈیا ان کا بنیادی ذریعہ ابلاغ نہیں۔ اپنے بیانیے کو وہ مساجد اور مدرسوں کے ذریعے فروغ دیتے ہیں۔

سیاسی تحاریک کے لئے سیاسی جماعتیں درکار ہوتی ہیں۔ وہ ہمارے ہاں باقی نہیں رہیں۔ نام نہاد الیکٹ ایبلز ہیں۔ ڈیروں اور دھڑوں والے یہ چودھری، رانا اور سردار برطانوی راج کے دنوں سے سرکار کی سرپرستی کے حصول کے لئے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن ہارتے یا جیتتے رہے ہیں۔ وہی مخلوق آج بھی پارلیمان پر چھائی ہوئی ہے۔ نظریاتی نہیں ذاتی ترجیحات کی بدولت حکومتی اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھا یہ گروہ سرکار کو جبلی طور پر مائی باپ تصور کرتا ہے۔ یہ مزاحمت نہیں مفاہمت کا خواہاں ہے۔ وہ اقتدار پر کامل اختیار نہیں بلکہ اس میں حصہ لینے کو بے چین رہتا ہے۔ ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اقتدار میں حصہ یقینی بنانے والے سیاسی نظام کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتے ہیں۔ محض سادہ لوحی ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔

آپ کو انقلاب کی نوید سنانے کے بجائے ”اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا“ والی نا امیدی پھیلانے کے باوجود مگر یہ اقرار بھی کرنا ہو گا کہ ثاقب نثار صاحب کا یہ دعویٰ کہ ان سے منسوب آواز گھڑی گئی ہے معاملہ پر مٹی ڈالنے کے کام نہیں آئے گا۔ آڈیو لیک کرنے والے صحافی نے اس میں نمایاں آواز کی عالمی طور پر مستند تصور ہوتے فرانزک اداروں سے تصدیق کروائی ہے۔ مذکورہ وڈیو میں ایک اور آواز بھی ہے۔ وہ شخص بھی اگر منظر عام پر آ کر یہ دعویٰ کرتا پایا گیا کہ ثاقب نثار صاحب نے فلاں دن اس آڈیو ٹیپ میں ہوئی گفتگو ان کے ساتھ کی تھی تو معاملہ مزید دگرگوں ہو جائے گا۔

انتہائی معتبر ذرائع سے میرے پاس یہ اطلاع بھی گزشتہ کئی دنوں سے موجود ہے کہ احمد نورانی کی جانب سے منظر عام پر لائی آڈیو کے علاوہ کم از کم دو مزید وڈیوز بھی ہیں۔ مبینہ طور پر ان کے کلیدی کردار بھی ثاقب نثار صاحب ہی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور آڈیو بھی ہے۔ ان کے بھی منظر عام پر آنے کے امکانات قوی دیکھ رہا ہوں۔

پیر کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھنے سے قبل سوشل میڈیا پر نگاہ ڈالی تو عمران حکومت کے حتمی ماہر ابلاغ جناب شہباز گل صاحب کی جانب سے مبینہ طور پر جاری ہوئی ایک آڈیو بھی سننا پڑی۔ اس میں نواز شریف اپنی ہی مذمت کرتے سنائی دیے۔ گل صاحب سے رابطہ کرنے کی میری اوقات نہیں۔ وہ فقط صحافتی اداروں کے مالکان کو حکم جاری کرتے ہیں۔ دو ٹکے کا رپورٹر ہوتے ہوئے البتہ میں اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر مذکورہ آڈیو گل صاحب ہی نے جاری کی ہے تو اس کا مقصد ہم کم فہم لوگوں کو یہ سمجھانا ہو سکتا ہے کہ آج کے ڈیجیٹل دور میں کسی بھی شخص کی آواز کو ایڈیٹنگ کے کرشمے دکھاتے ہوئے کسی بھی نوع کی کہانی پھیلانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اتوار کی رات منظر عام پر آئی آڈیو کو لہٰذا سنجیدگی سے نہ لیا جائے۔ حبیب جالب کی روح سے معذرت کے ساتھ ”یہ جودس کروڑ ہیں“ کو ”یہ جو 22 کروڑ ہیں“ کہتے ہوئے خود کو ایسی ہی رعایا کا ایک بے بس رکن شمار کرتا ہوں اور آج کے کالم کے ذریعے اتوار کے روز عیاں ہوئی آڈیو کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments