گلاسگو ماحولیاتی معاہدہ COP-26 امیدیں اور تحفظات


معاہدہ کوپ۔ 26 کے سربراہی اجلاس کی تفصیل بتانے سے پہلے ہم قارئین کو اس بین الاقوامی تنظیم کا تاریخی پس منظر بتانا ضروری خیال کرتے ہیں کہ یہ کوپ۔ 26 ہے کیا اور یہ کیوں معرض وجود میں آیا؟ جیسا کہ آپ اس بارے آگاہ ہیں کہ سیارہ زمین کا کلائمیٹ وقت کے ساتھ ساتھ تیزی سے تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ حیاتیاتی ایندھن بیان کی جاتی ہے جس میں تیل، قدرتی گیس اور کوئلہ قابل ذکر ہیں۔ اس حیاتیاتی ایندھن خصوصاً کوئلے کے جلنے کی وجہ سے اس سے نکلنے والا دھواں فضا میں شامل ہوتا رہتا ہے جس کی وجہ سے زمینی ماحول میں کاربن کی مقدار میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

کاربن کی یہ بڑھتی ہوئی مقدار خطرناک ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہے۔ اس بدلتے کلائمیٹ کی وجہ سے موسمی قدرتی آفات خصوصاً شدید گرمی کی لہر، سیلاب، قحط اور جنگلوں میں لگنے والی آگ نے انسانی زندگی کو آ گھیرا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دو دہائیوں سے زمین کے قریب ہوا کے درجہ حرارت میں سالانہ اضافہ اور موسمی تغیر پذیری دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔

کرہ ارض پر اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور فضا میں شامل ہوتی کاربن کی مقدار کو کم کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے 1992 میں ممالک کے مابین کلائمیٹ چینج کے حوالے سے ایک بین الاقوامی کنوینشن کا انعقاد کیا جس میں تبدیل ہوتے کلائمیٹ، اس کے اثرات و مضمرات اور ان کے حل پہ زور دیا گیا۔ 1996 تک اس عالمی آفت سے نمٹنے کے لیے جامع حکمت عملی تیار کی جاتی رہی اور 1997 میں باقاعدہ طور پر ایک روڈ میپ تیار کیا گیا اور دنیا کے ترقی یافتہ ملک اس بات پہ متفق ہوئے کہ کوئلے کے استعمال کو درجہ بہ درجہ کم کیا جائے گا تا کہ اس کے اخراج سے نکلنے والے کاربن سے زمینی ماحول کو آلودہ ہونے سے بچایا جا سکے۔ یہ معاہدہ جاپان کے شہر کیوٹو میں اقوام متحدہ کے کلائمیٹ چینج کنوینشن میں عمل میں لایا گیا، جسے ”کیوٹو پروٹوکول“ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کی پاسداری کا پہلا دورانیہ 2008 سے 2012 اور دوسرا دورانیہ 2013 سے 2020 تک تجویز کیا گیا۔

موجودہ COP۔ 26 ایک بین الاقوامی سالانہ کانفرنس ہے۔ COP سے مراد Conference of the Parties ہے، پارٹیز سے مراد ممالک لیے جاتے ہیں جو کہ سالانہ کی بنیاد پر کلائنٹ چینج ایشو پر اکٹھے ہوتے ہیں۔ امسال اس فورم کی 26 ویں سالانہ میٹنگ تھی جس کی میزبانی مشترکہ طور پر برطانیہ اور اٹلی کے پاس تھی۔ اور کانفرنس کا حتمی مقام برطانیہ کا شہر گلاسگو قرار پایا جس کی مناسبت سے اسے ”معاہدہ گلاسگو“ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ کانفرنس اصل میں 2020 میں ہونا تھی لیکن کویڈ 19 کی وجہ سے ایک سال موخر کی گئی اور اسی وجہ سے اسے COP۔ 26 کہا جاتا ہے۔

اس COP فورم کی سب سے بڑی کامیابی 2015 میں ”پیرس ایگریمنٹ“ تھا جس میں تمام ممالک کو اخلاقی طور پر اس بات کا پابند بنایا گیا تھا کہ وہ بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرتے ہوئے درجہ حرارت کو 1.5 سینٹی گریڈ تک کم کریں تا کہ آب و ہوا سے پیدا شدہ تبدیلیوں سے بچا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے پیرس ایگریمنٹ میں 100 بلین امریکی ڈالر کا ایک کلائمیٹ فنڈ بھی قائم کیا گیا جو 2020 تک غریب ممالک کو دیے جانا تھا تا کہ کلائمیٹ چینج کے مسائل سے نمٹتے ان ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں پر بوجھ نا پڑے۔

کوپ۔ 26 تمام ممالک کو اپنے کلائمیٹ چینج نیشنل پلان بنانے کی ذمہ داری پہ زور دیتا ہے۔ اس معاہدے کے ذریعے رکن پارٹیز/ممالک کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ 2030 تک کاربن کو کم کرنے کے ٹارگٹ کو آئندہ سال کے آخر تک ہر صورت شائع کریں۔ گلاسگو معاہدہ پیرس ایگریمنٹ کی نسبت واضح اور فوری طور پر کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے پر زور دیتا ہے۔ گو کہ رکن ممالک کے لیے یہ ایک لیگل معاہدہ نہیں ہے لیکن انسانی حیات کو درپیش مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے پاس اس معاہدے کی اخلاقی پاسداری کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

اس معاہدے کے مطابق کلائمیٹ چینج کو عام آدمی کا مسئلہ قرار دیا گیا ہے اور معاہدے کے ممبران پہ زور دیا گیا ہے کہ کلائمیٹ چینج ایکشن پہ وہ کوئی ایسا فیصلہ نا کریں جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی، صحت کے اصولوں، مقامی لوگوں کے حقوق، مائیگرنٹس، بچوں اور معذور افراد کو متاثر کرے۔ معاہدے میں اس بات کا بھی عادہ کیا گیا ہے کہ کسی مخصوص مقامی جگہ پہ تبدیل ہوتے کلائمیٹ میں وہاں کی مقامی آبادی، نوجوانوں اور بچوں سمیت سول سوسائٹی اس تبدیل ہوتے کلائمیٹ پہ ہنگامی طور پر مختلف سطحوں پر اس ایشو کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک دوسرے سے تعاون کرے گی۔

کوپ۔ 26 اس بات پہ بھی زور دیتا ہے کہ کلائمیٹ کی تبدیلی کی صورت میں مختلف بائیو ڈائیورسٹی کے نقصان کی جانچ اور انہیں محفوظ کرنے کے لیے ممالک اپنا رول ادا کریں گے اور اس ضمن میں مختلف سمندری و جنگلی حیات کو محفوظ بنانے کی تجاویز بھی پیش کی گئیں۔ اس کے علاوہ نیچر اور ماحولیاتی نظام کو بچانے کی خاطر سوشل اسٹرکچر کو بچاتے ہوئے کلائمیٹ میں موافقت اور تخفیف کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔

اس معاہدے کی ایک خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ دو بڑے ممالک امریکہ اور چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ کلائمیٹ کے مسائل سے نبٹنے کی خاطر مل بیٹھنے کو تیار ہیں۔ دونوں ممالک نے اس بات کا ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ میتھین گیس کو بتدریج کم کر کے توانائی کے متبادل ذرائع استعمال کرنے کی طرف جائیں گے۔ دونوں ممالک پیرس ایگریمنٹ کے مطابق ایک بار پھر زمینی درجہ حرارت کو 1.5 سینٹی گریڈ کم کرنے پہ متفق نظر آئے ہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں سے چین کی طرف سے اس ایشو پر ہچکچاہٹ محسوس کی جا رہی تھی کیونکہ چین توانائی کی مقامی ضرورت زیادہ تر کوئلے سے ہی حاصل کر رہا تھا۔

گلاسگو کلائمیٹ پیکٹ ایک جامع ڈاکومنٹ ہے جو کلائمیٹ کو بطور سائنس سمجھنے کی ضرورت پہ زور دینے کے ساتھ ساتھ اس کے خطرات سے بچاؤ کی تجاویز بھی پیش کرتا ہے۔ شدید کلائمیٹ کے اثرات اور اس سے رونما ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگاتے ہوئے اس کے بجٹ اور اس کے استعمال کا طریقہ کار بھی وضع کرتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے قائم کیا گیا کلائمیٹ فنڈ ترقی پذیر ممالک میں کس طرح خرچ کیا جائے گا۔

یہ اکہتر نکاتی معاہدہ بظاہر تو ایک جامع اور جاندار ایگریمنٹ محسوس ہوتا ہے لیکن اس بات کا اندازہ وقت گزرنے کے ساتھ ہی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کلائمیٹ میں بہتری لانے کے لیے کتنا مفید و کارآمد ہے۔ کیونکہ اس معاہدے کے ناقد کہتے ہیں کہ پیرس ایگریمنٹ میں کیے گے وعدے ابھی تک پورے نہیں کیے جا سکے اس کی بڑی وجہ ترقی یافتہ اور بڑے ممالک کی عدم توجہی ہے۔ اس معاہدے پہ تنقید کرنے والے ایک اور نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کوئلے اور حیاتیاتی ایندھن کو جس طریقے سے سبسڈائز کرنے کی بات کی جا رہی ہے یہ طریقہ غیر شفاف محسوس ہوتا اور یہ طریقہ کار کرہ ارض کے درجہ حرارت کو 1.5 سینٹی گریڈ کم کرنے کے ٹارگٹ کو دور لے جا سکتا ہے۔ تنقید کرنے والا طبقہ اس بات پہ بھی نالاں ہے کہ صرف کوئلے ہی کی بات کیوں کی جاتی ہے؟ جبکہ تیل اور گیس بھی ماحولیاتی آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کیا امریکہ، کینیڈا، روس اور خلیجی ممالک اس پہ کھل کر بات کر سکتے ہیں؟

اس معاہدے پہ غریب و ترقی پذیر ممالک بھی اپنے اپنے تحفظات رکھتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک دو وجوہ کی بنا پر اس معاہدے پہ ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ پیرس ایگریمنٹ کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے جس رقم کا وعدہ کیا گیا تھا وہ تاحال مکمل طور پر فراہم نہیں کی گی۔ دوسری وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ابھی تک اپنے ممالک میں غربت کے خاتمے، سماج سدھار اور تعمیری منصوبوں پر ہی اپنے بجٹ خرچ کر رہے ہیں۔

لہذا ہم کوئلے کے استعمال کو فوری طور پر ختم نہیں کر سکتے۔ گلاسگو کلائمیٹ پیکٹ میں ترقی پذیر ممالک کے ان مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے کوئلے کے استعمال کو مرحلہ وار ختم کرنے کی بجائے مرحلہ وار کم کرنے پہ اتفاق کیا گیا ہے۔ ان ممالک کو رقوم کی فراہمی کے حوالے سے بھی COP۔ 26 کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ 2025 تک ترقی پذیر ممالک کی مدد کی مد میں یہ فنڈ ایک سو بلین ڈالر سے بڑھا کر 500 بلین ڈالر کیا جائے جو ان ممالک کے کلائمیٹ نیشنل پلان کو لاگو کرنے کی صلاحیت کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔

اگر تنقیدی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ قائم کیا گیا فنڈ ایک امدادی فنڈ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ہرجانے کی رقم ہے جو چھوٹے و ترقی پذیر ممالک کو دی جائے گی۔ کیونکہ یہ کلائنٹ چینج کی آفت کے موجب وہی بڑے صنعتی ممالک ہیں جو اپنی صنعتی ترقی کے لیے گزشتہ سو سال سے کوئلے، تیل اور گیس کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں جس کی وجہ سے کرہ ارض کی فضا کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی زیادتی کی وجہ سے آلودہ ہو چکی ہے جس کا سامنا اب پوری دنیا کو ہے۔

گلاسگو معاہدہ پیرس ایگریمنٹ کی نسبت کتنا اور کیسے مختلف ہو گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ سردست تو تمام ممالک اس بات پہ متفق نظر آتے ہیں کہ کلائمیٹ کے جن مسائل پر فکر مندانہ بحث کرنے کے بعد دستخط کیے گئے ہیں آنے والی نسلوں کے لیے ان کا حل از حد ضروری ہے۔ کلائمیٹ چینج کے حوالے سے اقوام متحدہ فریم ورک کنوینشن کی یہ کانفرنس آئندہ سال COP۔ 27 کے نام سے مصر میں ہونے جا رہی ہے، اس ایک سال میں گلاسگو معاہدے کے مطابق کلائمیٹ کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے کیا عملی پیش رفت کی جاتی ہے وہ یہ ثابت کرے گی کہ دنیا اس خوفناک مسلے سے نمٹ پائے گی یا نہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments