اسلم: انور علی کی پنجابی کہانی کا ترجمہ


یہ ایک ایسے انسان کا خاکہ ہے، جس کی زندگی کا کوئی ایک رخ نہیں ہے، مسلسل تغیر پذیر انسان ہے، ایک جگہ سے دوسری جگہ اور پھر ستاروں سے آگے

جہاں اور بھی ہیں، وہ ایک پیشہ چھوڑ کر دوسرا اختیار کر لیتا ہے، اور دوسرا چھوڑ کر تیسرا، اس کا نام اسلم ہے، اس کے ولیمے والے دن اس کا باپ اس دنیا سے فوت ہو کر اگلے جہاں چلا گیا تھا، لیکن اس نے اپنے پیچھے تین دن کے سوگ کے علاوہ ڈھیر ساری دولت چھوڑ رکھی تھی، جو اسلم کے کام آئی، وہ خوش تھا کہ اسے حرکت کیے بغیر ڈھیر ساری دولت ورثے میں مل گئی ہے، اور اسی خوشی میں اس نے ایک رئیسی تانگہ بنوایا، شام کو سیر پر نکل جاتا، دن دگنی رات چوگنی دولت ضائع کرتا رہا، عیش و عشرت کی زندگی جیتا رہا، لیکن کب تک، آخر کب تک؟

اس کا باپ کوئی قارون کا خزانہ چھوڑ کر نہیں مرا تھا، پیسے آہستہ آہستہ ختم ہوتے گئے، اور اسلم کی لطف سے بھرپور زندگی ختم ہو رہی تھی کہ اچانک ایک دن وہ بنا بتائے گاؤں سے غائب ہو گیا، کسی کو معلوم نہیں وہ جو اسلم تھا، غائب ہو گیا، کہاں گیا؟ ، معلوم نہیں۔

لکھاری کا کہنا ہے کہ اسلم کے غائب ہونے کے بعد اسے اس کے بارے میں بہت کچھ سننے کو ملا، جتنے منہ اس سے کئی گنا زیادہ باتیں، کئی مہینے غائب رہنے کے بعد ایک دن اچانک وہ اپنی فیملی کے ہمراہ ہمارے محلے میں آ کر رہائش پذیر ہو گیا، لکھاری لکھتا ہے کہ ابھی اس کے پاس قارون کے خزانے میں سے کچھ پیسے بچ گئے تھے، اس نے ”ہر مال ملے گا تین آنے“ کے نام سے ایک دکان کھول لی۔

دکان کا اصل سرمایہ وہ خود مفت میں کھاتا رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دکان بند ہو گئی۔

ایک دن وہ میری ماں کے پاس آیا کہنے لگا ماسی تو اپنی سلائی مشین مجھے دے میں ٹھیک کر دوں گا، اور دیکھا تو اگلے دن ”ہر مال ملے تین آنے“ والی دکان کا نام تبدیل ہو کر ”اسلم انجینئرنگ ورکس“ لکھا ہوا تھا، آہستہ آہستہ لوگ مشینیں ٹھیک کروانے کے لئے لانے لگے، اور وہ چونکہ بنا سیکھے یہ کام کر رہا تھا، مشین کھولتا، پرزے علیحدہ علیحدہ کرتا انہیں مٹی کے تیل سے صاف کرتا اور مشین میں ویسے ہی جوڑ دیتا، ایسے دن گزرتے گئے، یہ اناڑی سا کام کب تک چل سکتا تھا، روز کسی نا کسی کی مشین کو اسلم پہلے سے زیادہ خراب کر دیتا، لیکن اسلم باتوں کا تو ماسٹر تھا، سب کو مطمئن کر لیتا تھا،

آخر لڑائی جھگڑوں سے دکان کا مالک تنگ آ گیا تھا لیکن اسلم مالک کو بھی باتوں کے نشے سے بیہوش کر دیتا، اور مفت میں دکان کے مالک کے گھر کی چارپائیاں ٹھوک دیا کرتا یا اور چھوٹے موٹے کام کر دیتا،

لیکن ایک دن یہ مشینوں والا کام بھی ختم ہو گیا، لوگوں نے نئے میکینک ڈھونڈ لئے، اور اسلم پھر بے روزگار ہو گیا۔

لیکن اسلم اتنے میں نیا کام شروع کر چکا تھا وہ پلاسٹک کی بالٹیاں رنگ کرتا اور ان کے تھلے بھی لگایا کرتا، جس سے گزر بسر ہو جاتی، گھر کا نظام چل رہا تھا، اور اسلم محنت سے اپنا کام بھی کر رہا تھا، پھر ایک دن بالٹیاں بھی ختم اور اسلم کا روزگار بھی ختم۔

لیکن اسلم نام ہے اعتماد کا!
اس نے گھڑیوں کا نیا کام شروع کر دیا، اسی دکان میں جہاں وہ پہلے کئی کام کر چکا تھا

دکان کا نیا نام ”اسلم واچ ہاؤس“ رکھ لیا تھا، جس سے نیا روزگار شروع ہو چکا تھا، اور انہی دنوں اسلم نے وہ مشین جو اس نے میری ماں سے لی تھی، پندرہ ماہ بعد واپس کر دی تھی، اسلم کا یہ گھڑیوں کا کام بھی نہ چل سکا کیونکہ ہمارے محلے کے لوگ جاہل اور گنوار تھے، وہ گھڑیاں استعمال ہی نہیں کرتے تھے، وہ ابھی بھی سورج کی چھاؤں سے وقت کا تعین کرتے تھے، جس سے اسلم کو شدید مایوسی ہوئی، وی سوچتا تھا کہ کن جاہلوں میں رہ رہا ہے جو ہینڈ واچ بھی نہیں پہنتے۔

اب اسلم نے ایک اور نیا کاروبار شروع کر لیا تھا وہ یہ کہ عید کے موقع پر محلے کے بچوں کی کیمرے سے فوٹو بنا کر سلسلہ روزگار چلاتا، لیکن عید کے بعد یہ کام بھی بند ہو گیا، انہی دنوں کمیٹی والوں نے تانگوں کے پاس جاری کرنا شروع کیے تھے، اسلم نے تانگوں کو رنگنا شروع کر دیا، ایسے ہی چھوٹے موٹے کام کر کے اسلم اپنے گھر کا چولہا گرم کر رہا تھا، کہ ایک دن دکان کے مالک کو دکان کی ضرورت پڑ گئی، اس نے اسلم سے کہا کہ دکان خالی کر دے، اسلم نے بڑی فرمانبرداری سے دکان کی چابیاں مالک کے حوالے کر دیں۔

اسلم دکان کا سارا سامان گھر اٹھا لایا، اب اور کیا کیا کا سکتا تھا، یہی واحد حل تھا، گھر کی بیٹھک کو صاف کیا اور تاش کے پتوں سے مختلف کرتب سیکھنے لگا، اور پھر کچھ عرصے بعد اسی بیٹھک میں اسلم نے تعویذ دینے کا کام شروع کر دیا، ایک دن اسلم نے لوٹا گھما کر ایک مائی کو چور کا پتہ بتا دیا، اور اگلے دن اتفاق سے وہی چور پکڑا گیا، اس کرامت کے بعد اسلم کے وارے نیارے ہو گئے،

وہ جو کچھ بتا دیتا لوگ یقین کر لیتے، کام نکل پڑا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اسلم کی بے تکی باتوں سے جو فساد پیدا ہو رہا تھا اسلم اس سے چالو ہو گیا اور تعویذ کا کام چھوڑ کر سڑک کاٹنے والا انجن چلانا شروع کر دیا، یہ کام بھی اسلم نے کچھ عرصے بعد چھوڑ دیا، اور کلرک بھرتی ہو گیا، دلی میں ملازمت کے بعد وہ فیملی کو بھی لے ساتھ گیا۔

کئی سال بعد کل

ماں نے مجھے بتایا کہ اسلم آیا تھا، اور تمہیں پوچھ رہا تھا، میں نے کہا اسلم آج کل کیا کر رہا ہے، تو ماں بولی کہ آج تو اس کی جیب میں ڈاکٹروں والی ٹوٹیاں نظر آ رہی تھی، لیکن پوچھا نہیں کہ کیا کرتا ہے۔

( یہ انور علی کی پنجابی کہانی ”اسلم“ کا تقریباً ہی سہی اردو ترجمہ کیا ہے غلطیوں کو معاف کیا جائے، شکریہ۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments