حراق کتب خانہ اسکندریہ کے ایک مجہول کردار: یحیی النحوی کی تحقیق


نوٹ:مضمون طویل ہے فارغ وقت میں پڑھیے گا اور اسے پڑھنے سے قبل میری اس تحریر کو پڑھیے گا”کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسکندریہ کا کتب خانہ جلوا دیا تھا؟”یہ اسی کا حصہ ہے۔

اپنی پچھلی تحریر بنام “کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسکندریہ کا کتب خانہ جلوا دیا تھا؟”میں میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر لگائے جانے والے ایک الزام پر تبصرہ کیا تھا۔اس میں میں نے لکھا تھا:

” قطع نظر اس کے کہ امام قفطی 600 سال پہلے کا واقعہ بغیر حوالے کے بیان کر رہے ہیں، جس شخص کا یہاں ذکر ہوا ہے وہ شخص بھی مجہول ہے۔ یعنی جس ”یحییٰ النحوی“ کا عمرو بن العاص کے ساتھ مکالمہ بیان ہوا ہے اس کا تعین نہیں ہو پایا۔ امام قفطی کے یحییٰ النحوی کے تذکرے کا مدار علامہ ابن ندیم (وفات 385 ہجری) کی کتاب الفہرست پر تھا( ابن ندیم نے کتب خانہ جلانے کا ذکر نہیں کیا) لیکن ابن ندیم نے جس یحییٰ النحوی کا ذکر کیا صفحہ  364 پر اور جو اس کی خصوصیات بتائیں وہ ”یحییٰ فلیپونس“ نام کے عیسائی راہب سے ملتی ہیں۔”

یہاں میں نے ایک شخص کا ذکر کیا جس کا نام “یحیی النحوی” ہے۔یہ شخص اس سارے واقعہ کا انتہائی اہم کردار ہے۔پورا واقعہ اس کے گرد گھومتا ہے۔جہاں کہیں بھی حضرت عمر پر اسکندریہ کے کتب خانہ کو جلانے کا الزام لگا وہاں یہی ملتا ہے کہ یحیی النحوی نام کے ایک شخص سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوتی ہے اور یحیی النحوی انہیں روکنے کی کوشش کرتا ہے لیکن افسوس ناکام رہتا ہے۔

اب مسلہ یہ ہے کہ اس واقعہ کی تردید کرنے والے مسلم مورخین میں سے کسی نے بھی اس یحیی النحوی کی تحقیق نہیں کی۔سب نے ابن ندیم ہی کو بنیاد بنا کر اس شخص کے حالات بیان کیے اور کسی نے اس طرف جانے کی زحمت نہیں کی کہ آخر ابن ندیم بھی یحیی النحوی کے عمرو بن العاص سے ملاقات پر ایک اشکال کا ذکر کرچکا ہے۔یہ ایسی سنگین خطا تھی کہ اب تک مسلمان تذکرہ نگار اس کو درست نہیں کر پائے۔میری ناقص معلومات کی حد تک اب تک سوائے(ممکن ہے کسی اور نے بھی لکھا ہو لیکن میرے علم میں نہیں) “علامہ جواد علی عراقی”(وفات 1407ہجری، صاحب المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام)کے کسی مسلم مورخ یا تذکرہ نگار نے اب تک اس مسلہ پر گفتگو نہیں کی۔

علامہ جواد علی نے بھی ایک مختصر مقالہ لکھا جو “الرسلہ ، مصر” میں شائع ہوا۔اس رسالہ میں انہوں نے یہ بات تو مان لی کہ یحیی النحوی کے بارے میں یونانی اور عربی ماخذ میں شدید اختلاف ہے۔ اگر یونانی ماخذ کو مان لیا جائے تو یہ بات ماننا کافی مشکل ہو جاتا ہے کہ یحیی النحوی عمرو بن العاص سے کبھی ملے ہوں۔(الرسالہ ، 9 مارچ1942، صفحہ 296-297)۔لیکن انہوں نے نہ تو اس پر کوئی تسلی بخش گفتگو کی اور نہ ہی اس اختلاف کی وجہ پر نگاہ کی۔علامہ جواد علی کے مقابلہ میں “لبنانی پادری لویس شیخو”(Louis cheikho، وفات 1347ہجری) کا مقالہ زیادہ بہتر تھا۔جو کہ لبنانی جریدہ “المشرق”(جلد 16، صفحہ 47-57،جنوری 1913)میں شائع ہوا۔لہذا اس انسان پر تحقیق ضروری ہے ۔

تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ ابتداء عرب ماخذ سے کی جائے کیونکہ سارا وبال وہیں سے شروع ہوا ہے۔عربی ماخذ کی بات کریں تو سب سے پہلے یحیی النحوی کا ذکر دو اہل علم نے کیا جو دونوں ایک دوسرے کے ہم عصر تھے۔ایک تھے “ابو الفرج/ابو الفتح محمد بن اسحاق بن ندیم بن وراق بغدادی”(وفات385ہجری) جو کہ “علامہ ابن ندیم” کے نام سے معروف ہیں۔ابن ندیم نے اپنی کتاب “الفہرست” میں یحیی النحوی کا ترجمہ قائم کیا۔اس کتاب میں انہوں نے عرب و عجم کی ان تمام کتب کی فہرست انکے مولفین کے تذکروں کے ساتھ دی جو 377 ہجری تک عربی رسم الخط میں موجود تھیں خواہ وہ ترجمہ ہی کیوں نہ ہوں۔

اس میں انہوں نے اس بات کا خاص اہتمام کیا کہ صرف ان کتب کو لکھیں گے جو خاص ان کے مطالعے میں آئی ہوں۔بعد میں آنے والوں کے لیے یہ ایک بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے “ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور” نے اس کا اردو ترجمہ بھی شائع کیا۔اس کے صفحہ 364(اردو ترجمہ کا صفحہ597-598) پر یحیی النحوی کے تذکرہ میں علامہ ابن ندیم نے درج ذیل باتیں لکھیں۔

1۔اس کا تعلق مصر سے تھا لیکن شہر کون سا تھا یہ نہیں لکھا۔ ساداری کا شاگرد تھا۔
2۔ عیسائیت کے فرقہ یعقوبیہ کا پیرو تھا۔لیکن بعد کو الگ ہو گیا۔
3۔فتح مصر کے وقت زندہ تھا اور عمرو بن العاص سے ملا بھی تھا ۔عمرو بن العاص نے اس کی کافی عزت کی۔
4۔ ارسطو کی تصانیف کی شرح کی اور اس پر رد بھی لکھا۔اور آخر میں اس کی کتب کی فہرست دی۔

دوسرے تھے “ابو سلیمان محمد بن طاھر بن بہرام سجستانی” (وفات 380 ہجری)جو کہ “ابو سلیمان المنطقی” کے نام سے معروف ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب “صوان الحکمہ” کے صفحہ 276-279″ پر یحیی النحوی کا ترجمہ قائم کیا۔ابن ندیم سے ہٹ کر انہوں نے الگ باتیں اس کے بارے میں لکھیں کیونکہ یہ خود ایک فلسفی تھے اور منطق و فلسفہ سے شغف رکھتے تھے اس لیے انہوں نے کچھ ایسی باتیں لکھیں جو کہ یونانی ماخذ سے میل کھاتی ہیں جیسے:

1۔انہوں نے اس کو اسکندریہ کا باشندہ لکھا۔
2۔استاد کا نام “امینوس(Ammonius) بتایا اور یہ بھی لکھا کہ یہ برقلیوس (Proclus) سے ملا تھا۔

باقی ایک انوکھا دعوی انہوں نے یہ کیا کے یہ طب کا بھی عالم تھا اور “خالد بن یزید بن معاویہ الاموی”(وفات 85ہجری) نے بھی اس کی کتب سے بہت کچھ اخذ کیا لیکن مسلہ یہ ہے کہ”ابو الحسن ظہیرالدین علی بن زید البیھقی” (وفات 565 ہجری) جو کہ “ابن فندق “کے نام سے مشہور ہیں ، نے جب اسی صوان الحکمہ کا تمتہ لکھا بنام “تمتہ صوان الحکمہ” تو اس کے صفحہ “5” پر اسی یحیی النحوی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا:

“والمنسوب إلى الديلم كان يحيى الديلمي من قدماء الحكماء وكان نصرانيا فيلسوفا”

یعنی ابن فندق نے اسے ایران کے شہر “دیلم” کا باشندہ قرار دے دیا۔جبکہ اصل کتاب میں اسے مصر کے شہر اسکندریہ کا باشندہ لکھا گیا ہے۔ابن فندق نے اس یحیی النحوی کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہم عصر قرار دے دیا اور اسکے حالات میں لکھا کہ جب فارس میں تعینات حضرت علی کے ایک عامل نے اسے تنگ کیا تو اس نے حضرت علی کو ایک خط لکھا اور امان طلب کی ۔ امان کا خط حضرت علی کے بیٹے محمدبن الحنفیہ نے حضرت علی کی طرف سے لکھا جس کا ایک نسخہ ابن فدق کہتا میں نے خود دیکھا تھا جس پر لکھا تھا:

“الله الملك وعلي عبده” “یعنی اللہ بادشاہ ہے اور علی اس کا بندہ”

اب یہاں بہت بڑا مسلہ بن جاتا ہے کہ جس یحیی النحوی کو ابن ندیم اور ابو سلیمان مصری بتا رہے اسے ابن فندق ایرانی بتا رہا۔اس کتاب کے محقق نے حاشیہ میں لکھا کہ یہ شخص وہ والا یحیی النحوی نہیں جو عمرو بن العاص سے ملا تھا اور اسکندریہ کا رہنے والا تھا لیکن مسلہ یہ ہے کہ جو جو خصوصیات اس کی لکھی گی ہیں وہ اسی یحیی سے ملتی ہیں جس کا محقق صاحب انکار کر رہے ہیں ۔بہرحال اس سے پتہ چلتا ہے کہ یحیی النحوی کے نام کے کئ لوگ مشہور تھے ۔اب دلچسپ بات یہ ہے کہ صوان الحکمہ کے محقق نے نیچے حاشیہ میں لکھا :

“من المعلوم ان یحیی النحوی توفی قبل الاسلام” ( یعنی یحیی النحوی اسلام سے قبل ہی مر چکا تھا)

دلچسپ بات یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ یحیی النحوی کے وطن پر اختلاف پیدا ہوا تینوں نے اس کے تذکرہ میں اسکندریہ کے کتب خانے کو جلائے جانے والے واقعہ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

اسکے بعد “ابو العباس احمد بن قاسم خزرجی”(وفات 668 ہجری) جو کہ “ابن ابی اصیبعہ” کے نام سے معروف ہیں نے اپنی کتاب “عیون الانباء فی طبقات الاطباء” (جو کہ مختلف علاقوں کے طبیبوں کے احوال پر مشتمل ہے درجوں کے اعتبار سے) کے صفحہ “151-154” پر بڑی تفصیل سے اس کا ذکر کیا ہے۔چونکہ ابن ابی اصیبعہ کافی بعد میں آئے ہیں لہذا تمام عیسائی ماخذ بھی ان کے سامنے تھے۔انہوں نے پہلی بار یحیی النحوی کا وہ نام لکھا جس نام سے وہ یونانی اور سریانی ماخذ میں پکارے گے یعنی “فیلوپونوس”۔

“وليحيى النَّحْوِيّ هَذَا لقب آخر بالرومي يُقَال لَهُ فيلوبينوس” اسکے علاوہ ابن ابی اصیبعہ نے اسے اسکندریہ کا باشندہ قرار دیا اور اس کے بارے میں لکھا کہ یہ اسلام کے ابتدائی زمانہ سے تعلق رکھتا تھا۔

“وَعمر من هَؤُلَاءِ الإسكندرانيين يحيى النَّحْوِيّ الإسْكَنْدراني الإسكلاني حَتَّى لحق أَوَائِل الْإِسْلَام”

اس کے بعد ان کی کتب کی تفصیل فراہم کی۔اس کے علاوہ ابن ابی اصیبعہ نے ایک انوکھی بات لکھی ہے ۔انہوں نے لکھا کہ کسی عیسائی مورخ کی تاریخ میں انہوں نے پڑھا کہ یحیی النحوی خلدونیہ (Chalcedon)کی چوتھی کونسل میں شریک تھا)خلدونیہ کا موجودہ نام “قاضی کوئے”Kadikoyہےجوکہ ترکی کا ایک ضلع ہے)۔ابن ابی اصیبعہ کے بیان کے مطابق 630 پادریوں کے اس اجتماع میں “اوتوشیوش”(Eutychius)نام کا ایک پادری بھی تھا اور وہی یحیی النحوی ہے۔

” وَوجدت فِي بعض تواريخ النَّصَارَى أَن يحيى النَّحْوِيّ كَانَ فِي الْمجمع الرَّابِع الَّذِي اجْتمع فِي مَدِينَة يُقَال لَهَا خلكدونية وَكَانَ فِي هَذَا الْمجمع سِتّمائَة وَثَلَاثُونَ أسقفا على أوتوشيوس وَهُوَ يحيى النَّحْوِيّ”

اگرچہ ابن ابی اصیبعہ نے یہ تو نہیں بتایا کہ کس عیسائی مورخ کا یہ بیان ہے لیکن یہ بڑی اہم بات بیان ہوئی ہے۔اس پر آگے تبصرہ ہوگا۔

آخری اہم ماخذ ابن ابی اصیبعہ کے ہی ہم عصر “وزیر جمال الدین ابی الحسن علی بن یوسف قفطی” (وفات 646ہجری) جوکہ”ابن قفطی” کے نام سے مشہور ہیں کو قرار دیا جاتا ہے۔انہوں نے اپنی کتاب “اخبار العلماء با اخبار الحکماء” میں صفحہ “265-267” میں یحیی النحوی کا ترجمہ قائم کیا(ترجمہ نمبر330)۔ سوائے اسکندریہ کے کتب خانے کے جلائے جانے کہ ابن قفطی نے کوئی نئی بات نہیں لکھی۔

یہی وہ پانچ اہم ماخذ ہیں جن کی بنیاد پر یحیی النحوی کا ترجمہ بعد میں آنے والے مسلم محققین کے قائم کیا۔خواہ وہ اعماعیل بابابی بغدادی (وفات 1399 ہجری)کی “ہدیہ العارفین ” ہو(جلد 2 صفحہ 513) یا پھر عمر کحالہ (وفات 1408ہجری) کی “معجم المولفین”(جلد 13 صفحہ 234-235)ہو۔اس میں بھی اگر گور کیا جائے تو بنیادی ماخذ صرف دو ہیں یعنی ابن ندیم اور ابو سلیمان سجستانی باقی تین ناقل ہیں۔اب ان تمام ماخذ کو سامنے رکھ کر جو بات سامنے آتی وہ یہ ہے:

1۔یحیی النحوی کا اصل وطن کون سا ہے؟اس پر اختلاف ہے اکثر ماخذ اسے مصری (اسکندریہ) بتاتے لیکن ایک ماخذ میں ایرانی(دیلم) ہونے کا بھی ذکر ہے۔

2۔تمام ماخذ اس پر متفق ہیں کہ یہ خلفائے رشدین کا ہم عصر تھا۔اکثریت ماخذ اسے عمرو بن العاص سے ملتا ہوا بتاتے ہیں جبکہ ایک ماخذ حضرت علی سے اسکی خط و کتابت کی بات کرتا۔

3۔خلدونیہ کی چوتھی کونسل میں یہ موجود تھا۔
4۔اس نے ارسطو کی کتب کی تفاسیر لکھیں اور ان کا رد بھی لکھا۔
5۔مذہبا عیسائی تھا لیکن بعد میں مذہب چھوڑ دیا۔
یہ تھی وہ بنیادی باتیں جو عربی ماخذ کو پرکھنے سے ہمارے سامنے آئی ہیں۔

اب اگر ہم یونانی وسریانی ماخذ کو سامنے رکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جس شخص کو مسلم ماخذ میں یحیی النحوی قرار دیا جا رہا ہے ان خصوصیات کا حامل شخص ان ماخذ میں “یوحنا”(Jhon) کے نام سے موجود ہے جس کا لقب “فلیوپونوس”(Philiponos) تھا۔فلیوپونوس کا معنی ہے”محنت سے محبت کرنے والا”۔اس کے مخالفین اسے “میٹویوپونوس”(Mataioponus) کہتے تھے یعنی “وہ جو بیکار رہا یا بے کار ہی مر گیا”۔اس کے علاوہ اس کا ایک اور لقب “گراماطیقی (Grammarian) بھی تھا۔بیت المقدس کے پادری “سوفرونیئس”(Sophronius ،وفات صفر 17 ہجری) نے بیت المقدس کی کلیسائی مجلس کے احوال پر ایک خط قسطنطینہ کے پادری “سرجیوس”(Sergius ، وفات ذیقعد 17 ہجری) کو لکھا جس کی تعریف وہ خط میں کچھ اس طرح کرتا ہے:

“Most Holy Master in all things and most blessed brother and fellow minister”

اس خط میں عیسائی عقائد و نظریات پر بحث کرنے کے بعد آخر میں سوفرونیئس نے ان لوگوں کی فہرست فراہم کی جو کہ بدعتی یا گمراہ تھے ان پر تبراء کرتے ہوئے اس میں یوحنا فلیوپونوس کا بھی نام شامل کیا اور اس کے تمام القاب لکھ کر میٹویوپونوس کو پسند کیا۔

” Accordingly , by the holy and consubstantial and worshipful Trinity , Father , Son ,and Holy Spirit, let there be anathema and condemnation forever(page 137)……..(page 143) Jhon the Grammarian, whose epithet is Philiponus, or rather Mataioponus” (Synodial letter by St.Sophronius to St. Sergius)

سوفرونیئس کے اس خط کو قسطنطنیہ(موجودہ استنبول)کی تیسری کونسل (منعقدہ 60-61ہجری) نے منظور کر لیا اور اسے کاروائی کا حصہ بنایا۔پادری سرجیوس جسے خط لکھا گیا کو خود اس کے بعد نظریات کی وجہ سے قسطنطنیہ کی اسی تیسری کونسل کی قرارداد میں مطعون ٹھہرا یا گیا یہاں تک کہ اسے سانپ قرار دے دیا گیا جس نے عیسائیت کو شیطان کے ساتھ مل کر نقصان پہنچایا۔یعنی ایک جھٹکے میں سوفرونیئس کا ” Most Holy Master in all things”بدعتی قرار دے دیا گیا۔

“But since from the first, the contriver of evil did not rest, finding an accomplice in the serpent and through him bringing upon human nature the poisoned dart of death, so too now he has found instruments suited to his own purpose namely Theodore, who was bishop of Pharan, Sergius……………”

اس کے علاوہ سرجیوس قسطنطنیہ کے اس تاریخی معاصرے (4ہجری) کے وقت زندہ تھا جس میں ایرانیوں کی شکست نے قران کے اس دعوی کو سچا کر دکھایا جو اس فتح سے چند سال قبل مسلمانوں سے کیا گیا تھا۔سورۃ الروم میں اللہ فرماتا ہے:

” رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہو گئے ہیں۔ اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہو جائیں گے۔ اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔اور وہ دن وہ ہو گا جبکہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے۔ اللہ نصرت عطا فرماتا ہے جسے چاہتا ہے، اور وہ زبردست اور رحیم ہے۔ یہ وعدہ اللہ نے کیا ہے، اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں” (آیات 2-6)۔

یہ آیات حق رکھتی ہیں ان پر الگ سے لکھا جائے۔ انشاءاللہ لکھا جائے گا۔

یوحنا فلیوپونوس اسکندریہ کے فلسفیوں کے اس طبقہ سے تعلق رکھتا تھا جسے “نو افلاطونی”(Neoplatonic) کہا جاتا ہے۔وہ “امونیاس بن ھرمیاس”(Ammonius bin Hermias، وفات 517-526 عیسوی ) کا شاگرد تھا۔امونیاس رسالت مآبﷺ کی پیدائش سے 44-53سال قبل وفات پا چکا تھا۔یوحنا فلیو پونوس کی پیدائش کب ہوئی اس پر کوئی حتمی رائے تو نہیں دی جا سکتی لیکن محققین کا ماننا ہے کہ اس کی کتب کو دیکھ کر اندازہ ہوتا وہ “490عیسوی” میں پیدا ہوا۔

اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی کہ خلدونیہ کی چوتھی کونسل(منعقدہ 451عیسوی) میں شرکت کے متعلق جو ابن ابی اصیبعہ کا دعوی اوپر نقل ہوا وہ درست نہیں۔اس وقت یوحنا فلیوپونوس پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔لگتا ہے ابن ابی اصیبعہ کو وہم ہوا ہے۔اس کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ اس نے “اتوشیوش” کو ہی یوحنا پلیوپونوس قرار دے دیا۔حالانکہ اتوشیوش کےمتعلق اس نے درج ذیل باتیں لکھیں ہیں۔

1۔وہ طبیب بھی تھا لیکن یوحنا پلیوپونوس طبیب نہیں تھا۔

2۔اتوشیوش کو کلیسا کی مجلس سے نکال دیا گیا تھا لیکن اپنے باقی ساتھیوں کی طرح جلاوطن نہیں کیا گیا۔جبکہ یوحنا فلیوپونس کبھی بھی کسی مجلس کلیسا کا ممبر نہیں رہا۔

3۔اتوشیوش کے اچھا طبیب ہونے کی وجہ سے اسے قسطنطنیہ میں ہی رہنے دیا گیا جہاں وہ بازنطینی(Byzantine، اہل عرب انہیں قیصر کہا کرتے تھے)بادشاہ مرقیان(Marcian ، وفات 457 عیسوی) کی وفات تک رہا۔یہ بھی درست نہیں کیونکہ ایک تو یوحنا فلیوپونوس کبھی بھی قسطنطنیہ نہیں گیا ۔دوسرا جس بادشاہ کا یہاں ذکر ہو رہا وہ بھی یوحنا فلیوپونوس کی پیدائش سے 33 سال پہلے وفات پا چکا تھا۔

” وَهَذَا أوتوشيوس كَانَ طَبِيبا حكيما وَأَنَّهُمْ لما أحرموه لم ينفوه كَمَا نفوا المحرومين
وَكَانَ ذَلِك لحاجتهم إِلَى طبه
وَترك فِي مَدِينَة الْقُسْطَنْطِينِيَّة وَلم يزل مُقيما بهَا حَتَّى مَاتَ مرقيان الْملك”

یہاں ایک اور بات بڑی دلچسپ ہے۔اوتوشیوش نام کے دو اہم لوگ گزرے ہیں۔ایک” اوتوشیوش قسطنطنیہ کا باشندہ تھا” جو کہ یوحنا پلیوپونوس کا ہم عصر تھا۔بازنطینی حکمران جسٹنین اول(Justinian I،وفات 565 عیسوی)کے دور میں قسطنطینہ کا پادری بنا لیکن پھر جسٹنین ہی سے اختلافات کے نتیجہ میں گرفتار ہوا اور پھر ملک بدر کردیا گیا ۔پھر جسٹن دوئم (Justin II ، وفات 578 عیسوی) کے دور میں واپس قسطنطینہ لایا گیا اور عہدہ بھی بحال ہوگیا۔

پھر تیبریوس ثانی (Tiberuis II،وفات 582عیسوی) کے دور میں 5 اپریل 582 کو دار فانی سے رخصت ہوا۔ جبکہ دوسرا اوتوشیوش اسکندریہ کا باشندہ تھا ۔اس کا نام “سعد بن بطریق” تھا۔مورخ و طبیب تھا۔یوحنا پلیوپونوس کی وفات کے قریب 300 سال بعد پیدا ہوا اور 328 ہجری میں اس کا انتقال ہوا۔ان تین الگ الگ لوگوں کو ایک ہی آدمی سمجھ لیا گیا۔

یوحنا پلیوپونوس نے جب ارسطو اور برقلیوس کا رد لکھنا شروع کیا تو اسی کے استاد امیونیاس کے دوسرے شاگرد “سیمپلیکیوس”(Simplicius،وفات 560 عیسوی) نے یوحنا کو آڑے ہاتھوں لیا۔اس نے ایک طرف اسے فلیوپونوس کی بجائے گراماطیقی لکھا تو وہی دوسری طرف اس کی تردید کرتے ہوئے اس کے متعلق لکھا کہ وہ ابھی اتنا بڑا نہیں ہوا کہ ارسطو اور برقلیوس جیسے فلسفیوں کا رد لکھ سکے اس کے اعتراضات کوئی وزن نہیں رکھتے اور وہ فضول ہیں۔

”Simplicius who by referring to Philoponus as grammatikos, i.e. ,professor of philology, implied that Philoponus had not yet advanced to the stage of philosophas(professor of philosophy) , and that his attacks on Proclus and Aristotle were therefore precocious and baseless.”(انسیکلوپیڈیا آف اسلام، یحیی النحوی)

یوحنا پلیوپونوس کے متعلق ہمیں یہ بھی ملتا ہے کہ وہ پیدائشی عیسائی تھا یا پھر بعد میں عیسائی بنا اس پر محققین تقسیم ہیں۔کچھ محققین کا ماننا ہے کہ جن کتب میں اس نے صرف فلسفیانہ گفتگو کی ہے وہ عیسائی بننے سے پہلے کی ہے اور جن میں اس نے عیسائی عقائد کو موضوع بنایا وہ عیسائیت اختیار کرنے کے بعد کی ہیں۔لیکن” Uwe Michael LANG” نے اپنی کتاب ” JOHN PHILOPONUS AND THE CONTROVERSIES OVER CHALCEDON IN THE SIXTH CENTURY” میں تفصیلی بحث کے بعد اس بات کو ثابت کیا کہ وہ پیدائشی عیسائی تھا۔

“There is, then, reasonable evidence to say that Philoponus, also known to the Latin Middle Ages as Johannes Christianus, had always been a Christian”

اس کے علاوہ پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر “کرسچن ولڈبرگ” نے یوحنا فلیوپونوس پر لکھے گے اپنے مقالے میں اس کی دستیاب کتب میں موجود تاریخوں اور اس میں لکھے گے مواد کی مدد سے اس کے زمانے کو متعین کیا اور اس کی کتب کی روشنی میں اس کے نظریات پر گفتگو کی۔ان کا مقالہ “Stanford Encyclopedia of Philosophy”

میں موجود ہے۔اس مقالہ کے مطابق یوحنا کی دستیاب کتب میں پہلی کتاب “510-515″عیسوی کے درمیان لکھی گی اور آخری دستیاب کتاب “567”عیسوی میں لکھی گی۔لہذا یونانی و سریانی ماخذ یوحنا فلیوپونوس کو 570 عیسوی کے بعد زندہ نہیں بتاتے۔وہ سال جس میں رسالت مآبﷺ پیدا ہوئے۔

اب اگر ہم یونانی و سریانی اور عربی ماخذ کو ملائیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یونانی و سریانی ماخذ جس شخص کو یوحنا فلیوپونوس قرار دے رہے ہیں وہی شخص عربی ماخذ میں یحیی النحوی کے نام سے آیا ہے۔دونوں ماخذ میں اسے اسکندریہ کا باشندہ لکھا گیا ہے۔اس سے یہ بات تو ثابت ہو جاتی کہ ابن فندق کا اسے دیلمی بتانا وہم پر مبنی ہے۔اس نے کسی اور یحیی النحوی کو اسکندریہ والا یوحنا فلیوپونوس سمجھ لیا۔لیکن ایک بہت بڑا اختلاف ہے جو کہ دونوں ماخذ میں آیا ہوا ہے۔

1۔یونانی و سریانی ماخذ کے مطابق یوحنا فلیوپونوس کی وفات کا انتہائی سال 570 عیسوی تھا اور اس پر تمام مغربی محققین متفق ہیں۔یوحنا فلیوپونوس پر کام کرنے والے تمام محققین اس کا سنہ وفات 570 عیسوی بتاتے ہیں۔

2۔جبکہ مسلم ماخذ اسکی ملاقات اسکندریہ کی فتح کے وقت عمرو بن العاص سے ہونا بیان کرتے ہیں اور وہ اس پر متفق ہیں۔

اب اگر ایک یا دو سال کا فاصلہ ہو تو اسے سمیٹا جا سکتا ہے لیکن یہاں فاصلہ 71 سال کا ہے کیونکہ اسکندریہ 641عیسوی (17ہجری) میں فتح ہوا۔اتنی بات تو صاف ہے کہ دونوں میں سے ایک کو غلطی لگی ہے لیکن کس کو؟ جس طرح ابن ندیم اور ابو سلیمان منطقی یوحنا فلیوپونوس کی کتب سے واقف تھے اسی طرح مغربی مصنفین بھی واقف ہیں۔تو پھر غلطی پر کون ہے؟کہیں ایسا تو نہیں یہاں دو الگ الگ لوگوں کو ایک سمجھ لیا گیا ہے؟ لطف کی بات تو یہ ہے کہ ابن العبری( جس کا ذکر ” کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسکندریہ کا کتب خانہ جلوا دیا تھا؟”اپنی اس تحریر میں میں نے کیا تھا۔)جو یونانی و سریانی زبان کا عالم تھا۔اس نے بھی ابن قفطی کے بیان پر اعتماد کرتے ہوئے وہی سب لکھا جو ابن قفطی نے لکھا۔اب صحیح صورتحال کیا ہے؟

اب اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ یحیی النحوی اور یوحنا فلیوپونوس ایک ہی ہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مسلمانوں تذکرہ نگاروں کو مغالطہ ہوا ہے اور اگر یہ دو الگ لوگ ہیں تو پھر یحیی النحوی کا تعین برقرار رہے گا۔اب جب ہم علامہ ابن ندیم کی کتاب “الفہرست” کو دوبارہ کھولتے ہیں تو اس میں ایک اقتباس ہماری رہنمائی کرتا ہے۔علامہ ابن ندیم یحیی النحوی کے تذکرے کے آخر میں لکھتے ہیں:

” ذكر يحيى النحوي في المقالة الرابعة من تفسيره لكتاب السماع الطبيعي في الكلام في الزمان مثالا قال فيه مثل سنتنا هذه وهي سنة ثلاث وأربعين وثلاثمائة لدقلطانوس القبطي فهذا يدل على أن بيننا وبين يحيى النحوي ثلاثمائة سنة ونيف وقد يجوز أن يكون فسر هذا الكتاب في صدر عمره لأنه كان في أيام عمرو بن العاص” (صفحہ 364)۔(صفحہ 598 اردو ترجمہ)۔

“یحیی النحوی نے کتاب السماع الطبیعی(فزکس) کے چوتھے مقالہ (Book 4)کی شرح کرتے ہوئے الکلام فی الزمان(زمانے یعنی (Time کی بحث میں بطور مثال کہا ہے کہ ہمارا سن343دقلطیانوس قبطی (Diocletian Year)کے مطابق ہے۔یہ اس بات پر دلالت کنان ہے کہ ہمارے اور یحیی نحوی کے درمیان کچھ اوپر تین سو سال کا فاصلہ ہے،ممکن ہے اس نے اپنی کتاب کی شرح اپنے اوائل عمر میں کی ہو۔اس لیے کہ وہ عمرو بن العاص کے زمانہ میں زندہ تھا”

علامہ ابن ندیم نے ہمارا کام کافی آسان کر دیا ہے۔السماع الطبیعی ارسطو کی کتاب “Phusike akroasis” (جو “فزکس” کے نام سے معروف ہے)کا عربی نام ہے۔جب ہم یوحنا فلیوپونوس کی ارسطو کی کتاب”فزکس”کی شرح دیکھتے ہیں تو ہمیں ہو بہو یہی عبارت اسی مقام پر ملتی ہے جس کی نشان دہی ابن ندیم نے کی۔

یوحنا فلیوپونوس پہلے لکھتا ہے:
“Next for discussion after the subjects mentioned is time”
اس کے بعد اگے لکھتا ہے:

“The first is that it is impossible for there to occur two times together unless one contains and the other is contained [218a11-14]. (For we say that a year and a month and a day are present now – <the> year is the 233rd of Diocletian, <the> month is Pachon, <the> day is the 10th”

(Philoponus: On Aristotle Physics, Book 4, Page3- 4)

اس کتاب کے مترجم نے بھی اس عبارت کی بنیاد پر اس بات کو تسلیم کیا کہ یوحنا فلیوپونوس چھٹی صدی عیسوی کی شخصیت ہیں۔وہ لکھتے ہیں:

“A reference at the very beginning of the commentary on 4.10, at 703, 16, 17
(Page viii-ix) dates the writing to 517 AD”

مذکورہ عبارت سے یہ بات شیشے کی طرح صاف ہو جاتی ہے کہ در حقیقت یحیی النحوی اور یوحنا فلیوپونوس ایک ہی آدمی ہیں اور ابن ندیم کا یہ خدشہ درست ہے کہ اگر اس عبارت کو مانیں تو عمرو بن العاص سے اس کی ملاقات مشکل ہو جاتی کیونکہ فاصلہ بڑھ جاتاہے۔اگرچہ ابن ندیم نے اس کی تاویل کی ہے لیکن حقائق اس کے مطابق نہیں ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ جب یوحنا فلیوپونوس یا یحیی النحوی فتح اسکندریہ کے 71 سال پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے تو پھر یہ اتنا بڑا مغالطہ ہو کیسے گیا؟لویس شیخو نے اپنے مقالے میں اس کا یہ جواب دیا کہ اصل میں فتح اسکندریہ کے وقت یوحنا نقیوسی (Jhon of Nikiu،وفات 50-60ہجری) نام کا پادری موجود تھا جسے انہوں نے غلطی سے یوحنا فلیوپونوس سمجھ لیا۔اب یہ بات درست تو ہے کہ یوحنا نقیوسی نام کا پادری اس وقت موجود تھا لیکن وہ عمرو بن العاص سے ملا یہ ماننا مشکل ہے۔

کیونکہ ایک تو وہ فتح اسکندریہ کے وقت موجود تھا اور دوسرا اس نے اپنی تاریخ میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ وہ کبھی عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے ملا۔اگر وہ کبھی ملا ہوتا تو ضرور بیان کرتا۔لیکن اس نے ایک اور یوحنا کا ذکر کیا ہے جو کہ عمرو بن العاص سے ملا تھا اور عمرو بن العاص نے اسے حکومتی عہدہ بھی دیا تھا۔وہ لکھتا ہے:

“And in the second year of the lunar cycle came John of the city of Damietta. He had been appointed by the governor Theodore, and had lent his aid to the Moslem in order to prevent their destruction of the city. Now he had been appointed prefect of the city of Alexandria when ‘Amr entered it, and this John had compassion on the poor, and gave generously to them out of his possessions. And seeing their affliction he had mercy upon them, and wept over their lot. ‘Amr deposed Menas and appointed John in his stead.”

ممکن ہے یہی وہ یحیی ہو جسے یوحنا فلیوپونوس سمجھ لیا گیا۔بہرحال صورتحال جو بھی رہی ہو مسلم تذکرہ نگاروں کی اس فاش غلطی کے پیچھے مجھے صرف تین وجوہات نظر آتی ہیں۔

1۔یونانی یا سریانی زبان سے ناواقف ہونا۔چونکہ انہوں نے ان کتب کو ان کی اصل زبان کی بجائے ان کے ترجمے کروا کر انہیں پڑھا تو نتیجہ یہ نکلا کہ جو غلطیاں ترجموں میں ہوئیں تھیں وہ درست نہ ہو سکیں لہذا جو عبارت جیسے لکھی تھی یا جو نام جیسے لکھا تھا اسے ویسے کا ویسا چھاپ دیا گیا بغیر اصل زبان کو جانے۔

2۔مسلم مورخین کی لکھی گئیں تاریخ یا سوانح کی ابتدائی کتب بغیر کسی اصول کو سامنے رکھ کر لکھی گئیں ہیں ۔کئی بار ایک ایک شخصیت کے متعلق انتہائی متضاد باتیں لکھ دی جاتیں اور یہ تک نہیں بتایا جاتا کہ خود مورخ کا اپنا رجحان کس جانب ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ ہر قسم کی غلط سلط حکایت تاریخ کا حصہ بن جاتی۔پھر بعد میں آنے والے بھی ان پر کسی قسم کا تنقیدی کام نہیں کرتے۔نتیجہ یہ نکلتا کہ وہ حکایات نقل در نقل ہوتی چلی جاتیں اور “مستند” تاریخی ماخذ کی حیثیت اختیار کر لیتیں۔

3۔کئی بار ایسا ہوتا ایک ہی نام کے کئی لوگ ہوتے۔اب اگر ان شخصیات کا تعلق یونانی یا سریانی ماخذ سے ہوتا تو اصل زبان نہ جاننے کی وجہ سے ہمارے تذکرہ نگار اس میں فرق نہیں کر پاتے۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ کئی شخصیات خلط ملط ہو جاتیں۔جیسے اوپر “اوتوشیوش “کے حوالے سے بیان ہوا اسی طرح یحیی النحوی کے حوالے سے جو ہوا جس پر یہ پوری تحریر لکھی گئی ہے۔

لہذا ان تمام دلائل کی روشنی میں یہ ثابت ہو تا ہے کہ یحیی النحوی نام کے جس شخص پر اسکندریہ کے کتب خانے کو جلانے کا افسانہ کھڑا کیا گیا اور ذمہ دار سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ٹھہرایا گیا ۔اس شخص کا انتقال 71 برس قبل ہی ہوچکا تھا۔اس سے بڑھ کر کیا ثبوت پیش کیا جائے اس واقعہ کے من گھڑت ہونے پر۔

تحریر کا اختتام یوحنا نقیوسی کے ان جملوں پر کروں گا جو اس نے فاتح مصر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے رویہ کے متعلق لکھے جب اسکندریہ فتح ہوا ۔وہ پڑھنے کے لائق ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ کا کیا کردار تھا۔یہ بات یاد رہے کہ یوحنا نقیوسی نہ ہی صرف عیسائی راہب ہے بلکہ فتح اسکندریہ کے وقت زندہ تھا اور وہیں موجود تھا۔یہ کسی مسلمان مورخ کا بیان نہیں ۔وہ لکھتا ہے:

“On the twentieth of Maskaram, Theodore and all his troops and officers set out and proceeded to the island of Cyprus, and abandoned the city of Alexandria. And thereupon ‘Amr the chief of the Moslem made his entry without effort into the city of Alexandria. And the inhabitants received him with respect; for they were in great tribulation and affliction.”

جب عمرو بن العاص والہانہ استقبال کے بعد شہر میں داخل ہوئے تو ان کا رویہ کیا تھا لوگوں کے ساتھ اس پر یوحنا نقیوسی اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:

“And ‘Amr became stronger every day in every field of his activity. And he exacted the taxes (Jizya) which had been determined upon, but he took none of the property of the Churches, and he committed no act of spoliation or plunder, and he preserved them throughout all his days.”

کیا شاندار کردار تھا سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments