پر امن اور خوشحال ہمسائیگی کا نمونہ


ابھی حال ہی میں چین آسیان مذاکراتی تعلقات کی 30 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک ورچوئل سمٹ کا انعقاد کیا گیا جس میں باضابطہ طور پر فریقین کے درمیان ایک جامع اسٹریٹجک شراکت داری کے قیام کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس اعلان کے نتیجے میں چین اور آسیان کے درمیان 30 سالہ تعاون نے ایک نیا سنگ میل عبور کیا ہے، اور جامع شراکت دارانہ تعلقات کے ثمرات کے نتیجے میں 11 ممالک کے 2 ارب سے زائد افراد بہتر زندگی گزار سکیں گے۔ تاریخی اعتبار سے وقت کے ساتھ ساتھ چین آسیان سیاسی باہمی اعتماد سازی تین دہائیوں کے دوران مزید گہری ہوئی ہے۔

اس دوران 1996 میں ”فل ڈائیلاگ پارٹنرز“ سے لے کر 1997 میں ”21 ویں صدی کی باہمی اعتماد پر مبنی عمدہ ہمسائیگی شراکت داری“ اور پھر 2003 میں ”امن اور خوشحالی پر مبنی اسٹریٹجک شراکت داری“ تک، چین۔ آسیان تعلقات نے بہت تیزی سے ترقی کی ہے۔ دونوں فریقوں کے درمیان صدور، وزرائے اعظم، وزراء اور اعلیٰ حکام سمیت مختلف سطحوں پر بات چیت اور تعاون کا طریقہ کار قائم کیا گیا ہے، جس نے دونوں فریقوں کے لیے اسٹریٹجک باہمی اعتماد سازی کی مضبوط بنیاد رکھی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین۔ آسیان کے چوبیس سربراہی اجلاس اور متعدد خصوصی سربراہی اجلاس کامیابی کے ساتھ منعقد ہوچکے ہیں جس سے دوطرفہ تعلقات کی ترقی کی سمت متعین ہوئی ہے۔ دونوں فریقین نے نیک نیتی اور اچھی ہمسائیگی کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے ایشیا پیسیفک خطے میں کامیاب تعاون کی بہترین مثال قائم کی ہے۔

اسی طرح اگر معاشی میدان میں کامیاب شراکت داری کا جائزہ لیا جائے تو چین آسیان تجارتی حجم تین دہائیاں قبل 8 بلین ڈالر سے بڑھتے ہوئے آج 684.6 بلین ڈالرز کی ریکارڈ سطح تک پہنچ چکا ہے۔ ایک اور اہم پیش رفت یہ بھی سامنے آئی کہ چین نے 2009 میں جاپان اور یورپی یونین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آسیان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بننے کا اعزاز حاصل کیا، آج مسلسل 12 سالوں سے چین یہ درجہ برقرار رکھے ہوئے ہے جو دونوں فریقوں کے مابین مضبوط تعلقات کی ایک عمدہ مثال ہے۔ مزید برآں، چین آسیان فری ٹریڈ ایریا کے نفاذ اور اپ گریڈنگ نے دونوں فریقوں کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کیا ہے۔ چین۔ آسیان ایکسپو، جس کا 18 سال سے کامیابی کے ساتھ انعقاد کیا جا رہا ہے، دوطرفہ تجارتی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک عملی پلیٹ فارم میں ڈھل چکی ہے۔

دونوں اطراف کے درمیان افرادی اور ثقافتی تبادلے بھی گزشتہ برسوں میں فروغ پائے ہیں۔ وبائی صورتحال سے قبل 2019 میں دونوں فریقوں کے درمیان افرادی تبادلوں کی سطح 65 ملین سے تجاوز کر چکی تھی، چین اور جنوب مشرقی ایشیا کے درمیان ہفتہ وار تقریباً 4500 پروازیں چلتی تھیں۔ آسیان ممالک کے نوجوانوں کو چین کی نئی اختراعات بالخصوص تیز رفتار ریلوے، کیو آر کوڈ کی ادائیگی، شیئرڈ سائیکلیں اور آن لائن شاپنگ بہت پسند ہیں۔ اسی طرح چینی ڈرامے اور دیگر تفریحی پروگرام بھی کافی پسند کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں فریق چاہتے ہیں کہ مستقبل کو دیکھتے ہوئے، چین آسیان دوستی کو مزید گہرا کیا جائے اور مزید روشن امکانات پیدا کیے جائیں۔

اس ضمن میں فریقین کی کوشش ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو اور علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری معاہدے آر سی ای پی کے ذریعے قریبی عملی تعاون کو فروغ دیا جائے، جس میں سے مؤخر الذکر 15 ایشیا پیسیفک ممالک بشمول آسٹریلیا اور جاپان کے درمیان، علاقائی تعاون کی ایک تاریخی کامیابی ہے۔ چین اس معاہدے میں آسیان کی بنیادی پوزیشن کی مضبوطی سے حمایت کرتا ہے اور اس نے آسیان اور دیگر فریقوں کے ساتھ مل کر اختلافات کو مساوی بات چیت کے ذریعے عملی طریقے سے حل کرنے کے لیے کام کیا ہے، یوں علاقائی اقتصادی تعاون کا ایک نیا نمونہ تشکیل دیا گیا ہے۔

زیادہ تر آر سی ای پی ممبران پہلے ہی بی آر آئی تعاون کے شراکت دار ہیں۔ چین اور آسیان آر سی ای پی پلیٹ فارم کے ذریعے تجارتی قواعد، سرمایہ کاری کے قواعد، ای کامرس، سرکاری خریداری اور مسابقت کی پالیسی پر مشترکہ قواعد اور ادارہ جاتی انتظامات تک پہنچ چکے ہیں، جو اعلیٰ معیار کے بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کو فروغ دینے میں معاون ہوں گے۔ مربوط مارکیٹ بی آر آئی میں اہم کردار ادا کرے گی اور ایشیا پیسفک اور عالمی معیشت کی بحالی میں بھی انتہائی مددگار رہے گی۔

چینی صدر شی جن پھنگ نے مستقبل میں چین۔ آسیان تعلقات کے حوالے سے پانچ تجاویز پیش کیں جن میں پرامن وطن، پرامن گھر، خوشحال گھر، خوبصورت گھر اور دوستانہ گھر کی تعمیر پر زور دیا گیا ہے۔ یہ پانچ تجاویز چین اور آسیان کے درمیان امن، سلامتی، ترقی، سبز تہذیب اور افرادی و ثقافتی تبادلوں سے متعلق گہرے تعاون کے تصور اور ایکشن پلان کی جامع وضاحت کرتی ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خطے سے باہر کے بعض ممالک علاقائی امور میں مداخلت سے دونوں فریقوں کے درمیان تنازعات اور محاذ آرائی کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے چین کا موقف ہے کہ دونوں فریقوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ خطے میں امن و سکون کو برقرار رکھیں اور بیرونی طاقتوں کے خلاف چوکس رہتے ہوئے ان کی سیاسی کارروائیوں کی مخالفت کریں۔ چین ہمیشہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ وہ کبھی بھی بالا دستی کی کوشش نہیں کرے گا اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ امن کو نقصان پہنچانے والے مختلف منفی عوامل سے نمٹنے کے لیے ہاتھ بٹائیں، اور مشترکہ طور پر بحیرہ جنوبی چین میں استحکام برقرار رکھیں۔

اسی ورچوئل سمٹ کے دوران شی جن پھنگ نے انسداد وبا سے متعلق چین۔ آسیان تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے نئے اقدامات کے سلسلے کا اعلان کیا، جس میں آسیان ممالک کو ویکسین کی اضافی 150 ملین خوراکوں کی امداد، اور آسیان انسداد وبا فنڈ کے لیے اضافی پانچ ملین ڈالر شامل ہیں۔ اس سے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کو اس وبا پر قابو پانے کے لیے مضبوط مدد ملے گی۔ چین نے اعلان کیا کہ وہ اگلے تین سالوں میں آسیان کو 1.5 بلین امریکی ڈالر کی ترقیاتی امداد فراہم کرے گا، اور اگلے پانچ سالوں میں آسیان سے 150 بلین امریکی ڈالر کی زرعی مصنوعات درآمد کرنے کی کوشش کرے گا۔ ان اقدامات کا مقصد مشترکہ مفادات کو وسعت دینا ہے۔ یہ اقدام ایک قریبی چین۔ آسیان ہم نصیب سماج کی تعمیر کو فروغ دے گا اور ایک پر امن اور خوشحال ہمسائیگی کے تصور کو مزید تقویت دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments