شادی کے بعد بیٹی کی پہلی سالگرہ ۔


یہ اس کی پہلی سالگرہ ہے جو وہ اپنوں سے سے ہزاروں میل دور مگر اپنوں میں منا رہی ہے۔ ابھی ابھی اسے مبارک باد دے کر کال ختم کی ہے۔ آخر میں کہہ رہی تھی ابو اپنا خیال رکھئے گا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اپنا خیال کیسے رکھوں۔ مجھے چائے وہی بنا کر دیتی تھی۔ سو جاؤں تو چادر وہی اڑھاتی تھی وقت بے وقت دروازہ دیکھنے وہی جاتی تھی۔ سونے سے پہلے ٹنکی بھرنا، چولہے چیک کرنا، دروازوں کے تالے دیکھنا، غرض یہ کہ اس نے مجھے ہر کام سے آزاد کر رکھا تھا۔ اب خود تو دور دیس روانہ ہو گئی ہے اور اپنے سارے فرائض مجھے سونپ کر کہتی ہے کہ ابو اپنا خیال رکھا کریں۔

(یہ میرے ابو کی تحریر ہے جو انہوں نے چھوٹی بہن کی سالگرہ پہ لکھی ہے۔ ملتان گیا تو انہوں نے بتایا تھا کہ وہ کچھ لکھ رہے ہیں سالگرہ کے لیے۔ میں نے کہا کہ یہ یار رلا نہ دئیں مرشد۔ انہوں نے خالی میری طرف دیکھا ہی تھا اور وہ سرخ ڈوروں والی زردی مائل سفید آنکھیں۔ شاید پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں میں نے۔ حسنین جمال)

اصل میں دونوں بیٹے تو 2005 سے اپنی نوکری کے سلسلے میں دوسرے شہروں میں شفٹ ہو گئے تھے۔ بچوں میں یہی ہمارے ساتھ رہتی تھی۔ اب 16 سال کا ساتھ چھوٹا ہے تو اس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ یہ تو مجھے اس کے جانے کے بعد پتا چلا کہ میری سب سے اچھی دوست تو وہی تھی۔

اس کا نام دادی نے جانے سے پہلے رکھ چھوڑا تھا جب گھر میں مہمان کی آمد کی خوشخبری سنی تو انہوں نے طے کر دیا تھا کہ بیٹی ہوئی تو اس کا نام ظل ہما رکھا جائے گا۔ ہما کی پیدائش پشاور میں ہوئی مگر بد قسمتی سے دادی اس کے گھر آنے سے پہلے، اس کو دیکھنے کی حسرت دل میں لیے عدم کو سدھار گئیں۔

چونکہ پہلے دو بیٹے ہو چکے تھے تو اب سب کو بیٹی کی آمد کا شدت سے انتظار تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے سی ایم ایچ پشاور میں آپریشن تھیٹر کے برآمدہ میں ہر باپ کی طرح بے چینی سے خبر کا انتظار کر رہا تھا۔ جونہی میری ساس باہر آئیں تو میں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ جواب میں انہوں نے مسکراتے ہوئے دور سے شہادت کی انگلی ناک پر رکھ کر بتا دیا کہ ماشا اللہ ظل ہما دنیا میں وارد ہو چکی ہیں۔ سارے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

اور مبارک سلامت شروع ہو گئی۔ سب کی لاڈلی اکلوتی جو تھی۔ ماں باپ بھائی خالہ پھپھو۔ سب صدقے واری جاتے۔ اور اس کی ہر فرمایش پوری کی جاتی۔ دونوں ماموؤں کی تو آنکھ کا تارا تھی۔ سکول کے پہلے دن خوشی خوشی پھپھو کے ساتھ گئی۔ داخلہ ہو گیا تو کلاس میں جاتے وقت پھپھو نے کہا بیٹا میں یہیں ہوں دل گھبرائے تو آ جانا۔ دس منٹ بعد ہی آ گئی کہ آپ جائیں۔ چھٹی کے وقت آ جائیے گا۔

شروع شروع میں بھائی چھوڑنے جاتے پھر بڑی کلاس میں آئی تو رکشا لگوا لیا۔ بڑی شرمیلی بچی۔ مہمان آتے تو دھکیل دھکیل کر سلام کرنے بھیجنا پڑتا۔ خیر سے کالج گئی تو کزنز سے دوستی ہوئی اور سہیلیاں بھی بن گئیں۔ یونیورسٹی جا کر اعتماد بحال ہوا اور دنیا کی سمجھ بھی آنے لگی۔ آٹھ۔ دس سہیلیوں کا ایک گروپ بن گیا تھا۔ سب ایک ساتھ رہتے۔ البتہ بیسٹ فرینڈ ایک ہی بنائی اور آج تک وہی ہے۔ اور ماشا اللہ آج تک دونوں ایک دوسرے سے دوستی نبھا رہی ہیں۔

اکثر باپوں کی طرح میں نے کبھی اسے اپنے سینے پر نہیں سلایا۔ نہ ہی کبھی گلے لگایا تا کہ اگر میں نہ رہوں یا وہ مجھ سے جدا ہو تو مجھے کم سے کم مس کرے اور یہ باتیں یاد کر کے اسے دکھ نہ ہو۔ اسے اتنا پیار نہ دوں کہ کہ اس کی زندگی کا حصہ ہی بن جاؤں اور وہ میرے بغیر جینے کا تصور بھی نہ کرے۔ اگرچہ ہر فرمائش پوری کی مگر رویہ ذرا کرخت رکھتا اور مصنوعی ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتا تا کہ اس کو میرا کم سے کم پیار یاد آئے۔ اور غمگین نہ ہو۔ جب بھی آن لائن پارسل آتا تو کہتی ”ابو۔ اتنے روپے دے دیں“ ۔ میں مصنوعی غصہ کرتا کہ ”اتنے روپے؟ تمہیں پتا ہے کتنی مشکل سے پیسے کمائے جاتے ہیں؟

اٹھلا کے بڑے لاڈ سے کہتی تو کیا ہوا اکلوتی بھی تو ہوں۔ اکثر روزانہ رات کے کھانے پر یہ فقرہ دوہرایا جاتا آج کچھ اچھا کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔ پھر اپنی امی اور میرے ساتھ لمبی چوڑی بحث ہوتی کہ گھر میں یہ پکا ہے۔ یہ بھی تو اچھا ہے۔ مگر بے سود، انجام کار اسی کی جیت ہوتی اور آدھے گھنٹے بعد ڈلیوری بوائے دروازے پر موجود ہوتا۔ جب کبھی کار میں پیٹرول ڈلوانا ہوتا تووہ اور میں اکٹھے جاتے۔ اس بہانے اس کی بھی لانگ ڈرائیو ہو جاتی۔ عموماً رات کے کھانے کے بعد ہم نکلتے۔ دنیا جہان کی گپیں لگائی جاتیں، گانے سنتے۔ میں گانوں کی نقل کر کے اسے ہنساتا۔ اس کی ہنسی سن کر میری روح تک انجانی مسرت سے سیراب ہو جاتی۔

پھر ہم اس کا وزن کرنے جاتے جو ہمیشہ پہلے سے زیادہ ہوتا اور میں اسے خوب چڑاتا۔ میں جان بوجھ کر چپس کے خالی لفافے سڑک پر پھینکنے کی ایکٹنگ کرتا۔ وہ چلاتی ’ابو، آپ کو کتنی دفعہ منع کیا ہے‘ وہ کچرا کار سے باہر پھینکنے کے سخت خلاف تھی۔ شاپر میں جمع کرتی اور گھر آ کر ڈسٹ بن میں پھینکتی۔ اکثر فلموں کے کامیڈی سین یاد کر کر کے ہم بے تحاشا ہنستے۔ اتنا کہ ہنستے ہنستے آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔ خیر آنسو تو اب بھی نکلتے ہیں مگر وجہ کچھ اور ہے۔

اس کی سہیلی نے اک دفع بتایا کہ آفیسرز کالونی میں رات کو لڑکے موبائل وغیرہ چھین لیتے ہیں۔ میں جان کہ اسے ڈرانے کہ لیے رات کو وہیں سے گزرتا اور کہتا کہ ”دیکھو شاید آج قسمت یاوری کر جائے اور کوئی ڈاکو مل جائے۔ پر نہیں۔ کوئی نہیں ملے گا۔ ہمارے ایسے نصیب کہاں۔ “ بہت تلملاتی اور شور مچاتی کہ ادھر سے نہیں جانا مگر میں بھی ڈرانے سے باز نہیں آتا۔ مجھے پتا ہے کہ اب لائٹس لگ گئی ہیں اور کوئی خطرہ نہیں۔ گھر آ کر اپنی امی سے شکایت کرتی کہ ابو آج پھر وہیں سے گزرے تھے۔ اب ان باتوں کا لطف کہاں۔

اس کی شادی امریکا میں مقیم خاندان کے لڑکے سے ہوئی۔ جب وہ نکاح نامے پر دستخط کر رہی تھی تو مجھے لگا کسی نے میرا کلیجہ چیر دیا ہے۔ میں کمرے سے باہر نکل آیا۔ آنسو مسلسل اور بے اختیار بہتے چلے جا رہے تھے۔ میں ساری عمر اپنے گھر کی عورتوں کو کہتا رہا تھا کہ مجھے رونا دھونا سخت نا پسند ہے۔ مگر خود پر کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ سخت ندامت اور شرمندگی کا مقام تھا کہ مرد ہو کر رو رہا ہوں۔ بڑی مشکل سے طبیعت بحال کی اور منہ ہاتھ دھو کر شادی ہال میں داخل ہوا مگر آنکھیں چغلی کھا رہی تھیں۔

میں نے اسی دن فیصلہ کر لیا تھا کہ رخصتی کہ موقع پر خود پر ضبط کروں گا اور اللہ کا شکر ہے کہ اپنے عزم میں کامیاب ہوا۔ اگرچہ ایک دو رشتہ دار خواتین نے بیکار میں رلانے کی کوشش بھی کی مگر میں نے دل کڑا کرتے ہوئے بغیر آنسو بہائے یا رندھی ہوئی آواز کے اسے خدا حافظ کہ کر کار میں الوداع کہا ایک ماہ پہلے اس کی رخصتی ہوئی اور ایک ہفتہ کے اندر اندر اپنے میاں کے ساتھ امریکا روانہ ہو گئی۔ اپنے دل کو بہت مضبوط کرتا ہوں مگر جب جب کبھی اس کی تصویر دیکھتا ہوں تو آنکھ فوراً نم ہو جاتی ہے۔ اور گلے میں کچھ اٹکنے لگتا ہے۔

بیٹی ایک شہر میں ہو تو جب دل چاہا ملاقات کر لی، ایک ملک میں ہو تو بلا لیا یا خود ملنے چلے گئے۔ لیکن اگر سات سمندر پار چلی جائے تو سال ہا سال انتظار کی سولی پر ٹنگے ہوئے جدائی کا کرب برداشت کرنا پڑتا ہے۔

دوستوں اور رشتہ داروں سے میری ایک درخواست ہے کہ خدا کے لیے اظہار ہمدردی کرنے کو یہ نہ پوچھا کریں کہ گھر کی رونق تو چلی گئی۔ آپ دونوں اکیلے ہو گئے۔ اداس تو نہیں ہوتے؟ کوئی آپ کا جگر پارہ آپ سے جدا کر لے اور پوچھے کہ درد تو نہیں ہوتا؟ ان سوالوں سے دل پر ایک چوٹ سی لگتی ہے کہ بندہ کیا جواب دے بس یہی کہ کر ٹال دیتے ہیں کہ نہیں اداسی کیسی۔ روز نیٹ پر بات جو ہو جاتی ہے۔ میں اس کے بارے میں بہت کم بات کرتا ہوں البتہ سونے سے پہلے اس کی یاد آتی ہے تو جیسے بارش کے بعد ہر شے نتھر جاتی ہے، ایسے ہی میں بھی خاموشی سے، نتھری ہوئی شفاف آنکھوں کے ساتھ سو جاتا ہوں۔ ماشا اللہ بڑی خوش نظر آ رہی ہے۔ خدا اسے ہمیشہ خوش و خرم رکھے۔ اور میری دعا ہے کہ اسے ہماری یاد نہ آئے تاکہ دکھی نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments