بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق


پاکستان کی معیشت کا ایک اہم ستون بیرون ملک مقیم پاکستانی ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی خواہ کہیں بھی رہتے بستے ہوں لیکن ان کی قلبی وابستگی پاکستان کے ساتھ ہوتی ہے۔ اکثر لوگوں نے اپنے نئے وطن کی شہریت لینے کے باوجود پاکستانی شہریت ترک نہیں کی ہوتی ہے۔ ایک تو اس لیے بھی کہ ان میں سے اکثریت نے اسی ملک میں جنم لیا، پلے بڑھے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کا خاندان، اعزا و اقربا پاکستان میں رہتے ہیں لہٰذا اس ملک سے ان کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔

یوں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی سب سے بڑی شناخت پاکستان ہے۔ اس حوالے سے ان کی خواہش تھی کہ ان کی اہمیت کو سمجھا جائے اور انتخابات جیسے اہم کام میں انھیں بھی شامل کیا جائے۔ کسی بھی ملک کے شہریوں کے بنیادی حقوق میں سے ایک اہم حق انتخابات میں حصہ لینے، اپنی پسند کی جماعت اور امیدوار کو ووٹ دینے کا حق بھی شامل ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک کے نہایت اہم اور مفید شہری ہیں۔ انھیں بھی پاکستان میں رہنے والے دیگر شہریوں کی طرح یہ حق حاصل ہے کہ وہ بھی ملکی انتخابات میں حصہ لے کے اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دے سکیں۔ گزشتہ روز پارلیمان میں تینتیس بل منظور کیے گئے لیکن جس بل کے متعلق سب سے زیادہ بات ہو رہی ہے اور جو عوام کا موضوع بحث ہے وہ یہ ہی یعنی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے کا بل ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانی ان ممالک میں جہاں جہاں وہ آباد ہیں، پاکستان کا تعارف ہیں۔ فخر ہوتا ہے ان پاکستانیوں پر جو بیرونی ممالک میں تعلیم، تجارت، سیاست، طب اور ایسے ہی کتنے دیگر شعبوں میں اپنی بہترین اور نمایاں کارکردگی کے سبب پاکستان کا نام روشن کرتے ہیں اور دنیا کو پاکستان کے مثبت چہرے سے روشناس کرواتے ہیں لیکن یہ لوگ پاکستان کے لیے محض اس وجہ سے ہی اہم نہیں ہیں بلکہ وہ اس اعتبار سے بھی بہت اہم ہیں کہ وہ ہماری ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی سی اہمیت رکھتے ہیں۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق نوے لاکھ پاکستانی دیگر ملکوں میں مقیم ہیں اور ان کی طرف سے بھیجے جانے والے ترسیلات زر ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ مالی سال میں انتیس ارب ڈالرز ہیں۔ یہ رقم ہماری برآمدات سے حاصل ہونے والی رقم سے بھی زیادہ ہے۔ اسی بات سے اندازہ لگا لیجیے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اس ملک کے لیے کس قدر اہمیت کے حامل ہیں۔

اس بل کو اکثریت رائے سے تو منظور کر لیا گیا ہے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ اتنے اہم مسئلے پر بھی حزب مخالف نے اپنا مخالفانہ رویہ برقرار رکھا۔ اپوزیشن جماعتوں کا اس بل کے حوالے سے سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ دینے کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کی جائے گی اور اس میں دھاندلی کے امکانات بہت زیادہ ہیں یعنی من پسند امیدوار کو کام یاب کروانے کے لیے نادیدہ ووٹ بھی کاسٹ ہوسکتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ دھاندلی کے الزامات دنیا میں ہر جگہ اور ہر انتخابات میں لگائے جاتے ہیں۔ ہارنے والی ہر جماعت دھاندلی کا شور مچاتی ہے۔ دور کیوں جائیے امریکہ جیسے ملک میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں اس الزام کی بازگشت سنائی دی اور 2004 میں تو امریکی انتخابات کے حتمی نتائج میں تاخیر نے دھاندلی کے مشکوک تاثر کو نمایاں کرنے میں بہت کردار ادا کیا تھا جب امریکی ریاست فلوریڈا سے انتخابی نتائج آنے میں غیر معمولی تاخیر ہوئی تھی۔

اصل بات یہ ہے کہ انسان کی فطرت ہے وہ ہر نئی چیز کو آسانی سے قبول نہیں کرتا ہے۔ اسی وجہ سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حوالے سے بھی لوگ شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ ابھی تک الیکشن کمیشن نے یہ بات واضح نہیں کی ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ دینے کا طریقہ کار کیا ہو گا۔ یہ تو اس وقت واضح ہو گا جب انتخابی عمل وقوع پذیر ہو گا۔ اس طرح اس نظام کی افادیت کا بھی علم ہو جائے گا۔ ووٹنگ کا یہ عمل نادرا اور الیکشن کمیشن دونوں اداروں کے اشتراک عمل کے ذریعے ہی انجام پائے گا۔

الیکشن کمیشن کو اس سلسلے میں سب سے پہلے جو بنیادی اقدام کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ پہلے وہ اس بارے میں عوام کو بنیادی امور سے متعلق آگاہی دے اور بیرون ملک مقیم پاکستانی ووٹرز کی اس حوالے سے مناسب تربیت کا اہتمام کرے کیوں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی نمایاں اکثریت مشرق وسطیٰ میں آباد ہے اور ان میں بڑی تعداد کم تعلیم یافتہ ہنرمندوں کی ہے جو اس طرح کی چیزوں کا بہت زیادہ علم نہیں رکھتے ہیں تو ایسے افراد کی ووٹنگ کے اس عمل سے واقفیت بہت ضروری ہے تاکہ وہ بیرون ملک رہتے ہوئے بھی اپنے اس بنیادی جمہوری حق کو بخوبی استعمال کرسکیں۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو انتخابی عمل کا حصہ بنانا یقیناً جمہوریت کا ایک روشن پہلو ہے اور ملک کے مستقبل کے لیے اس لحاظ سے اہم کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد جو مغربی ممالک میں آباد ہے وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور اگر ایسے لوگ انتخابی عمل کا حصہ بنتے ہیں تو یقینی بات ہے کہ وہ ووٹ دینے کے اپنے حق کا نسبتاً بہتر استعمال کریں گے۔ اس طرح ہم امید کر سکتے ہیں کہ سیاسی منظر نامے میں تبدیلی آئے گی اگرچہ آہستہ روی سے ہی سہی لیکن مثبت اور بہتر تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے۔

ہوائے خوش امید یہ دلاتی ہے یقیں دل کو
کھلیں گے گل تازہ، مہکے گا پھر سے گلشن


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments