چور میرے محسن ہیں


صبح جب ہم اٹھے تو معلوم ہوا کہ ہماری ہمسائیگی میں ہمارے گھر سے ایک مکان چھوڑ کر اگلے مکان میں چوری ہو گئی ہے جہاں محکمہ زراعت کا ایک ملازم رہتا تھا۔ ہمارا گھر برلب سڑک تھا اور ان مکانات کی ایک لمبی لائن تھی جن کی چھتیں آپس میں جڑی ہوئی تھی اور کہیں کوئی رکاوٹ نہیں تھی آپ ایک چھت پر چڑھیں اور آخری مکان کی چھت پر پہنچ جائیں۔ لوگ شام کو کھانا کھا کر اوپر چلے جاتے بعض اوقات رات کا کھانا بھی اوپر کھاتے اس زمانے بجلی کے کنکشن کا کوئی تصور نہیں تھا وہ یا تو سرکاری کالونیوں میں ہوتی یا کسی بہت امیر شخص کے گھر میں اس لئے چھتوں پر راتیں سکون سے گزر جاتیں جب بادل گھر آتے ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں تو چھتوں پر سوئے انسان سکھ کا سانس لیتے اور گہری نیند میں چلے جاتے اسی طرح کی ایک رات تھی جب لوگ اپنے اپنے گھروں کی چھت پر خواب خرگوش میں پڑے ہوئے تھے۔

چور چوری کر کے چلے گئے لیکن یہ گھر والوں کے لئے بہت بڑا صدمہ تھا۔ چاچا رفیق کی بیوی بین کرتی رہی کہ ہم نے کوڑی کوڑی اکٹھی کر کے بچیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے لئے جو کچھ اکٹھا کیا تھا چور لوٹ کر لے گئے پھر وہ بیچاری اٹھتے بیٹھتے چوروں کو یاد کرتیں اور آنسو بہاتی رہتیں جب بڑی بیٹی کی شادی کا دن آیا تو بے انتہا مغموم تھی ان کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے وہ چوروں کو کوسنے دے رہی تھیں کہ ہمارے دن تو کسی نہ کسی طرح گزر جائیں گے لیکن خدا تمہارا کا بیڑہ غرق کرے گا تم لوگوں نے ہمارے ساتھ زیادتی کی ہے۔

میں آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا اس کا ایک بیٹا میرا کلاس فیلو تھا۔ مجھے چوروں سے اس روز بہت نفرت ہو گئی جنہوں نے ان غریبوں کی خوشیاں لوٹی تھیں میں سوچتا رہا یہ لوگ اتنے ظالم کیوں ہوتے ہیں جو غریبوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔ مجھ سے آنٹی کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔ رات کو میں نے اپنی والدہ سے پوچھا امی جان چور ان کا کیا کیا لے گئے تھے۔ میرا دل تو کرتا ہے کہ اگر یہ چور مجھے کہیں مل جائیں تو میں ان کا سر توڑ دوں۔

امی نے کہا بیٹے ان بے چاروں کے گھر میں تھا کیا ان کا غلطی سے اس روز دروازہ کھلا رہ گیا تھا چور آنے کو تو آ گئے لیکن تلاش کے باوجود انہیں ایک پرانا ایرانی کمبل ملا بس وہی لے گئے ایک غریب اور سفید پوش انسان کے پاس دینے کو اور دکھانے کو جب کچھ نہیں ہوتا تو اپنا بھرم رکھنے کے لئے اس کے سوا اور کیا کر سکتا ہے۔

ایسے ہی حالات میں اس بدنصیب قوم کا مقدر سنوارنے عمران خان ایک مسیحا کی شکل میں سامنے آیا جو دیکھتے ہی دیکھتے سیاسی افق پر چھا گیا اس نے خواب غفلت میں سوئی ہوئی قوم کو جھنجوڑ کر جگایا کہ اٹھو آنکھیں کھولو تمہارے چاروں طرف چور تمہاری خوشیاں لوٹ رہے ہیں آپ میرا ساتھ دیں میں نے ان سے آپ کا بدلہ لینا ہے کبھی اس کی آواز بھرا جاتی کبھی اس کی آواز میں جوش جنوں ہوتا وہ غریب لوگوں اور نوجوانوں کے دل کی آواز بن گیا۔

بالی وڈ سے ہالی وڈ کی رعنائیوں سے لے کر آکسفورڈ کے علمی مرکز تک اس نے ایک دنیا دیکھی تھی مشرق اس کے پاؤں کی دھول تھا اور مغرب کو اس سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا ایک زمانے وہ جوان رعنا تھا اب اگرچہ گزرتے وقت نے ان کی آنکھوں کے گرد حلقے اور چہرے پر جھریوں اور سلوٹوں کا جال بچھا دیا ہے لیکن عاشقان کرکٹ کے لئے پرانی یادوں کے سحر نے ابھی تک اس کی شخصیت کے گرد کو ہالہ کیے ہوئے ہے اس پر مستزاد یہ کہ ہر تقریر میں مقدس کلمات کا ورد ان کی زبان پر اور ہاتھوں میں تسبیح کی زنجیر دیکھ کر کیا جوان کیا بوڑھا اس کے سحر سے نہیں نکل سکتا اس کے جلسوں میں وہی گہما گہمی ہوتی تھی جو کرکٹ میچوں کا خاصہ ہے پی ٹی آئی کے جھنڈوں کے ساتھ ہر طرف آنچل لہراتے رقص ہوتا گیت ابھرتے اگرچہ اپوزیشن کو طنز کرنے کا موقع ملتا لیکن لیکن کسی نے ان کی بات پر توجہ نہیں دی بلکہ اس رنگا رنگی کو دیکھ کر جلسوں کی رونق بھی بڑھتی گئی اور عوام بھی ان کی طرف کھنچتے چلے گئے اس کے پیچھے ان کی بائیس سالہ جد و جہد تھی، مشیت ایزدی شامل تھی یا اس میں بڑے لوگوں کی آشیرباد شامل حال تھی وہ کہتا میں تمہارے لیے گھر سے نکلا ہوں اور سالہا سال سے در بدر ہوں تم میرے دست و بازو بنو مجھے کسی فوجی آمر نے نہیں پالا جن چوروں نے تمہارا اور تمہارے بچوں کا مستقبل لوٹا ہے میں ہر اس ایک لٹیرے کو کٹہرے میں لاؤں گا اس نے بڑا لیڈر ہونے کے ناتے قائد اعظم کے چودہ نکات کی طرح اپنے چودہ نکات قوم کو پیش کیے جس میں نمایاں یہ تھے کہ میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا تمام چوروں کو کٹہرے میں لا کر قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لاؤں گا نہ کبھی دھاندلی کی ہے نہ کرنے دوں گا جتنے قوم کے چور ہیں سندھ کے دہشت گرد ہیں اور پنجاب کے ڈاکو ہیں۔ میں کسی سے سمجھوتا نہیں کروں گا آپ لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کروں گا آئی ایم ایف کے پاس کبھی نہیں جاؤں گا ایک لاکھ نوکریاں پیدا کروں گا تمہارے لیے لاکھوں مکانات تعمیر کروں گا۔

اگرچہ اس کی تقریروں میں عامیانہ پن زیادہ جھلکتا تھا جن میں نہ گہرائی ہوتی تھی اور نہ شائستگی لیکن عاشقان عمران کے لئے اس کا ایک ایک لفظ سونے کے مول ہوتا وہ جب جلسوں میں سیاسی مخالفین پر الفاظ کی گگلی مارتا تو لوگ عش عش کر اٹھتے وہ کرکٹ اسٹار تو تھا ہی اب پولیٹیکل سٹار بھی بن گیا اس کا دھرنا اس کے جلسے سوشل ایونٹ بن گئے اور بفضل خدا وہ ایک دن وزیراعظم کی کرسی پر متمکن ہو گیا عوام کی مشکلات دور کرنے کے لیے پہلے سو دن کا عرصہ مانگا۔ سو دن کے عرصہ میں کچھ نہ ہوا تو کہا کہ چھ ماہ میں ہم حالات پر قابو پا لیں گے حالات پر قابو پانا تو ایک طرف رہا لوگوں کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا اور اپنے ایک ایک وعدے سے منحرف اور یو ٹرن پر یوٹرن لیتا رہا۔

دراصل ملک کی معاشی تباہی کی وجہ اس جماعت کی معاشی حالات سے نابلد ہونا تھا جس سے ان کی نالائقی اور نا پختگی عیاں ہو گئی۔ اسد عمر جس کو خان اعظم ہر تقریر میں معاشی امور کا افلاطون بنا کر پیش کرتے تھے ان کی رواں معاشی حالات پر کنٹرول نہ رکھ سکے۔ اسے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا وہ عمران خان کے بیانیہ کہ میں آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا کی وجہ سے گومگو کی صورت حال میں پھنسا رہا۔

جب جانے کا فیصلہ کیا تو دیر اتنی لگا دی کہ آئی ایم ایف کی من مانی شرائط قبول کرنا پڑیں۔ پھر روپے کی قدر اس امید پر گرا دی گئی کہ اس سے برآمدات بڑھیں گی اور درآمدات کم ہوں گی جن کے لئے بہت سے دوسرے عوامل پر بھی کنٹرول کرنا لازمی ہوتا ہے لیکن اس سے کچھ نہ ہوا الٹا مہنگائی کا طوفان آ گیا۔ عمران خان سے پہلے چوروں کے زمانے میں ترقی کی شرح پانچ اشاریہ آٹھ فیصد تھی اور کرونا سے قبل کپتان کی پہلے سال کی حکومت میں ترقی کی شرح دھڑام سے گر کر صرف اعشاریہ آٹھ فیصد رہ گئی گویا خان اعظم نے ترقی کی شرح کو دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔

وہ اتنے بڑے عہدے کے لئے ناموزوں شخص تھے۔ در اصل کپتان صاحب ذہنی طور پر بھینسیں، کٹے، کاریں فروخت کر کے کفایت شعاری کے اظہار اور لنگر خانے جیسے نمائشی منصوبوں کے حامی ہیں ان سے کسی بھی طرح کی مثبت اور سنجیدہ پالیسی بنانے کی توقع کرنا عبث ہے۔ اب ہر طرف مہنگائی کی چیخ و پکار ہے بے روزگاری کا ماتم ہے۔ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا تھا اب ملک معاشی طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ جس کی کابینہ کا وزیر خود یہ کہہ رہا ہو کہ ہمارے دور میں معاشی تباہی عروج پر ہے۔

شوکت ترین کا بیان ہے کہ ہم کوشش کریں گے کہ اگلے دو سالوں میں جی ڈی پی سابقہ حکومت کے گروتھ ریٹ پر لے جائیں لیکن جس طرح اسد عمر حفیظ شیخ اور نیب نے معیشت کا تیا پانچہ کیا ہے اس شرح پر لانا بہت مشکل ہو گا۔ دوراندیش لوگ تو عمران خان کو دوسرا گوربا چوف قرار دے رہے ہیں جس نے دنیا کی دوسری بڑی طاقت کو زمین بوس کر دیا تھا یہ سن کر اور سوچ کر دل دہل جاتا ہے۔

کشمیر کا مسئلہ جو پہلے ہی لاینحل محسوس ہوتا ہے خان صاحب اقوام متحدہ میں اس بارے اپنے خطاب کو کامیابی سمجھ بیٹھے تھے پاکستان میں اس شان سے واپس آئے تھے جیسے کشمیر فتح کر لیا ہو اور جب مودی نے کشمیر ہڑپ کر لیا تو عمران خان کا ردعمل کس قدر کھوکھلا اور مضحکہ خیز تھا کہ ہر جمعہ نماز کے بعد قوم کھڑا ہو کر آدھا گھنٹہ احتجاج کرے گی۔ خان اعظم کے اس شاندار پروگرام پر ایک المیہ اور ایک مزاحیہ فلم بنائی جا سکتی ہے جس سے پاکستانی ذہن کی بحرانی کیفیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ جس ملک نے غاصبانہ قبضہ میں ستر سال میں کشمیر نہیں دیا ہم نے تین جنگیں بھی لڑ کر دیکھ لیں اب جب اس نے آئینی طور پر کشمیر کو انڈیا میں شامل کر لیا ہے تو پھر کس قانون سے کس حکمت عملی سے کشمیر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ وہ کشمیر کے حل کے لئے سنجیدہ نہیں ہیں صرف تقریروں سے اپنی قوم اور کشمیریوں کو مصروف رکھنا چاہتے ہیں۔

عمران خان اپنی تقریروں اور بیانات میں چوروں کا اٹھتے بیٹھتے موقع بے موقع ذکر کرنا فرض سمجھتے ہیں حتی کہ رسول اکرم کی یاد مناتے ہوئے چوروں اور ڈاکوؤں کا ذکر ان کی توجہ کا مرکز تھا عمران خان برطانیہ کے نظام انصاف کا اکثر ذکر کرتے ہیں جبکہ ان کی اپنی دیانتداری کا عالم یہ ہے کہ ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں الیکشن جیتنے کے لئے جس طرح پریزائیڈنگ افسران کا اغوا ہوا عمران خان حکومت کی شفافیت، دیانتداری اور سپریم کورٹ کی طرف سے دیے گئے ان کو صادق اور امین کے ٹائٹل اور انصاف سے ان کی محبت کا شاہکار ہے اس پر مستزاد یہ کہ بیرون ملک سے ملنے والے تحائف کی خرد برد بھی ان کی ایمانداری کی ایک اور عمدہ مثال ہے۔ فارن فنڈنگ کا کیس خان صاحب بڑے عرصے سے چلنے نہیں دے رہے جب اس کے حقائق سامنے آئیں گے تو دیانتداری کے تمام بت پاش پاش ہو جائیں گے۔

وزیراعظم نے تین سال چوروں اور لٹیروں کا ذکر کر کے اور ان کے لوٹنے کی درد ناک کہانیاں سنا سنا کر حکومت کے یہ دن مشکل سے پورے کیے ہیں لیکن عوام کو احساس ہو گیا ہے کہ حکومت چلانا خان صاحب کے بس کی بات نہیں ہے اس لیے جب وہ بیان دیتے ہیں کہ مہنگائی کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے ہم آٹے، چینی، گھی اور دالوں پر بہت بڑا ریلیف دیں گے یہ اعلان سن کر عوام پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے کہ اب ہم پر مہنگائی کا ایک اور بم گرنے والا ہے جب وہ اپنی معاشی حکمت کے موتی بکھیرتے ہیں کہ ”روپے کی قدر گھٹنے سے بیرون ملک پاکستانیوں کو فائدہ ہوتا ہے“ تو عوام سوچتے ہیں کہ کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔

عمران خان کا وعدہ کہ میں نے جس طرح قوم کو کو ورلڈ کپ لے کر دیا ہے اسی طرح عوام کے لئے خوشیاں بھی لاؤں گا۔ لیکن تمام وعدوں اور دعوؤں کے برعکس عوام بلبلا اٹھے ہیں غربت کے مارے لوگ جو عمران خان کو مسیحا سمجھتے تھے کہ ان کے آنے سے کرپشن کا خاتمہ ہو گا مہنگائی ختم ہوگی بے روزگاری کا خاتمہ ہو گا۔ کیوں کہ ان کے پاس ایسی ٹیم موجود ہے جو عوام کی قسمت بدل دے گی ایک کروڑ نوکریاں ہوں گی غریبوں کے لئے لاکھوں مکانات تعمیر کیے جائیں گے سرکاری ادارے عوام کی خدمت پر مامور ہوں گے اور چوروں کا احتساب ہو گا لوگ پریشانی میں کہ چور جب گئے تھے تو ڈالر 105 روپے کا چھوڑ کر گئے تھے آٹا 45 روپے کا تھا اب سو روپے کا بک رہا ہے چینی 55 سے 120 خوردنی تیل 140 سے 320 دودھ 80 روپے سے 140 دالیں، سبزیاں اور اشیائے خوردنی کی قیمتیں قوت خرید سے کہیں زیادہ ہیں۔

بجلی گیس پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ۔ اب گیس ناپید ہو رہی ہے لوگ غربت سے بے حال ہو چکے ہیں اب جھولیاں اٹھا اٹھا کر بددعائیں دیتے ہیں کہ چور تو چلے گئے ان کی جگہ ڈاکوؤں نے لے لی ہے، ان کے خوش نما بیانات ہمارا پیٹ نہیں بھر سکتے نہ ورلڈ کپ ہمارے دکھوں کا مداوا کر سکتا ہے۔ لیکن ایک مشورہ ضرور ہے کہ اس ورلڈ کپ کو اسلام آباد میں کسی اہم جگہ پر نصب کیا جائے جہاں مفلوک الحال اور غربت کے مارے لوگ اس کے گرد طواف کیا کریں تا کہ ہمیں بھی ایک دیوار گریہ میسر آ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments