ما ما، فون سے نہیں، مجھ سے کھیلو!



جرمنی سے آئی ایک دلچسپ خبر ملاحظہ فرمائیں :

” ہیمبرگ (جرمنی) چند ہفتے قبل کئی بچوں نے ہیمبرگ کی سڑکوں پہ احتجاج کیا۔ یہ بچے اپنے والدین کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے والدین سیل فون کا بہت زیادہ استعمال کرتے اور انہیں وقت نہیں دے پاتے۔ مظاہرے کی قیادت ایمل نامی ایک سات سالہ بچہ کر رہا تھا۔ یہ بچے نعرے لگا رہے تھے اور انہوں نے بڑے بڑے کتبے اٹھا رکھے تھے۔ ان کتبوں پہ لکھا۔ “ ہم بھی یہیں آپ کے آس پاس ہیں۔ ہمیں اونچی آواز میں اس لئے بولنا پڑ رہا ہے کہ آپ کی ساری توجہ اپنے فون پر ہے جس پر آپ کی نگاہیں جمی ہیں ”۔

مظاہرے کے اختتام پر ایمل نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے ہمارے احتجاج کے بعد والدین اپنے فونز کو کم وقت دیں گے۔“ خبر کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ والدین کی طرف سے سیل فون کا بے تحاشا استعمال، بچوں کے رویوں پر منفی اثرات ڈال سکتا ہے ”۔ مظاہرے میں شریک ایک بچے نے کتبہ اٹھا رکھا تھا۔“ ماما! سمارٹ فون سے نہیں، مجھ سے کھیلو ”۔

خبر بظاہر دلچسپ تو ہے لیکن یہ ایک نہایت اہم اور سنجیدہ، بلکہ سنگین مسئلے کی نشاندہی بھی کر رہی ہے۔ جرمنی تو ایک ترقی یافتہ ملک ہے جہاں کے لوگ ہماری نسبت کہیں زیادہ خوشحال ہیں اس لئے لازما وہاں سیل فون کا استعمال بھی ہماری نسبت کہیں زیادہ ہو گا۔ وہاں کے بچوں نے احتجاجی مظاہرہ کر کے (خواہ اس کا خیال کسی بڑے کے ذہن میں ہی آیا ہو) ساری دنیا کو ایک نہایت اہم پیغام دیا ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک کہلاتا ہے جس کی 40 فی صد سے زائد آبادی کے پاس سیل فون ہے۔

بعض افراد کے پاس دو، تین یا اس سے بھی زیادہ فون ہیں۔ ورلڈ ٹیلی کمیونیکیشن ڈے پر پی۔ ٹی۔ اے نے انکشاف کیا کہ سموں کے حوالے سے فون استعمال کرنے والوں کی تعداد اٹھارہ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ براڈ بینڈ سبسکرائبرز کی تعداد دس کروڑ سے زائد ہے اور سیل رکھنے والے 88 فی صد افراد انٹرنیٹ یا براڈ بینڈ تک رسائی رکھتے ہیں۔

سیل فون کا شمار انتہائی اہم ایجادات میں ہوتا ہے۔ بلاشبہ ساری دنیا انسان کے ہاتھ میں اٹھائے ایک چھوٹے سے آلے میں سمٹ آئی ہے۔ یہ آلہ اب ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔ اس آلے کے اندر انسانی ضرورتوں کی تکمیل اور آسانیوں کا جہان آباد ہے۔ سب سے زیادہ انقلاب انسانی رابطوں میں آیا ہے۔ دور و نزدیک کے فرق ہی مٹ گئے ہیں۔ ننھے بچوں سے لے کر عمر رسیدہ افراد تک، سب کی تفریح اور دلچسپی کے سامان موجود ہیں۔ گیمز کھیلیں، کتابیں پڑھیں، فلمیں دیکھیں یا پہروں دوستوں سے گپیں لگائیں، آمنے سامنے بیٹھ کر تصویری ملاقاتیں کریں، تحقیق کے عمل سے گزریں، دنیا جہان کا مشاہدہ کریں، بنک اکاؤنٹس ہینڈل کریں، بڑے بڑے کاروباری سودے اور سمجھوتے کریں، سیر و سیاحت سے لطف اندوز ہوں، شعر و ادب کا لطف اٹھائیں، فوٹو گرافی کریں، اپنا دفتر چلائیں، اپنے گھر کی دیکھ بھال کریں، غرض زندگی کے سارے رنگ ساری ضرورتیں، ساری دلچسپیاں سمارٹ فون میں سمٹ آئی ہیں۔ اس کی علتیں اور خرابیاں بھی کچھ کم نہیں جن کے اثرات ہمیں اپنے معاشرے میں جا بجا نظر آتے ہیں۔

والدین کے سمارٹ فون کے بے تحاشا استعمال سے پیدا ہونے والے مسائل کا تذکرہ گاہے گاہے ہوتا ہی رہتا تھا لیکن جرمنی کے معصوم بچوں کے احتجاج نے اسے ایک نئے انداز سے پیش کر کے عالمی توجہ حاصل کر لی ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ بیماری گھر گھر پیدا ہو چکی ہے۔ کبھی دادیاں، نانیاں یا مائیں بچوں کو تھپکیاں دے دے کر کہانیاں سناتی اور سلاتی تھیں۔ اپنے فارغ وقت کا بڑا حصہ اپنے بچوں کو دیتی تھیں۔ ان کے ساتھ کھیلتی اور انہیں کسی نہ کسی طرح بہلاتی تھیں۔

آج والدین دفتروں سے آ کر اپنے اپنے سیل فون لے کے بیٹھ جاتے ہیں۔ دن بھر ان کی راہ دیکھنے والے بچوں کو وہ پیار، شفقت اور توجہ نہیں ملتی جو ان کی عمر کا تقاضا ہوتی ہے۔ لہذا وہ خود کو مصروف رکھنے کے لئے اپنے طریقے تلاش کرتے ہیں۔ اب تو والدین نے ایک آسان طریقہ یہ دریافت کر لیا ہے کہ بچوں کے ہاتھ میں بھی فون تھما دیے ہیں۔ سو وہ اپنی جگہ سیل فون پر نظریں گاڑے اپنی دلچسپیوں سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔

رفتہ رفتہ ہم ایک بڑے سماجی اور معاشرتی بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ سمارٹ فون کی گود میں پروان چڑھتے اور والدین کی توجہ سے محروم ہو کر اسی فون کو اپنا سب کچھ سمجھ لینے والی نسل اب جوان ہو چلی ہے۔ یہ نوجوان عدم برداشت، اشتعال انگیزی، ادب و احترام کے تقاضوں سے محرومی اور غیر جمہوری رویوں کی بیماریوں میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ کیا اس کا سبب یہ ہے کہ والدین اور بچوں میں وہ بندھن اب موجود نہیں رہا جسے گھر کی پہلی درس گاہ قرار دیا جاتا تھا۔

جرمنی کے بچوں کے احتجاج سے مجھے اشفاق احمد مرحوم کا ڈرامہ ”ماما سیمیں“ یاد آ گیا۔ یہ ڈرامہ 1980 کی دہائی میں پی۔ ٹی۔ وی سے نشر ہوا تھا جسے پاکستانی ڈرامے کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔ معصوم بچے کی ماں، ماما سیمیں کی دلچسپی کے کئی سامان تھے۔ تب سیل فون تو ایجاد نہیں ہوا تھا لیکن ماما سیمیں بہت مصروف رہتی تھیں۔ سہیلیوں کی محفلیں، ہوٹلوں میں پارٹیاں، سیر و سیاحت، سیمینارز، مینا بازار اور جانے کیا کیا۔ بچہ گھر ملازماؤں اور آیا کے سپرد تھا۔

دن بھر وہ ماما سیمیں کی تلاش میں رہتا۔ ماما گھر آتی تو وہ سو چکا ہوتا۔ ہوا یہ کہ کسی وجہ سے وہ اکلوتا بیٹا مر گیا۔ ماما سیمیں اتنے بڑے صدمے کے لئے تیار نہ تھیں۔ بڑا سا گھر انہیں کاٹ کھانے کو دوڑنے لگا۔ جدھر جاتیں ایک بچے کی آواز گونجتی۔ ”ما ما سیمیں۔ مجھے ڈھونڈو۔ ماما سیمیں۔ مجھے ڈھونڈو“ ۔ اس گونج نے ماما سیمیں کے اعصاب مفلوج کر کے رکھ دیے۔ اس کا دماغی توازن جاتا رہا۔ پارٹیاں اور تفریحات دھری کی دھری رہ گئیں۔

کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں گھر گھر ماما سیمیں پیدا ہو چکی ہے۔ اللہ ان کے بچوں کو سلامت رکھے لیکن اللہ کچھ ایسا بھی کرے کہ بچے ماؤں کے پیار اور نانیوں دادیوں کی کہانیوں سے محروم نہ ہوں۔

۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments