وزیرستان کا سونا: چلغوزہ


وزیرستان کا نام سنتے ہی اکثر لوگوں خاص کر ان پاکستانیوں کے ذہن میں دہشت، خوف اور جہالت کے تصورات آنا شروع ہو جاتے ہیں، جنہوں نے وزیرستان جا کر وہاں کا ماحول و علاقہ نہیں دیکھا، وہاں کے باسیوں کے ساتھ وقت نہیں گزارا، ان کی مہمان نوازی نہیں دیکھی۔ بے شک وار آن ٹیرر میں ملک خداداد کے فرنٹ ایلائی بننے کے بعد دہشتگردوں نے وزیرستان کو اپنی آماجگاہ بنا لیا تھا۔ اور وزیرستان سے ملک کے طول و عرض میں ہونے والی دہشتگردی کے واقعات کی ذمہ داریاں لیتے رہے۔ جس سے ہر کسی کے ذہن میں ہر وزیرستانی دہشتگرد ٹسور کیا جانے لگا، امن و زندگی کا دشمن تصور کیا جانے لگا، ان کو شہری علاقوں میں شک کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں وزیرستان کے ہر باسی نے تشخص و وزیرستانی ہونے کے ناتے بہت ساری تکالیف جھیلیں ہیں۔ جن کو بیان کرنا یہاں ممکن ہی نہیں۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپریشنوں و دہشتگردی کے ستائے جب واپس آباد ہوئے تو مقامی نوجوانوں و ایکٹویسٹوں نے وزیرستان کا دوسرا رخ اس کی خوبصورتی، سبز و شاداب وادیاں، دریا، جنگلات، بازار، دشت و بیاباں دنیا کو دکھائے اور گزشتہ کچھ عرصے سے وزیرستان کا سافٹ امیج دنیا بھر میں جانے لگا ہے۔ دنیا وزیرستانیوں کو دہشت گردوں کے بجائے اب امن کے سفیروں، سیاحت کے سفیروں سے پہچاننے لگی ہے۔ شوال، بدر، شکئی، خامرانگ، پش زیارت، لدھا ماکین میں صرف عید کے ایک ایک دن میں پچاس ساٹھ ہزار تک کے سیاحوں کی گاڑیوں کی اینٹریاں ہوتی ہیں۔

مختلف سیاحتی کلبز، بائیکرز کلبز، یوٹیوبرز، بلاگرز وزیرستان کے ٹورز کر کے اس کی خوبصورتی، عوام کی سادہ مزاجی، انسان دوستی و مہمان نوازی کو ملک کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے لوگوں کو یہاں آنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ گیارہ ہزار فٹ پر موجود پش زیارت کی سیر نارائی چوٹی اور پش زیارت ٹورسٹ سپاٹ تک پکی سڑکیں بن چکی ہیں، ہوٹلز و رہائشی منصوبوں پر کام چل رہے ہیں۔ جس سے مقامی عوام کا تشخص ایک مثبت انداز میں پیش ہو رہا ہے۔ اور معیشت بہتر ہونے لگی ہے۔ کراچی و گلف ممالک میں کمانے والا وزیرستانی اب کچھ اپنے علاقے میں بھی کاروبار کر کے کمانے لگا ہے۔

ٹورازم /سیاحت کے ساتھ ساتھ وزیرستان کے وانا کے سیب براستہ لاہور ہندوستان امرتسر تک جا رہے ہیں، مقامی اخروٹ و دوسری اشیاء ملک کے کونے کونے تک پہنچ رہی ہیں۔ سڑکوں کا نظام قدرے بہتر ہونے کے ساتھ مقامی اشیاء کے لئے دوسری مارکیٹیں پہنچ کے قابل ہو چکی ہیں۔ جس سے وزیرستانیوں کی معیشت پر نہایت مثبت اثرات پڑ رہے ہیں۔ وزیرستان کی معیشت پر بات ہو اور وزیرستان کے سونے سے مشہور دنیا کے سب سے بڑے چلغوزوں کے جنگلات کا ذکر نہ ہو تو یہ بہت بڑا ظلم ہو گا۔

وزیرستان میں چلغوزے کے جنگلات بدر مانتوئی کے علاقوں سے شروع ہو کر شوال خامرانگ اور انگور اڈہ سے ہوتا ہوتے ہوئے بارڈر پار بیرمل و لمن تک پھیلے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ژوب اور تخت سلیمان تک چلغوزہ پایا جاتا ہے۔ لیکن وزیرستان کا چلغوزہ پوری دنیا میں مشہور ہے۔ لوگ اسے سردیوں کے خشک میوہ جات کے طور پر استعمال کرتے ہیں، صحت کے انتہائی مفید چلغوزے کو کچھ ممالک جیسے چین، بھارت و کوریا میں تیل نکال کر مہنگے داموں بیچا جاتا ہے۔

پاکستان دنیا کو سالانہ پچیس سے تیس ارب روپوں کا چلغوزہ برآمد کرتا ہے۔ میں سے آدھے سے زیادہ حصہ وزیرستان کے چلغوزے کا ہوتا ہے جو آٹھ سے دس ارب سالانہ کا ہے۔ جس سے ملک کی معیشت کے ساتھ ساتھ وزیرستانیوں کی معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دنیا کے بڑے جنگلات میں سے ایک وزیرستان کے چلغوزہ کے جنگلات کی کٹائی نہ ہوتی تو آج یہ رونیو ڈبل ہوتا۔ دوسرا چلغوزہ اتارنے کے آلات اور جدید دنیا جیسے امریکہ روس وغیرہ میں جو جدید طریقے چلغوزے اتارنے کے اپنائے گئے ہیں وہ اگر یہاں لاگو ہوں تو فصل اور اس کی پروڈکشن مزید بڑھ جائے۔

وانا ویلفیئر ایسوسی ایشن نے وانا میں چلغوزہ کے جنگلات کے مالکان اور وہاں پھل اتارنے والوں کے لئے مختلف قسم کی ٹریننگ سیشن رکھے، حکومتی سرپرستی وانا میں ایگری پارک کے قیام کے بعد کچھ حد تک اب ان لوگوں کو حاصل ہونے لگی ہے۔ افغانستان میں حالات بگڑنے کے ساتھ ساتھ وہاں پیدا ہونے والا چلغوزہ امسال چین جو سالانہ دس ہزار ٹن چلغوزہ افغانستان سے درآمد کرتا تھا وہ اس سال سارا پاکستان و دوسرے ممالک جا رہا ہے۔

جس سے فی کلو چلغوزہ کے بھاؤ پر شدید اثرات پڑے ہیں۔ اور عام مارکیٹ میں چلغوزہ چھ سے سات ہزار تک بیچا جاتا تھا، جو افغانستان کے چلغوزے کے آنے کے بعد پھر سے تین ہزار سے چار ہزار تک فلی کلو ریٹ پہنچ چکا ہے۔ جس سے مقامی مارکیٹ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ وزیرستان کے کچھ علاقوں جہاں چلغوزے کے جنگلات ہیں وہاں عوام یہ بھی شکایات کرتی رہی ہے کہ وقت پر انتظامیہ ان کو بارڈر کے نزدیکی علاقوں میں چلغوزہ اتارنے کی اجازت نہیں دیتی جس سے اس کی پروڈکشن پر برے اثرات پڑتے ہیں۔ دوسرا جنگلات سے منڈی تک لانے اور پھر اچھی پراسیسنگ پر خرچے کم کر دیے جائیں تو مقامی آبادی کے دن بدل سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments