کیمو اور سارتر کی ادبی رفاقت اور سیاسی رقابت کی کہانی


البرٹ کیمو اور ژاں پال سارتر بیسویں صدی کی ادبی تاریخ کے دو اہم باب ہیں۔ ان میں بہت سی خصوصیات مشترک تھیں۔ دونوں ناول نگار بھی تھے اور فلاسفر بھی۔ سماجی کارکن بھی تھے اور دانشور بھی۔ دونوں کو ادب کا نوبل انعام بھی ملا یہ علیحدہ بات کہ سارتر نے وہ انعام لینے سے انکار کر دیا۔

کیمو اور سارتر چونکہ ہم عصر تھے اس لیے وہ ملنے سے پہلے ہی ایک دوسرے کی تخلیقات سے متعارف ہو چکے تھے۔ کیمو نے سارتر کے ناول NAUSEAپراور سارتر نے کیمو کے ناول THE STRANGERپرتبصرہ لکھ رکھا تھا۔

جب جون 1943 میں سارتر کا ڈرامہ THE FLIESسٹیج ہو رہا تھا تو کیمو وہ ڈرامہ دیکھنے گئے اور سارتر سے ملے۔ سارتر نے ان کا بڑی خوش دلی سے استقبال کیا اور اپنی محبوبہ سیمون سے ملوایا۔ نومبر 1943 میں جب کیمو ہجرت کر کے پیرس گئے تو سارتر سیمون اور کیمو اپنے ادبی دوستوں کے ساتھ کیفے فلور میں ملتے ’زندگی کے الجھے ہوئے مسائل کو سلجھاتے اور غم جاناں اور غم دوراں کی بکھری ہوئی زلفوں کو سنوارتے۔

یہ 1940 کی دہائی کا وہ دور تھا جب دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے یورپ میں مایوسی اور بے معنویت کی دھند چھائی ہوئی تھی اور عوام و خواص ایک نئے فلسفے اور ایک نئے آدرش کی تلاش میں تھے۔ ان حالات میں سارتر اور کیمو نے زندگی کا ایک نیا نظریہ پیش کیا جو وجودیت کا فلسفہ کہلایا۔ اس فلسفے نے خدا اور مذہب اور روایت کو خیر باد کہا اور انسانوں کو سیکولر اور انسان دوستی کی بنیادوں پر استوار نئی آزادی اور آدرش سے روشناس کروایا۔

اس فلسفے نے انسانوں کو بتایا کہ زندگی بنیادی طور پر بے معنی ہے لیکن انسان کو اختیار ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اپنی تمناؤں اور آرزوؤں ’اپنے خوابوں اور آدرشوں سے بامعنی بنا سکتا ہے۔ کیمو اور سارتر نے بے معنویت کے بادلوں میں چھپے معنویت کے چاند کی طرف اشارہ کیا۔ چند ہی سالوں میں وہ دونوں یورپی ادیبوں‘ شاعروں اور دانشوروں کے ہیرو بن گئے۔ ان کی ادبی دوستی ضرب المثل بن گئی۔ ان دونوں کی باتیں اور ملاقاتیں اخباروں اور رسالوں کی شہ سرخیاں بن گئیں۔ ان کی ادبی و نظریاتی دوستی کئی سال تک قائم رہی۔

لیکن پھر ادبی رفاقت کے رنگ دھیمے پڑنے لگے اور نظریاتی رقابت کے رنگ غالب آنے لگے۔ اس رقابت کی بنیادی وجہ سیاسی اختلاف تھا۔

کیمو اور سارتر دونوں کا تعلق بائیں بازو کی سیاست سے تھا۔ دونوں انسانی آزادی اور سماجی انصاف پر یقین رکھنے کے باوجود روس کے کمیونسٹ نظام کے بارے میں اختلاف الرائے رکھتے تھے۔ جب کیمو نے روسی نظام پر تنقید شروع کی تو سارتر ناخوش ہو گئے۔ کیمو کا کہنا تھا کہ انسانی آزادی سماجی انصاف سے زیادہ اہم ہے۔ ہر شاعر ’ادیب اور دانشور کو آزادی ہونی چاہیے کہ وہ کسی بھی آمرانہ و جابرانہ نظام پر تنقید کر سکے۔ کیمو کی نگاہ میں روس کی کمیونسٹ ریاست میں عوام و خواص کو حکومت پر تنقید کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ روسی ادیبوں شاعروں اور دانشوروں پر حد سے زیادہ پابندیاں عاید کر دی گئی ہیں۔

کیمو ایک جمہوریت پسند سوشلسٹ تھے وہ انقلاب برپا کرنے کے لیے جبر ’جارحیت اور تشدد کے حق میں نہ تھے۔ جب کیمو نے اپنی کتاب THE REBEL میں روسی انقلاب پر تنقید کی تو سارتر کو بہت ناگوار گزرا اور انہوں نے کیمو کے خلاف ایک سخت مضمون لکھا۔ اس مضمون نے کیمو اور سارتر کی دوستی میں گہری دراڑیں ڈالیں۔ اس وقت تک سارتر کمیونزم کے حق میں تھے اور ضرورت پڑنے پر انقلاب کے لیے خون بہانے کو جائز سمجھتے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ جب انقلاب آ جائے گا اور عوام کی غربت دور ہوگی تو سب لوگوں کو آزادی ملے گی۔ وہ بڑے مقصد کی خاطر چھوٹے مقاصد کی قربانی کو جائز سمجھتے تھے لیکن کیمو کا موقف تھا کہ چاہے وہ دائیں بازو کا نظریہ ہو یا بائیں بازو کا نظریہ‘ کوئی بھی نظریہ اتنا مقدس نہیں ہے کہ اس کے لیے انسانی جانوں کی قربانی دی جائے۔ انسانی جان دائیں اور بائیں بازو کے خوابوں ’نظریوں اور آدرشوں سے زیادہ مقدس ہے۔

کیمو امن پسند سوشلسٹ انقلاب کے اور سارتر جارحیت پسند کمیونسٹ انقلاب کے حق میں تھے۔

دھیرے دھیرے ادبی رفاقت پر سیاسی رقابت حاوی ہو گئی اور دو دوست ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے۔ اس دوری میں اخباروں رسالوں اور سنسنی پسند جرنلسٹوں نے منفی کردار ادا کیا انہوں نے دو دوستوں کو افواہوں کے ساتھ ساتھ سکنڈلوں میں بھی پھنسا دیا۔ بعض غیر ذمہ دار لکھاریوں نے یہ مشہور کر دیا کہ سیمون کیمو کے ساتھ سونا چاہتی تھیں لیکن کیمو نے ان کے ساتھ سونے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ سیمون کی دوست ماریا کے ساتھ سونا چاہتے تھے۔ ایسی خبروں نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور دو ادبی رفیق سیاسی رقیب بن گئے۔

کیمو کو جب 1957 میں نوبل انعام ملا اور ایک جرنلسٹ نے سارتر سے دوستی کے بارے میں پوچھا تو کیمو نے کہا کہ اب ہم ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے بعض دفعہ دو دوستوں کا ایک دوسرے سے نہ ملنا ہی اچھا ہوتا ہے۔

کیمو 1960 میں ایک کار کے حادثے میں فوت ہو گئے۔ سارتر ان کی موت کے بعد بیس سال تک زندہ رہے اور 1980 میں فوت ہوئے۔ فوت ہونے سے چند ماہ پہلے جب کسی نے کیمو سے دوستی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ایک سرد آہ بھر کر کہا

’ وہ میرا آخری پکا اور گہرا دوست تھا‘
اس جملے میں جو درد اور کرب مخفی ہے وہ ہم سب پر اجاگر ہے۔

کیمو کی وفات کے بعد سارتر کے نظریات میں بھی تبدیلی آئی اور انہوں نے یورپی ممالک میں کمیونزم کی جابرانہ و آمرانہ حکومتیں دیکھیں تو ان پر تنقید کی لیکن اس وقت تک کیمو اس جہان فانی سے رخصت ہو چکے تھے۔

کیمو اور سارتر اپنے نظریاتی اختلاف کے باوجود انسانی آزادی کے حق میں تھے۔ ان کے راستے جدا سہی لیکن ان کی منزل ایک تھی اور وہ منزل ایک ایسے معاشرے کا خواب تھا جہاں انسان آزادی و خود مختاری و عزت نفس کی زندگی گزار سکیں گے۔

کیمو اور سارتر بیسویں صدی کے جدید ادب کے اہم نام ہیں۔ ان کی تخلیقات نے فلسفے کی روایت میں گراں قدر اضافے کیے۔

کیمو اور سارتر کی رفاقت و رقابت کی کہانی پڑھ کر مجھے بیسویں صدی کے دو اور ماہرین سگمنڈ فرائڈ اور کارل ینگ کی رفاقت و رقابت کی کہانی یاد آ گئی۔ دونوں دانشوروں نے انسانی نفسیات کے علم میں گرانقدر اضافے کیے یہ علیحدہ بات کہ فرائڈ کا خیال تھا کہ ینگ کے اعصاب پر روحانیات اور ینگ کا خیال تھا کہ فرائڈ کے اعصاب پر جنسیات سوار ہے۔ اس لیے دو نفسیاتی رفیق دھیرے دھیرے ایک دوسرے کے نظریاتی رقیب بن گئے۔ اس کہانی کی تفصیل کسی مستقبل کے کالم کے لیے چھوڑ دیتا ہوں۔

۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments