لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ : تنگ نظری کا ایک نیا طوفان آنے والا ہے؟


نومبر کے آغاز میں لاہور ہائی کورٹ کے جج شجاعت علی خان صاحب نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو اپنے 2018 میں جاری کردہ اپنے ایک فیصلہ کی تعمیل نہ ہونے کے باعث ہائی کورٹ میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ وہ کچھ وجوہ کی بناء پر ہائی کورٹ میں پیش تو نہیں ہو سکے لیکن مناسب ہو گا کہ اس موقع پر اس فیصلہ کے کچھ پہلوؤں کا تجزیہ پیش کیا جائے۔ گو کہ یہ فیصلہ ایک مسلک کے بارے میں موصول ہونے والی شکایت پر درج کیا گیا تھا لیکن اس فیصلہ کے آخر میں معزز جج شجاعت علی خان صاحب نے جو ہدایت جاری کی ہے، اس کی زد میں تمام مسالک کی طرف سے شائع ہونے والے تراجم آ جائیں گے۔

اس فیصلہ کے آخر میں جسٹس شجاعت علی خان صاحب نے یہ ہدایت دی

….the Federal as well as the Provincial Government shall ensure availability of a standard copy of Holy Qur ’an alongwith its literal meaning, at Federal, Provincial, District and Tehsil levels, duly approved by the respective Qur‘ an Boards to use it as a specimen to determine as to whether any subsequent publication qualifies the test of authenticity of original text of Holy Qur ’an and its literal meaning or not;

ترجمہ: وفاقی اور صوبائی حکومتیں وفاقی، صوبائی، ضلعی اور تحصیل کی سطح پر قرآن کریم کے ایک معیاری نسخہ اور اس کے لفظی ترجمہ کی فراہمی کو یقینی بنائیں گی۔ اس نسخہ کو قرآن بورڈ منظور کرے گا تاکہ اسے معیار بنا کر پرکھا جا سکے کہ آئندہ جو قرآن کریم کے نسخے اور ان کے تراجم شائع ہوں ان کا متن اور لفظی ترجمہ درست ہے کہ نہیں۔

اس فیصلہ میں مسلمانوں پر بھی پابندی لگائی گئی ہے کہ وہ صرف ایسے تراجم شائع کریں جو کہ حکومت کے منظور شدہ اور قرآن بورڈ کے تجویز کردہ ترجمے کے مطابق ہوں۔ اور اس سرکاری ترجمہ کو اس فیصلہ میں ”معیاری ترجمہ“ کا نام دیا گیا ہے۔

یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تمام فرقوں اور مسالک کے تراجم ایک جیسے ہیں یا ان تراجم میں کئی بنیادی فرق ہیں۔ اگر ان میں بنیادی فرق پائے جاتے ہیں تو پھر کس ترجمہ کو ’معیاری‘ قرار دیا جائے گا اور کس بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جائے گا۔ یہ بات تو یقینی ہے کہ ہمیشہ سے مسلمانوں کے مختلف فرقے ایک دوسرے سے مختلف تراجم شائع کرتے رہے ہیں۔ جب اس عدالتی فیصلہ میں ”معیاری ترجمہ“ کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے تو اس سے کس مسلک اور کس فرقہ کا ترجمہ مراد تھا؟ اور کیا پھر ہم باقی فرقوں کے تراجم کو غیر معیاری قرار دیں گے؟ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایک ہی فرقہ اور مسلک سے وابستہ علماء ایک دوسرے سے مختلف تراجم شائع کرتے رہے ہیں۔

جب ہم اس عدالتی فیصلہ کا جائزہ لیتے ہیں تو قرآن کریم کے تراجم کے بارے میں اس فیصلہ میں ایک اصطلاح بار بار استعمال کی گئی ہے اور وہ ’Literal Meaning‘ کی اصطلاح ہے۔ اور آخر میں جج صاحب نے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو یہ ہدایت بھی جاری کی ہے کہ ہر سطح پر قرآن کریم کے Literal Meaning کے ساتھ تراجم مہیا کیے جائیں جن کو معیار بنا کر نئے شائع ہونے والے تراجم کو پرکھا جائے۔ معلوم ہوتا ہے کہ فیصلہ لکھتے ہوئے جج صاحب کے ذہن میں یہ تھا کہ خاص طور پر عربی زبان میں ایک لفظ کا ایک ہی مطلب ممکن ہے۔

اگر اس کے علاوہ اگر کوئی شخص کوئی اور مطلب کرے تو یہ غلط بلکہ قابل سزا جرم ہے۔ حالانکہ بزرگ علماء نے اس بات کو قرآن کریم کے معجزہ کے طور پر بیان کیا ہے کہ اس میں استعمال ہونے والے الفاظ کے ایک سے زائد معانی ہوتے ہیں اور سب اپنی جگہ پر صحیح ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف ’الاتقان فی علوم القرآن‘ میں تحریر کرتے ہیں قرآن کریم میں استعمال ہونے الفاظ میں ’وجوہ‘ وہ الفاظ ہیں جو کہ کئی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ علماء کے نزدیک یہ بات قرآن کریم کا معجزہ ہے کہ اس کا ایک ایک کلمہ بیس یا اس سے زائد یا اس سے کم وجوہ پر پھرتا ہے اور یہ بات انسان کے کلام میں نہیں پائی جاتی۔ اور پھر لکھتے ہیں کہ کوئی شخص اس وقت تک پورا فقیہ نہیں ہو سکتا جب تک وہ قرآن کی بہت سی ”وجوہ“ پر نظر نہ رکھتا ہو۔ [الاتقان فی علوم القرآن جلد 1، تالیف علامہ جلال الدین سیوطی، مترجم محمد حلیم انصاری۔ ناشر ادارہ اسلامیات لاہور ص 372 ]

اسی طرح احادیث میں بھی یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ قرآن کریم ذوالوجوہ ہے یعنی ایک سے زیادہ وجوہ یا معانی رکھتا ہے۔ [سنن دارقطنی کتاب النوادر، کنز العمال جزء 1 ص 551۔ حدیث 2469 ]

اور یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ اس دور میں جو اردو تراجم شائع کیے گئے ہیں کیا وہ ایک جیسے ہیں؟ یا وہ ایک دوسرے سے بنیادی طور پر مختلف ہیں۔ ان تراجم میں سے سورۃ تکویر کی آیت 6 کے چند تراجم ملاحظہ ہوں۔

شاہ رفیع الدین صاحب اس کا ترجمہ کرتے ہیں
”اور جس وقت دریا جھونکے جاویں گے“
سید فرمان علی صاحب اس کا ترجمہ کرتے ہیں
”اور جس وقت دریا آگ ہوجائیں گے“
مودودی صاحب اس کا ترجمہ کرتے ہیں
” اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں گے“
اور طاہر القادری صاحب اس کا ترجمہ کرتے ہیں
”جب سمندر اور دریا [سب ] ابھار دیے جائیں گے۔“

یہ صرف چار مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ ان میں سے کون سا ترجمہ معیاری ہے اور کون سا غیر معیاری؟ مثال کے طور پر اگر طاہر القادری صاحب کا ترجمہ صحیح قرار دیا جائے تو باقی تراجم کی اشاعت کو جرم قرار دینا پڑے گا۔ اس صورت میں جو مسائل پیدا ہوں گے وہ ظاہر ہیں۔

اب اس سے اگلی آیت کریمہ یعنی سورۃ تکویر کی آیت 7 کے تراجم پیش کیے جاتے ہیں
شاہ رفیع الدین صاحب اس کا ترجمہ کرتے ہیں
”اور جس وقت جانیں قسم قسم کی ملائی جاویں گی۔“
سید فرمان علی صاحب اس کا ترجمہ کرتے ہیں
”اور جس وقت روحیں [ہڈیوں سے ] ملا دی جائیں گی۔“
اور مودودی صاحب اس آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں
” اور جب جانیں [جسموں سے ]جوڑ دی جائیں گی۔“
اور طاہر القادری صاحب اس کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں
”اور جب روحیں [بدنوں سے ] ملا دی جائیں گی۔“
سورۃ نبا کی آیت 20 کے مختلف تراجم اس طرح ہیں
سید فرمان علی صاحب نے اس کا ترجمہ یہ کیا
”اور پہاڑ[ اپنی جگہ] سے چلائے جائیں گے تو ریت ہو کر رہ جائیں گے۔“
مودودی صاحب کا ترجمہ یہ ہے
” اور پہاڑ چلائے جائیں گے یہاں تک کہ وہ سراب ہو جائیں گے۔“
طاہر القادری صاحب کے نزدیک اس کا ترجمہ یہ ہے
”اور پہاڑ [غبار بنا کر فضا میں ] اڑا دیے جائیں گے، سو وہ سراب[ کی طرح کالعدم ] ہو جائیں گے۔“

ایسا نہیں کہ صرف اس دور ہی میں مختلف الفاظ کے مختلف معانی کیے جا رہے ہیں بلکہ ہمیشہ سے مختلف مفسرین مختلف الفاظ کے مختلف معانی کرتے رہے ہیں بلکہ ایک ہی تفسیر میں مختلف الفاظ کے کئی معانی بیان کیے گئے ہیں۔ سورۃ مطففین کی آیت 7 میں ایک لفظ ”سجین“ استعمال ہوا ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں بیان کیا گیا ہے کہ بعض علماء کے نزدیک لفظ ’سجینٍ‘ سے مراد زمین کی تہہ میں ساتویں زمین کے نیچے ایک سبز رنگ کی چٹان ہے۔ اور بعض کے نزدیک یہ جہنم کے ایک گڑھے کا نام ہے۔ [ تفسیر ابن کثیر اردو ترجمہ از محمد جونا گڑھی جلد 6 ناشر فقہ الحدیث پبلیکیشنز مارچ 2009 ص 538 ]

آپ پرانی تفاسیر اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو ہر ایک میں اس قسم کی سینکڑوں مثالیں مل جائیں گی۔ اس طرح تو ان تفاسیر پر بھی پابندی لگانی پڑے گی کیونکہ ایک معترض یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ ان تفاسیر میں غیر معیاری مطالب بیان کیے گئے ہیں۔

ریاست کا کام صرف ریاستی امور کو سر انجام دینا ہے۔ اگر ریاست کا کوئی ادارہ بھی بغیر مناسب علم اور جائزہ اور اختیار کے علمی اور مذہبی معاملات میں اس طرح کی دخل اندازی شروع کر دے تو اس کا نتیجہ وہی نکلے گا جو اب پاکستان میں نکل رہا ہے۔ اگر حکومت یہ منصوبہ بنا رہی ہے کہ وہ اپنا بنایا ہوا ترجمہ نافذ کرے گی اور باقی تمام تراجم کو غیر قانونی قرار دے دیا جائے گا تو یہ مختلف فرقوں اور مسالک کی مذہبی آزادی میں دخل اندازی ہو گی۔ اور ملک تنگ نظری اور مقدمہ بازی کے ایک نئے طوفان کی زد میں آ جائے گا۔ پارلیمنٹ ہو یا کابینہ ہو یا عدالت ہو یا اور کوئی ادارہ ہو اس سب کو اپنے اپنے دائرہ کار تک محدود رہنا چاہیے۔ علمی اور مذہبی بحثیں ان اداروں کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments