حمیرا اشفاق کا افسانہ ”کتبوں کے درمیان“ ایک مسموم نوحہ


اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ بعض طرائق و افعال میں انسان بے اختیار ہوتا ہے، اس کی شعوری طور پر جذباتی وابستگی اس حوالہ سے کہیں پیچھے رہ جاتی ہے، بلکہ یہاں ہم آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ تبھی وہ لاشعور کے زیر اثر اور مجبور محض ہوتا ہے، جو اسے بے اختیار اور بے بس کیے دیتا ہے، بعض دفعہ گزرا ہوا معروض جو کہیں اب انسان کے لاشعور کا حصہ بن چکا ہوتا ہے، ایک دم ”اضافی معروض“ کے ساتھ اس کے شعور میں آ جاتا ہے، لیکن وہی ”اضافی معروض“ ایک نئے طور سے لاشعور میں پھر سے جگہ پا جاتا ہے۔

مثلاً اسی بات کو اس کی شہر کے باسیوں سے جانکاری مگر پھر بھی ناواقفیت میں دیکھا جا سکتا ہے، اور دوسرا بے اختیاری پوزیشن میں شہر کی جانب جانا، یہ دو باتیں ہمیں اس افسانہ کے آغاز میں نظر آتی ہیں، جب اس کے مرکزی کردار کو ایک ایسے شہر سے ہو کر آتا ہے اور پھر اسی جانب وہ کھنچتا چلا جاتا ہے، حالانکہ راستے میں اس کا ہم زاد زیرک ہونے کے باوجود بھی کام نہیں آتا حتی کہ وہ شہر کے عین وسط میں جا پہنچتا ہے، پہلے ہم یہاں ہم زاد کا بے رحم شہر کی طرف مسافت سے مانع مگر دلی ہمدردی سے بھرا ہوا محتاط جملہ رقم کیے جاتے ہیں۔

”دیکھو! میں نے اس شہر کے بارے میں عجیب عجیب باتیں سن رکھی ہیں، تم اس طرف مت جاوٴ۔“

مظلوم و بے رحم شہر، بے اختیار پوزیشن اور بنیادی انسانی اقدار کے روادار و ترجمان کو شہر آشوب اپنی جانب کیسے کھینچتا ہے، ذرا دھیان سے اس کی اپنے لاشعوری زاد کو جوابی کلامی میں ملاحظہ کریں۔

”میرے قدم مجھے اس طرف زبردستی لیے جا رہے ہیں، اس شہر میں جانا یا نہ جانا میرے بس میں نہیں رہا۔“

یہ کہانی اس کردار کی ہے جس کا وجود ایک مضطرب تجسیم کا مالک ہے، یہ قصہ اس شہر کا ہے جو سوختہ سروں کا انت بے اجل سموئے ہوئے ہے، اس شہر میں ہر کردار بے برگ و نوا دکھائی دیتا ہے، مرکزی کردار کا باطن بھی ہو کے عالم سے بھر جاتا ہے، یہاں تک کہ شہر اسے ایک مجرد کردار بنا دیتا ہے وہ بے حس حرکت ہو جاتا ہے، شہر میں اسے راہ چلتے لوگوں کی ایک ایسی قطار نظر آتی ہے، اس کی نظریں اسے تب تک باقی دیکھتی ہیں جب تک کہ وہ قطار دھندلی نہیں ہو جاتی۔

جہاں یہ افسانہ کلی طور پر ایک قصہ سوہان روح ہے وہیں اس میں عورت کے حوالے سے ”شناخت“ کا مغالطہ بھی در آیا ہے، ہم ”شناخت“ کا مقدمہ اٹھائے دیتے ہیں، یہاں جس کا قضیہ مشرقی عورت کے حوالے سے پیش کیا جائے گا، اس کی وجہ ہمارے یہاں میل ڈومیننٹ سوسائٹی کا واضح کردار نظر آتا ہے، جو کہ ماورائی مہا بیانیے کا پیدا کردہ ہے، اگر ہم معاصر صورت حال کو دیکھیں تو مابعد جدید معاشروں میں ”شناخت“ کا قضیہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے، محض عورت کی شناخت کو ہی نہیں بلکہ مابعد جدید سماج میں ہر طرح کی شناخت کے تصور کو رد کیا جا چکا ہے، ہر شے اپنی فطرت پہ پیدا ہوتی ہے، شناخت کے معاملات تو بعد کی پیداوار ہوتے ہیں، جیسے مرکزی کردار خود کلامی کرتے ہوئے کہتا ہے، ”عورت تو بے شناخت پیدا ہوتی ہے“ ، شناخت کے تصور کو خیر باد کہنا ہو گا تبھی جا کر ایک ساکشاتی سماج قائم ہو گا، یعنی برابری والا یعنی حقیقی۔

مجھے یہ کہانی واضح اعتبار سے لاشعور سے شعور کی طرف مراجعت کرتی نظر آتی ہے، جیسے کہ آغاز میں مانوس و نامانوس کی درمیانی کیفیت، بے اختیار متزلزل مسافرت اور اب یہاں کتبوں کے نام سے لاشعور کی طرف سفر اور پھر مانوسیت سے ان کا اور انہی سے جڑے واقعات کا شعور میں آنا، اس ساکھ سے بلا تامل ہم کہہ سکتے ہیں کہ لاشعور سے شعور کی طرف سفر کرتے اس کتھا کے واقعات ہیں۔

”دوسرا کتبہ، تیسرا اور پھر چوتھا کتبہ اسی طرح کے کئی مکان اور ان کے باہر لگے کتبے، مگر میری نظر ایک اور مانوس نام پر ٹھہر گئی، یہ نام میری ہم جولی ثمینہ کا تھا۔“

دفتر شہر میں موجود کتبوں سے ہٹ کر یہاں ”کتبہ“ کو ایک استعارے کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے، یعنی ظلم کا استعارہ۔ ہر کتبہ ہی اپنا مسموم نقیب نظر آتا ہے، کیونکہ محض ثمینہ ہی ظلم کی بھینٹ نہیں چڑھتی بلکہ امام خاتون بھی اپنوں کے ہاتھوں ظلم کی بھٹی میں جھونک دی جاتی ہے۔ متن میں ہی اپنی مکمل وضاحت لیے زینو کے کتبے کا پس منظر استعارے کی صریح مثال ہے۔

”ثمینہ نے ایک خط میں بتایا تھا کہ زینو سے ایک وڈیرے کے بیٹے نے زبردستی نکاح کر لیا۔ وہ نکاح نہیں کتبہ تھا جس پر اس نے اپنے ہاتھ سے انگوٹھے کا نشان لگایا تھا۔“

ہم یہاں لاشعور کی ایک مثال اور پیش کیے دیتے ہیں، مرکزی کردار، شہر مدفن میں جب امام خاتون کا کتبہ دیکھتی ہے تو وہ برجستہ کہہ اٹھتی ہے کہ ”ارے یہ ایک اور کتبہ“ امام خاتون ”کا تھا۔ یہ نام میرے بچپن سے گہرا جڑا ہوا تھا۔“ اس واقعہ کی داستان بھی اس کے بچپن سے جڑی ہوئی تھی اور کتبے کو دیکھتے ہی ایک دم اس کی سامنے آ جاتی ہے۔

شہر مدفون میں ایک لڑکی کے گول چہرہ سے شناسائی بھی لاشعور میں سر خشت چہروں اور واقعات میں سے تھا، یہاں ہمیں کہانی کے مرکزی کردار کے حواس دلبرداشتہ ہوتے دکھائی دیتے ہیں، چونکہ اس پسچنا حالت میں اس کا دل بھر جاتا ہے جبکہ وہ اس کیفیت سے جلد نکلنا چاہتی ہے، تبھی اس کے قدم آگے کی جانب بڑھتے نظر آتے ہیں، مذکورہ دونوں باتوں کا احوال انہی کی زبانی ملاحظہ کریں۔

” تصویر کے چوکھٹے میں سجی دو چوٹیوں والی لڑکی کا گول چہرہ کچھ شناسا سا لگا مگر اتنے ماہ و سال بیتنے کے بعد چہروں اور واقعات میں مطابقت قائم کرنا میرے بس میں نہ تھا۔ ہمزاد نے پھر آگے بڑھنے کا ٹہوکا دیا مگر دل پیچھے اور قدم آگے کی طرف جا رہے تھے۔“

اس افسانے میں لاشعور سے شعور کی طرف سفر کرتی کہانیوں کے واقعات ہیں مگر حقیقتاً ہم اسے عورت کا نوحہ کہیں گے کیونکہ اس کی کہانی اس کتبوں کے شہر کی ہے جہاں ہر کتبہ ظلم کی تاریخ پیش کر رہا تھا اور بالائے ستم ظلم کی داستانیں عورت کے کتبوں سے جڑی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments