یہ کیا ہو رہا ہے؟


آج سے چند سال پہلے پاکستان کے مشہور سنگر شہزاد رائے کا ایک گانا ریلیز ہوا۔ وہ گانا بہت آسان زبان میں تھا اور جس جس نے وہ گانا سنا اس کو باخوبی سمجھ آ گیا۔ سب سے پہلے اس گانے کے چند بول یاد کرتے ہیں :

بزرگوں نے مجھ سے پوچھا :ملک کیسے یہ چلے گا؟

بزرگوں کو میں یہ بولا : مجھے فکر یہ نہیں کہ ملک کیسے چلے گا؟ مجھے فکر یہ ہے کہ کہیں ایسے ہی نہ چلتے رہے۔

گانے کے یہ چند بول پاکستان کے مجموعی حالات کی بھرپور نمائندگی کر رہے ہیں۔ یہ گانا آپ 70 کی دہائی میں سنتے، یا 80 کی دہائی میں، یا پھر آج سنیں آپ کو ہمیشہ یہ ہی محسوس ہو گا کہ کیا خوب عکاسی پاکستان کے موجودہ حالات کی۔

ہمارا ملک، ملک نہ ہوا البتہ کوئی لیبارٹری ہو گئی، جہاں تجربات کے لامتناہی سلسلے جاری رہتے ہیں۔ ایٹمی ملک، 22 کروڑ آبادی والا جہاں چند لوگ باری باری کھیلتے رہتے ہیں۔ کوئی آئین کے نام پر، کوئی جمہوریت کے نام پر، کوئی قانون کے نام پر اور کوئی بزور طاقت عوام پر طاری رہتے ہیں۔ حکمران کی بادشاہی کیفیت جاری رہتی ہے البتہ چہروں میں رد و بدل ہوتا رہتا ہے۔

ذرا غور کریں، ہمارے ملک میں آخر چلتا کیا رہتا ہے۔ ؟ صرف سازشیں رچی جاتی ہیں۔ اقتدار سے باہر رہنے والے اقتدار حاصل کرنے کے لئے سازشیں رچتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، پروپیگنڈے کرتے ہیں اور مسلسل سازش کا جال بنتے جاتے ہیں۔ اور جو اقتدار میں ہے وہ پرانے والوں کو کوستے رہتے ہیں اور اقتدار پر تادیر قابض رہنے کے لئے جتن کرتے ہیں۔

اصولی سیاست کے نعرے مٹی میں ملا کر وصولی سیاست میں لگ جاتے ہیں۔ بس یہ ہی سوچا جاتا ہے کہ تادیر اقتدار میں رہنا ہے اور پھر دوبارہ آنے کے لئے کیا راستہ بنایا جاسکتا ہے۔ اقتدار کو مضبوط کرنے والی کڑیاں مطلب پرست ہوتی ہیں وہ اپنی خود ساختہ طاقت بنا کر رکھتی ہے اور بہترین موقع پر اپنا کردار تبدیل کر کے مفاد کی جانب کوچ کر جاتی ہے۔

کوئی مذہب کارڈ استعمال کرتا ہے اور کوئی لسانی کارڈ استعمال کرتا ہے۔ اس نظام میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو کسی خاص مقصد کے لئے کوئی پودا لگاتے ہیں لیکن استعمال کے بعد اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر ایک وقت آتا ہے پودا لگانے والے اس پودے کو چھوڑ دیتا ہے اور پھر اس پودے سے کانٹے نظام کے پاؤں کو زخمی کر دیتا ہے۔

سرکس کا ایک وقت ہوتا ہے، ایک جگہ ہوتی ہے، کرتب دیکھنے والوں کو پتا ہوتا ہے کہ اب کون سا حیرت انگیز مظاہرہ ہو گا۔ لیکن یہ پاکستانی نظام سیاست کا سرکس اتنا عجیب ہے کہ تماشا دیکھنے والوں کے ساتھ دو دو ہاتھ ہو جاتے ہیں اور انھیں خبر نہیں ہوتی اور پھر تالیاں بھی بجاتے ہیں بلکہ تالیاں پیٹتے ہیں اور ان کو لگتا ہے کے تماشا دکھانے والے ان کے خیر خواہ ہے۔

ایک چھوٹا سا گھر ہوتا ہے اس کا نظام بنایا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ وہ مضبوط ہوتا ہے۔ گھر کے ہر فرد کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے اور اگر کوئی بھی شخص اس ذمہ داری کو پورا نہ کریں تو گھر کے نظام میں خلل آتا ہے۔ نظام نہ صرف ایک شخص بلکہ ہر ادارے کی ضرورت ہوتا ہے اور نظام پر چل کر ہی اس ادارے کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔

اب ذرا ملک کے اداروں کی جانب نظر کرتے ہیں۔ ان سب سے قطع نظر کون کر رہا ہے کیوں کر رہا ہے لیکن کیا ملک ایسے ہی چلتے ہیں؟ ہر کوئی اپنے حدود سے باہر نکل کر کام کر رہا ہے اور اپنے متعین کردہ کام کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتا ہے۔ کبھی آڈیو ٹیپ تو کبھی کوئی ویڈیو ٹیپ، کبھی کوئی لیکس تو کبھی کوئی پیپر، بس انھی چکروں میں عوام الجھی رہتی ہے۔ بس یہ ہی ہوتا رہتا ہے اس ملک میں اور خوف یہ ہے کہ کب تک چلتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments