غرقاب ہوتے ہوئے پناہ گزین۔ نئی عالمی صف بندی میں ایک انسانی ہتھیار


ان دنوں جبکہ پاکستانی اخبارات کی شہ سرخیوں میں آڈیو لیک، گیس کا بحران، مہنگائی کے قائم ہوتے ہوئے نئے ریکارڈز وغیرہ پیش پیش ہیں وہیں یورپ میں پناہ گزینوں سے متعلق خبریں آئے دن سیاسی درجۂ حرارت کو بڑھا رہی ہیں۔ دو دن قبل فرانس کے ساحلی علاقے کیلے سے پلاسٹک کی کشتی میں سوار ہو کر برطانیہ جانے کے خواہاں 27 افراد کی اندوہناک غرقابی نے اس بارے میں نئی بحث کا آغاز کیا ہے کہ اگر ان پناہ گزینوں کی جان کو اپنے ملک میں خطرہ ہے تو یہ انگلستان تک راہ میں آنے والے درجن بھر ممالک میں سے کسی ایک میں کیوں نہیں رک گئے۔ یہ مسئلہ فرانس اور برطانیہ میں پہلے سے موجود کشیدگی میں مستقل اضافہ کر رہا ہے۔

پچھلے ڈیڑھ دو ماہ میں کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جن کا پناہ گزینوں سے گہرا تعلق ہے۔ اکتوبر کے وسط برطانوی کنزرویٹو رکن پارلیمان ڈیوڈ امیس کو ان کے حلقے میں ایک نوجوان علی حربی نے چاقو کے وار کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ حربی خود برطانیہ میں پیدا ہوا جبکہ اس کے والدین صومالیہ سے ہجرت کر کے برطانیہ آئے تھے۔

اس واقعہ کے کچھ دن بعد لیورپول میں ایک اسپتال پر بم سے حملہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے عماد السویلمین نامی عراقی/اردنی نژاد شخص جاں بحق ہو گیا۔ بتایا گیا کہ برطانیہ ہجرت کے بعد وہ عیسائی ہو گیا تھا۔ عیسائی مبلغین بھی دوسرے ادیان کے مبلغین کی طرح عقل و فہم سے کافی عاری ہوتے ہیں اور انہیں بھی بہت سی خوش فہمیاں لاحق ہوتی ہیں۔ یہ پناہ گزینوں کے کیمپوں میں بہت فعال ہوتے ہیں۔

ان دونوں واقعات کے بعد سے برطانوی داخلی سیکورٹی کے اداروں نے اسلامی دہشت گردی کے شدید خطرے یعنی تھریٹ لیول کا انتباہ جاری کر دیا ہے۔

سپین میں طیارے کی ہنگامی لینڈنگ کا واقعہ

رواں مہینے ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جب مراکش سے ترکی جانے والی ائر عربیہ کی فلائٹ میں سوار ذیابیطس کے شکار ایک شخص کی حالت اتنی بگڑ گئی کہ فوری طور پر پرواز کا رخ موڑ کر اسے ہسپانوی جزیرے میلورکا میں اتارنا پڑا جہاں جہاز میں سوار دو درجن مسافر سگریٹ پینے کا بہانہ بنا کر زبردستی باہر نکلنے میں اور اس چھوٹے سے ہوائی اڈے کے گرد موجود رکاوٹوں کو عبور کر کے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ تمام افراد مختلف النسل عربی نژاد تھے۔ بیمار شخص کو اسپتال لے جایا گیا جہاں طبی معائنہ سے ظاہر ہوا کہ نہ اسے ذیابیطس تھی اور نہ ہی وہ بیمار تھا بلکہ یہ منظم ڈرامہ کچھ مسافروں کو بحفاظت خطۂ یورپ تک پہنچانے کے لئے رچایا گیا تھا۔

بیلاروس اور پولینڈ کا سرحدی بحران

ترکی سے غیر قانونی طور پر یورپ داخل ہونے کا روایتی راستہ یونان سے ہو کر گزرتا ہے جس میں انسانی اسمگلر خطیر معاوضہ کے عوض ہوا بھری غیر محفوظ کشتیوں میں گنجائش سے زیادہ مہاجرین کو لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں کشتیاں الٹنے سے کتنے ہی انسان سمندر برد ہو جاتے ہیں۔ ایک گزر گاہ کوسوو، کروایشیا اور بوسنیا جیسے خطرناک علاقوں کے جنگلات سے گزرتی ہے۔ جہاں منتظر مافیاز اور وار لارڈ مہاجرین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے لئے بدنام ہیں۔ مہاجر بچے اور خواتین یہاں فعال ٹریفیکر کے ہاتھوں سے گزر کر تاعمر غلامی اور جسم فروشی کے دائروں میں گھومتے رہتے ہیں۔

ان پرخطر راہداریوں میں حال ہی میں ایک نئے فضائی روٹ کا اضافہ ہوا جب روس کے ساتھ لگے ملک بیلا روس میں ترکی سے طیاروں میں بھر بھر کر ”سیاح“ لائے جانے لگے۔ جنہیں قیمتاً پولینڈ کی سرحد پر موجود جنگل میں پہنچا دیا جاتا ہے اور پھر بیلاروسی فوجی عقب سے ہوائی فائرنگ کر کے انہیں پولینڈ کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ جہاں متعین پولش فوجی لاٹھیوں، کرنٹ اور ہوائی فائرنگ سے مہاجرین کو واپس بیلاروس کی طرف پسپا کرتے ہیں۔ یہ خوفناک عمل کئی ہفتے سے جاری ہے۔ اور سرحدی جھڑپوں کا باعث بن رہا ہے۔ یورپی یونین اس بحران کا قصوروار ترک مرد آہن اردگان، روسی ڈکٹیٹر پیوٹن اور بیلاروس میں چھ دفعہ مسلسل“ منتخب ”ہونے والے الیکسں ڈر لکاشینکو کو ٹھہراتے ہیں۔

مہاجرین کے بار بار بحران

عراق پر پہلی امریکی فوج کشی کے بعد سے اپنے وطن سے در بدر ہو کر یورپ کی طرف رواں دواں مہاجرین کے بحران میں اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔ 2011 ء کی عرب بہار اور پھر شام میں بشار الاسد کی حکومت کو الٹنے کے لئے جب داعش نما تنظیموں نے مشرق وسطی اور افریقہ کے کئی ممالک میں جاری خاک اور خون کی ہولی میں اپنا حصہ ڈالا تو جان بچا کر بھاگنے والوں سے یورپ جانے والے تمام بری، بحری اور فضائی راستے اٹ گئے۔ 2015 ء میں ایلان الکردی نامی ننھے بچے کی ترک ساحل پر پڑی لاش کافی عرصے عالمی ضمیر کو جگانے کی ناکام کوشش کرتی رہی۔ پناہ گزینوں میں شامی، افغانی، عراقی، اریٹیریائی اور سوڈانی پیش پیش ہیں۔ ان میں پاکستانی بھی شامل ہوتے ہیں۔

مہاجرین مسلمان ممالک میں کیوں نہیں جا رہے؟

ترکی، لبنان، پاکستان، بنگلہ دیش ایسے مسلم ممالک ہیں جنہوں نے اپنے محدود وسائل کے باوجود لاکھوں مہاجرین کو سر چھپانے کی جگہ دی ہوئی ہے لیکن ان ملکوں میں نوکری، صحت اور بچوں کی تعلیم کا مناسب انتظام نہیں۔ اگر بات مشرق وسطی میں موجود سعودیہ، قطر، امارات جیسی امیر ریاستوں کی کریں جہاں شریعت بھی نافذ ہے تو ان کا قانونی طور پر بیرون ملک سے آ کر نوکری کرنے والوں کے ساتھ حسن سلوک کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سعودیہ تو خود بدحال اور مسکین یمن سے برسرپیکار ہو کر تباہی اور آبادی کے انخلاء کا باعث بن رہا ہے یہی وجہ ہے کہ پناہ گزین ہر خطرہ مول لے کر کسی بھی طرح ان ترقی یافتہ یورپی ممالک تک پہنچنے کے متمنی ہیں جہاں انہیں تحفظ اور بنیادی انسانی حقوق، بیروزگاری الاؤنس، نوکری کرنے کا حق، بچوں کو تعلیم اور حق شہریت کی امیدیں دکھائی دے رہی ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ پیسے جمع کر کے پیچھے رہ جانے والے رشتہ داروں کی مدد کرسکیں گے۔ ایک معینہ مدت بعد پاسپورٹ حاصل کر کے وہ وطن کا دورہ کر سکیں گے اور اپنے قریبی عزیزوں کے لئے ویزہ حاصل کرنے میں مددگار ہوں گے۔

بدلتے ہوئے حالات ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک سراب بننے جا رہا ہے۔

کردوں کی حالت زار

سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے ہونے کے بعد سے کئی ملکوں میں بکھری کرد قوم کے آلام میں ہر گزرتے دن اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔ ان کی زندگی ایران میں اجیرن ہے، عراقی صدر صدام نے ان کا قتل عام کیا، ترکی میں انہیں کچلا جاتا ہے۔ خلیجی جنگ کی ابتداء میں امریکہ نے ان سے علیحدہ ملک بنا کر دینے کے وعدے پر تعاون حاصل کیا۔ جب داعش فعال ہوئی تو ساری دنیا نے وڈیوز میں کرد ملیشیا کی خواتین کو بڑی بہادری سے لڑتے اور علاقوں کو آزاد کراتے دیکھا۔

پھر اچانک امریکی صدر ٹرمپ نے کردوں کو دھوکہ دیتے ہوئے ترک قائد اردگان کو ان کا پیچھا کرنے اور مارنے کی اجازت دے دی۔ اس بارے میں صدر بائیڈن کی پالیسی ٹرمپ سے بالکل مختلف ہے لیکن پچھلے دو سالوں میں کردوں کے لئے زمین بہت تنگ کردی گئی ہے اور یورپ کی طرف جاتے ہوئے پناہ گزینوں میں ان کی بہت واضح تعداد نظر آتی ہے۔

یورپ میں رائٹ ونگ سیاست

2015 ء کے مہاجرین کے بحران کا نتیجہ 2016 ء میں برطانیہ میں بریکسٹ کی شکل میں سامنے آیا تھا۔ مختلف سروے رپورٹس نے ثابت کیا کہ یورپ سے علیحدگی کے ووٹ میں سب سے اہم عامل برطانوی عوام کی یہ خواہش تھی کہ باہر سے افراد یہاں کا رخ نہ کریں۔ یہ فضاء بنانے کے لئے دروغ گوئی کا سب سے بڑا ریکارڈ قائم کرنے والے یو کے آئی پی کے نائجل فراج پھر سے فعال ہوچکے ہیں۔ اٹلی، فرانس، سویڈن، ڈنمارک، جرمنی سمیت تمام ممالک میں مہاجرین مخالف رائٹ ونگ بہت متحرک اور مقبول ہو رہا ہے۔

رودبار انگلستان کے دونوں طرف کھڑے فرانسیسی میکرون اور برطانوی بورس جانسن ایک دوسرے کو مکے دکھا رہے ہیں۔ اردگان دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر یورپ نے فوری طور پر ترکی کو مالی امداد فراہم نہیں کی تو وہ لاکھوں مہاجرین کو سمندر میں کودنے سے نہیں روکیں گے۔ بیلاروس کے صدر یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ پولش سرحد تک ہزاروں مہاجرین کی آمد میں ان کی مرضی اور معاونت شامل ہے دھمکاتے ہیں کہ اگر انہیں سیاسی اور مالی مدد نہ دی گئی تو وہ اس موسم سرما میں یورپ کو جانے والی گیس کی سپلائی کاٹ دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments